اپٹما نے کپاس کی پیدوار میں اضافے کیلئے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اپٹما نے کپاس کی پیدوار میں اضافے کیلئے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کر دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 2 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)ای سی اے سی وفد نے کپاس کی صنعت کے چیلنجز پر تبادلہ خیال کے لیے اپٹما کا دورہ کیا، اپٹما کا کپاس کی پیدوار میں اضافے کیلئے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کر دیا۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما)کے سیکرٹری جنرل شاہد ستارنے کہا ہے کہ ای سی اے سی پاکستان کے کپاس کے شعبے کے مسائل پر پالیسی پیپر شائع کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدی مسابقت پر اعلی سطح مذاکرات منعقد کئے گئے، جس میں اپٹما نے مقامی اور درآمدی خام مال کے لیے مساوی ٹیکس پالیسی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ای سی اے سی اور اپٹما کی کپاس کی صنعت کو مستحکم کرنے کے لیے تعاون کررہے ہیں، تاخیر سے ملنے والے سیلز ٹیکس ریفنڈز پاکستان کے ٹیکسٹائل شعبے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ای سی اے سی وفد نے پاکستان کی کپاس کی معیشت کی بحالی کے لیے پالیسی اصلاحات کی حمایت کی ہے، پاکستان کا کپاس بحران، اپٹما نے حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، تاہم ای سی اے سی نے کپاس کی پیداوار کی بحالی میں اپٹما کے کردارکو بھی سراہا ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کا مطالبہ
پڑھیں:
پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔