جب جب خان پکارے گا ہم سب لبیک کہیں گے‘ مسرت جمشید چیمہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 فروری2025ء) پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کی تعیناتی بذریعہ تبادلہ بدنیتی کی اعلی ترین مثال ہے،جلسے کرنا سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے لیکن جلسے کا اعلان ہوتے ہی وزیر داخلہ کی جانب سے ایک بار پھر عوام کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ایکس پر جاری اپنے بیان میں مسرت جمشید نے کہا کہ پہلے بھی 26 نومبر کو نہتے شہریوں پر گولیاں برسائی گئیں اب بھی دھمکیاں لگائی جا رہی ہیں،یہ ہتھکنڈے عوام کو اپنا حق مانگنے سے نہیں روک سکتے،عوام اپنے جمہوری حق کے لئے نکلیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ حاکم و محکوم کی جنگ میں بالآخر جیت عوام کی ہوتی ہے،طاقت کے زیر پر کسی کو تاعمر زیر نہیں کیا جا سکتا،آج نہیں تو کل ظلم کی یہ شب ختم ہوگی اور حق کا سورج طلوع ہوگا،تب تک ہم اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے اور جب جب خان پکارے گا ہم سب لبیک کہیں گے۔(جاری ہے)
انہوںنے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کی تعیناتی بذریعہ تبادلہ بدنیتی کی اعلی ترین مثال ہے،سپریم کورٹ فتح کرنے کے بعد اب ہائیکورٹس فتح کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ،تمام بارز کو قانون کے تحفظ کے لیے اب آگے آنا ہوگا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔