زریں اختر
جامعہ اُردو کا جلسۂ تقسیم اسناد ، اس کے ساتھ ‘سالانہ’ ضرور لکھا جاتا ہے کیوں کہ جامعات میں اس کا انعقاد ہر سال کیاجاتاہے لیکن جامعہ اُردو اس سے بوجوہ محروم رہی اس لیے لفظ ‘سالانہ ‘بھی اس کے لیے مرحوم ہوگیا۔ ٢٨ ِ جنوری ٢٠٢٥ء کو جب کہ اُردو کالج کو جامعہ کا درجہ ملے تقریباََ٢٣ برس ( ٢٠٠٢ء سے) ہوگئے ،یہ پانچ واں جلسہ تقسیم اسناد تھا ،مقام گورنر ہائوس ۔ اس میں ٢٠١٣ء سے ٢٠٢٢ء تک کے طالب علموں کو مدعو کیاگیاتھا،ماقبل ٢٠١٣ء میں ہوا تھا یعنی یہ لگ بھگ گیارہ سال بعد منعقد ہو سکا۔ وہ سرگرمی جو ہر سال ہوتی ہے دس دس سال بعد ہو تو تقریب کی تیاری اور ادارے کے حالات کی گھمبیر تا کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔
اس موقع پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری، وفاقی وزیر ِ تعلیم خالد مقبول صدیقی اور شیخ الجامعہ ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کی تقاریر میںسے چنیدہ خیالات کو اس تحریر کے لیے منتخب کیاہے ۔
شیخ الجامعہ نے تمام علاقائی زبانوں کو گلدستے سے تشبیہ دی ، وفاقی وزیر تعلیم نے قوموں کی ترقی کا راز قومی زبان کو قرار دیااور گورنر سندھ کے نزدیک جامعہ اُردو کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ لفظ ہی ”اُردو ” ہے۔”زبان ” مختلف سمتو ں میں انتہائی وقیع مباحث رکھتی ہے ۔ شیخ الجامعہ کے خیالات تقریب کی مناسبت سے نہایت موزوں تھے ۔ یہ کسی اردو لغت کے مقدمے یادیباچے میں پڑھا تھا جس میں علاقائی زبانوں کو گل دستے سے تشبیہ دی گئی تھی ۔
اُردو زبان کسی صوبے کی نہیں لیکن یہ تمام صوبوں میں اس سرزمین سے نمو پانے والی واحدرابطے کی زبان کا شرف رکھتی ہے ۔ پہلے انگریزی کے حاوی ہونے کی وجہ اس کا آقائوں کی زبان ہونا تھا، پھر اشرافیہ کا اس کو سرکاری زبان کا درجہ دینا او راب عوامی سطح پر اس کی جو حیثیت تسلیم شدہ ہے وہ اس کا جدید علوم کی زبان ہوناہے۔ لوگوں کو کسی زبان سے بیر کیوں کر ہوسکتاہے؟،اور اگر ہوتاہے تو نفرت کی فصل عوام ہی کاٹتے ہیں جواب سمجھ چکے ہیں کہ اس کا بیج کو ن بوتاہے ۔ میں دہرائوں گی کہ اس موقع پر شیخ الجامعہ کی تقریر ان کے منصب کی پاسدار تھی۔
وفاقی وزیر تعلیم اب تک قومی زبان کے مغالطۂ عظیم میں مبتلا ہیں۔
ایک طرف مادری زبان کی اہمیت سائنسی بنیادوں پر صدیوں کی تسلیم شدہ، ابتدا میں مادری زبان میں تعلیم بچے کی ذہنی پرداخت میں جو کردار ادا کرتی ہے وہ اس میں تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتاہے۔دوسری طرف علاقائی زبان و ثقافت ایک بڑی سچائی کی تشکیل کرتی ہیں جس کانام ہے ”شناخت ” ۔ تمام علاقائی زبانیں قومی زبان کہلائے جانے کا زمینی، پیدائشی ، ازلی اور آفاقی حق رکھتی ہیں ۔ یہ کسی سیاسی وژن اظہار نہیں تھاکہ ڈھاکہ میں واحد قومی زبان” اُرڈو اُرڈواور اُرڈو ”کا راگ الاپا جاتا، نتیجہ توعوام نے ہی بھگتناتھا۔ اگر سیاست دانوں نے انگریزوں کے فارمولے ”لڑائو اور حکومت کرو” پر عمل نہیں کرنا تو اس آئینی ترمیم میں کیا دیر ہے ”کہ اس سرزمین پر بولی جانے والی ہر زبان قومی زبان کا درجہ رکھتی ہے ”،کیوں کہ ابھی زبان پر بات ہو رہی ہے اس لیے کوئی اور ذکر نہیںیابس اتنا کہ زبان اور مذہب کو سیاسی ہتھیار بنانا آخر کب تک؟
گورنر سندھ کی اس تقریب میں کی گئی زبانی تقریر نے کہ انہوں نے لکھی ہوئی تقریر یہ کہہ کر واپس کردی کہ وہ دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں ، ان کے دل کی باتوں کے کچھ ٹکڑے میڈیا پر خوب خوب چلائے گئے ۔ جس کے متعلق اساتذہ کا خیال ہے کہ میڈیا ایسی ہی باتوں کو اچھالتا ہے جو متنازعہ یاتفریحی ہو کیوں کہ صحافیوں کو بھی اپنا دال دلیا چلانا ہوتا ہے ۔ میڈیا کے کردار سے متعلق اساتذہ کی رائے اس درجے کی نہیں ہونی چاہیے تھی جو لگے کہ یا تو غفلت پر مبنی ہے یا وہ اپنی دنیا میں مگن ہیںاوریا اپنے مفادات کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں اور ایسا میں اس لیے ہرگز نہیں کہہ رہی کہ میں میڈیا کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ آپ کسی اخبار کی شہ سرخی پڑھیں اور پھر تفصیل ، صحافی نا صرف بڑی باریک بینی سے حقائق کا جائزہ لینے کی قابلیت رکھتا ہے بلکہ بڑی باریکی سے انہیں بیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے ۔ گورنر جو مرکزکا نمائندہ ہوتاہے ، اصولی طور پر کسی سیاسی جماعت سے وابستگی اپنی اس حیثیت میں نہیں رکھ سکتا، وہ کسی خاص موقع پر جو کہے گا تو بات یہ نہیں کہ وہ متنازع یا تفریحی تھا بلکہ وہ ادارے کااحوال تھا جو گورنر کی زبان سے بیان ہورہاتھا۔حیرت انگیز طور پر کچھ اساتذہ نے اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ یہ باتیں سامنے آئیں کیسے ؟ کیا ادارے کا میک اپ اور لوگوں کی بے خبری ممکن ہے ؟جلد یا بدیر حقائق کا پردہ چاک ہو کے رہتا ہے ۔ گورنر کسی ادارے کی صورت حال بتارہا ہے تو میڈیا کیوں نہیں دکھائے گا؟ میڈیا نے اپنا کام کیا ۔ہم اگر وہ کام کریں جو ہمارے کرنے کے ہیں تو گورنر بھی وہی بتائے گا اور پھر میڈیا بھی وہی بتارہا ہوگا۔ میڈیا سے محض شکایت یا صحافیوں کو بیچارہ سمجھناکہ انہیں اپنے دال دلیا کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے ، میک اپ کی ایک دوسری شکل ہے۔
مجھے جامعہ اردو سے متعلق گورنر صاحب کی تقریر کے کچھ حصوں کو نمایاں کرنے پر میڈیا سے کوئی گلہ نہیں ۔گورنر صاحب نے اگرچہ اپنے دل کی باتیں کیں ، لیکن ان باتوں کو خالی از فراست کوئی نہیں لے گااور کیوں کہ اس میں سیاسی سوچ کی آمیز ش تھی تو اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ مرکز کے نمائندہ تھے ۔ انہوں نے اپنی اس حیثیت کو فراموش کیا ، جس پر سوال اٹھ سکتا ہے اور اٹھنا چاہیے ، اور اس پر ان سے وضاحت بھی طلب کی جاسکتی ہے اور یہ سب راہیں میڈیانے ہی نے ہموار کی ہیں۔ عبدالحق کیمپس یا گلشن کیمپس کی کہیں چھت کے حصے گرنے کی خبریں گورنر صاحب کے کانوں تک پہنچی ہوں گی ، پہنچنی بھی چاہئیں تو انہوں نے جامعہ کو کھنڈر قرار دے دیا۔
قیام ِ پاکستان کے وقت مذہب اسلام اوراُردو زبان دونوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیاتھا ، اب اسلام کی ضرورت ہے اردو کی نہیں ، گورنر صاحب نے ایوان ِ بالا میں اردو سے متعلق ایسے ہی خیالات کی باز گشت سنی ہوگی ،انہوں نے بتادیا کہ اس جامعہ کے ساتھ ٹکا لفظ” اردو” اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ارباب اقتدار کو اب اس سے قطعی کوئی دل چسپی نہیںاور نہ اس کے نام پر قائم جامعہ سے ۔ انجمن ِ ترقی اُردو کا معاملہ اس سے کتنا مختلف اور کتنا منسلک ہے ؟معلوم نہیں۔
پیپلز پارٹی کا مشہور نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان۔۔۔گورنر صاحب نے بھی جامعہ میں جس کی حالت ِزار کو قابل ذکر جانا وہ لائبریری، ڈیجیٹل لائبریری، شعبہ تصنیف و تالیف کا فعال کردار ،طالب علموں کے لیے پوائنٹ بسوں کی سہولت یا تحقیقی صورتِ حال نہیں بلکہ کینٹین اور واش روم تھے ۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: علاقائی زبان شیخ الجامعہ گورنر سندھ گورنر صاحب کیوں کہ کی زبان کے لیے
پڑھیں:
13 آبان استکبارستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے، حوزه علمیہ قم
بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی بیداری دراصل طویل عرصے کی روشنفکری اور مظلوم قوموں کی ثابت قدمی کا نتیجہ ہے اور ان شاء اللہ یہ امریکہ کے زوال کو تیز کرے گی۔ بلا شبہ، مستقبل آزاد قوموں کا ہوگا اور دنیا ظلم، امریکی استکبار اور صہیونیت کے خاتمے کے سائے میں خوبصورت دور دیکھے گی۔ جامعہ مدرسین تمام لوگوں کو بھرپور شرکت کے لیے یومِ اللہ 13 آبان کی ریلی میں شرکت کی دعوت دیتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ مدرسینِ حوزه علمیہ قم نے امریکہ سے مذاکرات کو سازش اور رسوائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ استکبار کے خلاف دینی و ملی نقطہ نظر کی تشریح ضروری ہے۔ انہوں نے بیان میں پر زور دیا کہ حالیہ امریکی حملہ، جو کہ صہیونیت کی بچاﺅ کے لیے کیا گیا، نسلِ نو کے لیے 13 آبان کی تعلیمات کا ایک تازہ سبق ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی قم کے مطابق جامعہ مدرسین کا یومِ اللہ 13 آبان (یومِ ملیِ مبارزه با استکبار جهانی و روزِ دانشآموز) کے موقع پر جاری کردہ بیان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ
13 آبان انقلابِ اسلامی کے اہم اور تاریخی دنوں میں سے ہے، ایسے واقعات جنہیں یاد رکھنا اور ان سے عبرت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس دن میں تین ایک اہم واقعات مجتمع ہیں: امام خمینیؒ کی گرفتاری و جلاوطنی (1343)، 1357 میں متعدد طلبہ و طالبات کی شہادت، اور 1358 میں امریکی سفارت خانے یعنی جاسوسی کے اڈے کا قبضہ اور ہر ایک واقعہ انقلاب کی راہ میں فیصلہ کن رہا۔ آج 13 آبان خاص طور پر امام خمینی کے پیروکار طلبہ کی جانب سے جاسوسی کے اڈے پر قبضے اور اس کے ذریعے امریکی سازشوں و بدعنوانیوں کے انکشاف کے باعث، بطورِ علامت استکبار ستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کے نمونے کے طور پر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
جامعہ مدرسین کے نزدیک، امریکہ کا حالیہ جارحانہ حملہ جو صہیونی عناصر کو بحال رکھنے کی کوشش تھا، آج کی نسل کے لیے 13 آبان کی تعلیمات کا ایک اور سبق ہے۔ اب وقت ہے کہ استکبار کے خلاف قرآنی اور عقلی دلائل، ظلم و استکبار کی مختلف جہات اور امریکہ کی مکاری و فریبکاری کی تشریح کی جائے، اور دینی و قومی ہر سطح پر استکبارِ مخالف نقطہ نظر کو سنجیدگی سے جاری رکھا جائے۔ جامعہ مدرسین قم امام خمینیؒ اور معزز شہید طلبہ و طالبات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ ملتِ ایران کبھی بھی امریکہ اور اس کے ایجنٹس کے جرائم کو فراموش نہیں کرے گی اور ظلم کے خلاف جدوجہد اور مظلومین کی حمایت کے راستے سے نہیں ہٹے گی۔
اگرچہ کچھ افراد یا سیاسی گروہ اپنے غلط افکار اور زہریلے تجزیوں کی وجہ سے استکبارِ مخالف منطق پر تنقید کرتے ہیں اور سازش و مذاکرات کی تجویز پیش کر کے ذلت آمیز نسخے لکھتے ہیں، مگر ملتِ ایران اب بھی اپنے اصولوں پر قائم ہے اور عزت و آزادی کے لیے ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ صہیونی حکومت اور اس کے حامی امریکہ کی غزہ میں دو سالہ وحشیانہ بمباری نے انہیں بے آبرو کیا ہے، پوری دنیا میں غم و غصہ بیدار ہوچکا ہے۔ آج عالمِ انسانیت بیدار ہو رہا ہے اور آزاد قومیں امریکہ کو دنیا میں ظلم و ستم اور جرم کا علمبردار سمجھتی ہیں، حتیٰ کہ امریکہ کے اندر بھی لوگ اپنے حکمرانوں کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ عالمی بیداری دراصل طویل عرصے کی روشنفکری اور مظلوم قوموں کی ثابت قدمی کا نتیجہ ہے اور ان شاء اللہ یہ امریکہ کے زوال کو تیز کرے گی۔ بلا شبہ، مستقبل آزاد قوموں کا ہوگا اور دنیا ظلم، امریکی استکبار اور صہیونیت کے خاتمے کے سائے میں خوبصورت دور دیکھے گی۔ جامعہ مدرسین تمام لوگوں کو بھرپور شرکت کے لیے یومِ اللہ 13 آبان کی ریلی میں شرکت کی دعوت دیتی ہے اور امام خمینیؒ، رہبر معظم انقلاب اور معزز شہداء کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کرتے ہوئے استکبار کے خلاف جد و جہد کے تسلسل پر زور دیتی ہے۔