UrduPoint:
2025-11-05@01:37:04 GMT

ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) تہران میں ایک روٹی کی قیمت ایک لاکھ ریال ہے، تو کیا اب یہی قیمت 10 تومان ہونی چاہیے؟ یا پھر دس ہزار تومان ہونی چاہیے، جو تقریبا ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے۔

عام ایرانیوں کے لیے ایک تومان کا مطلب صرف 10 ریال ہے۔ تاہم اب حکومت کرنسی کو ہموار بنانے کی کوششوں میں ہے، جس سے عام اشیا کی خرید و فروخت کے بنیادی عمل میں نمبروں کا الجھاؤ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں پہلی مرتبہ ایران کے متعدد شہروں میں مظاہرے

ایران میں تومان کو کرنسی کے طور پر متعارف کرانے کی کوششیں سن 2016 میں تجویز کی گئی تھیں اور سن 2021 میں اس کا آغاز ہوا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ ریال کی قیمتوں کے توازن کے لیے چار صفر کو ہٹا دیا جائے اور اسی لیے سرکاری ریال بینک نوٹوں کو دوبارہ ڈیزائن کیا گیا تھا اور عام لوگوں کی مدد کے لیے آخری چار ہندسوں کو کافی ہلکے رنگ میں رکھا گیا، تاکہ لوگ اس تبدیلی کو ایڈجسٹ کر سکیں۔

(جاری ہے)

گرچہ یہ منصوبہ کاغذ پر اچھا لگ رہا تھا، لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے اس سے معاشی طور پر کوئی حقیقی تبدیل نہیں آئی۔ اس کے بعد مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کی انتظامیہ میں کرنسی کی ان اصلاحات کا عمل رک گیا۔

ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے

اب ان کے جانشین مسعود پیزشکیان نے پچھلے مہینے اس اقدام کو بحال کیا ہے۔

ایران کی پارلیمنٹ بھی مسلسل مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کو روکنے کے لیے اس عمل کی تجدید کے لیے ایک بل پر ووٹ ڈالنے والی ہے، تاہم ووٹنگ کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔

ایک ڈالر، قریب دو لاکھ ایرانی ریال کے برابر

ساختی اصلاحات بمقابلہ دکھاوے کی کوشش

ابتدائی طور پر کرنسی سے صفر کو ہٹانے کا مقصد لین دین کو آسان بنانا اور ایران کے مالیاتی نظام پر اعتماد کو بہتر بنانا تھا۔

اس پالیسی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ افراط زر کے نفسیاتی اثرات کو بھی کم کرے گا۔ لیکن مہنگائی میں کمی نہیں آئی اور سن 2021 سے ہی عوام کا اعتماد مسلسل گرتا رہا ہے۔

لندن میں مقیم ایک اقتصادی صحافی آرزو کریمی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نسبتاً غیر موثر رہا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "قومی کرنسی سے صفر کو ہٹانے سے معیشت کے بنیادی مسائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جیسے افراط زر، پیسے کی اندرونی قدر، لیکویڈیٹی، جی ڈی پی اور بے روزگاری پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی آئندہ ایسا ہو گا۔

"

ایرانی بازارِ حصص میں حیران کن تیزی: کیا بلبلہ پھٹنے کو ہے؟

جو ریال میں مہنگا تھا وہ تومان میں بھی مہنگا ہی ہو گا

سن 2018 میں امریکی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے بعد سے ایرانی ریال کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 80 فیصد سے زیادہ گر گئی ہے۔

اس قدر میں کمی نے افراط زر کو بھی ہوا دی ہے اور گزشتہ برس کے دوران ہی خوراک اور ادویات جیسی ضروری اشیا کی قیمت دوگنی ہو گئیں۔

بہت سے ایرانی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ اجرتیں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔

تہران کے ایک دکاندار فرشید نے بتایا، "پچھلے مہینے، میں نے اپنی آدھی تنخواہ صرف گروسری پر خرچ کر دی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ریال ہے یا تومان، ہر چیز بہت مہنگی ہے۔"

امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر

کرنسی میں کس نے بہتر اصلاحات کیں؟

افراط زر سے نمٹنے کے لیے کرنسی میں اصلاحات کوئی نئی بات نہیں ہے اور بہت سے ممالک نے ماضی میں اپنی معیشتوں کو مستحکم کرنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کیے ہیں۔

تاہم اس طرح کے إصلاحات کے بیشتر ملے جلے نتائج رہے ہیں، جس میں کامیابی کا انحصار وسیع تر مالیاتی اقدامات اور ساختی تبدیلیوں پر ہوتا ہے۔

سن 1920 کی دہائی میں جرمنی تاریخ کے شدید ترین افراط زر کے بحران سے دوچار ہوا تھا۔

پھر ویمار ریپبلک نے کرنسی سے 12 صفر کو ہٹاتے ہوئے، پرانے نشان کی جگہ رینٹین مارک متعارف کیا تھا۔

ایرانی جوہری ڈیل سے امریکی علیحدگی، افغان معیشت متاثر ہو گی

اس اقدام نے عوام کا کچھ اعتماد بحال کیا، لیکن نئے نشان کی طویل مدتی کامیابی بڑی حد تک اس کے بعد آنے والے مالیاتی نظم و ضبط سے منسوب ہے، جس میں لیگ آف نیشنز کے تعاون سے بین الاقوامی قرضے اور استحکام کے اقدامات شامل تھے۔

ایران کا نظام 'پرانا' ہے

تہران میں مقیم ماہر اقتصادیات کامران نادری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "تیل کی آمدن پر ایران کا انحصار اور مسلسل پابندیاں وینزویلا کو درپیش چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ نظاماتی اصلاحات کے بغیر صرف کرنسی کی تبدیلیاں کام نہیں کریں گی۔"

وینزویلا اور ایران دونوں امریکہ کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں کی زد میں ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ عالمی منڈیوں تک ان کی رسائی محدود ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے اور یہ پابندیاں بینکنگ و تیل جیسے اہم شعبوں میں جدید کاری کی کوششوں میں بھی رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں۔

گرچہ ایران نے چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کی کوشش کی ہے، تاہم ان تعلقات نے پابندیوں کے اثرات کی تلافی نہیں کی ہے۔

نادری نے کہا کہ "ہمارا مالیاتی نظام پرانا ہے۔

پابندیوں نے غیر ملکی سرمائے کو اپنی طرف متوجہ کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے، جو ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔"

پابندیوں کی واپسی، ایرانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

ایرانی نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں

ان تمام کوششوں کے درمیان ہی ایرانیوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ 75 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ کرنسی کی اصلاحات ان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔

بہت سے نوجوان اور بیشتر پڑھے لکھے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں، جس سے ایران کی طویل مدتی ترقی کو خطرہ لاحق ہے۔

یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں بیرون ملک جانے کے لیے ہر ایک تومان بچا رہا ہوں۔ یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔"

کمزور ایرانی معیشت، کیا روحانی صدارتی الیکشن جیت پائیں گے؟

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کو آگے بڑھنے کے لیے معیشت کو متنوع بنانا، بدعنوانی سے نمٹنا اور شفافیت کو بہتر بنانے سمیت دکھاوے کی اصلاحات سے زیادہ کی ضرورت ہے۔

مزید برآں، سفارتی مذاکرات کے ذریعے پابندیوں میں نرمی، جیسے کہ سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا، معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

ماہر اقتصادیات نادری نے خبردار کیا، "اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی کے بغیر، ہم چند سالوں میں یہیں واپس آ جائیں گے۔"

ص ز/ ج ا (عامر سلطان زادے)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افراط زر رہے ہیں کے لیے صفر کو

پڑھیں:

سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟

بانی پی ٹی آئی کو جیل میں گئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے ۔ شروع شروع میں کہا گیا تھا کہ بانی صاحب زیادہ عرصہ پسِ دیوارِ زنداں نہیں گزار سکیں گے ۔ جیل کی سختیاں اور صعوبتیں جَلد ہی اُنہیں مُک مکا کرنے کی طرف راغب کر دیں گی اور وہ ’’ڈِیل‘‘ یا ’’ این آر او‘‘ لے کر جیل سے باہر آ جائیں گے ۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ۔ یہ حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہ ہونے سے اُن کے عشاق میں غصہ بتدریج بڑھتا ہی گیا ہے۔

اِسے پی ٹی آئی کی فرسٹریشن کہا جائے یا غیر حکیمانہ اسلوبِ سیاست کہ وہ9مئی ایسا سانحہ بھی کر گزرے۔ اُن کا خیال تھا کہ ایسے آتشیں ہتھکنڈے استعمال کرکے وہ حکومت اور طاقتوروں کو دباؤ میں لے آئیں گے اور یوں وہ اپنے’’ محبوب‘‘ کو دوبارہ برسرِ اقتدار یا اپنے درمیان لا بٹھائیں گے۔مگر یہ ہتھکنڈہ اور کوشش بھی ناکامی پر منتج ہُوئی۔

26 نومبر 2023کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ محترمہ کی زیر قیادت اسلام آباد پر پی ٹی آئی کے جوشیلے اور جذباتی کارکنوں کی چڑھائی بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی۔اِن پے درپے ناکامیوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور وابستگان میں مزید فرسٹریشن پیدا کی ہے ۔ یہ فرسٹریشن دراصل حکومت اور پی ٹی آئی میں سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے کا سبب بھی بنی ہے ۔ یہ بڑھی ہُوئی فرسٹریشن اور بڑھا ہُوا سیاسی درجہ حرارت خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ ، علی امین گنڈا پور، کی وزارتِ اعلیٰ بھی نگل گیا ہے ۔

جب سے کے پی کے میں نئے وزیر اعلیٰ تشریف لائے ہیں ، سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھا ہے ۔سہیل آفریدی صاحب نے بطورِ وزیر اعلیٰ جن بیانات کے ’’گولے‘‘ داغے ہیں، ان کی حرارت بھی محسوس کی گئی ہے ۔ اِس گرمائش کو ٹھنڈا کرنے اور درجہ حرارت کو نیچے لانے کے لیے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے نئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو مبارکباد اور ملاقات کی دعوت بھی دی ہے ۔ اِس کے ساتھ ہی کور کمانڈر پشاور کی سہیل آفریدی صاحب سے ملاقات کے لیے جانا بھی اِسی ضمن کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے ۔

خیبر پختونخوا میں افغان طالبان کے زیر سرپرستی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے جو بدمعاشیاں شروع کر رکھی ہیں، ان کا ٹیٹوا دبانے اور سر کچلنے کے لیے بھی لازم ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے ؛ چنانچہ تین روز قبل جب لاہور کے ایک مشہور اسپتال میں بغرضِ علاج داخل پی ٹی آئی کے سینئر وائس چیئرمین ، جناب شاہ محمود قریشی، کی عیادت کے لیے پی ٹی آئی کی سابق سینئر قیادت( فواد چوہدری، عمران اسماعیل ، محمود مولوی) پہنچی تو اِسے بھی سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے سے معنون کیا گیا۔

میڈیا میں یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ فواد چوہدری ، عمران اسماعیل، محبوب مولوی ، علی زیدی ، سبطین خان اور دیگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی زیر قیادت ’’ریلیز بانی پی ٹی آئی‘‘ کی ایک نئی تحریک کا آغاز بھی ہُوا چاہتا ہے۔ قیافوں کے مطابق : پی ٹی آئی کی مذکورہ سابق قیادت اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی سے ملے گی اور بتوسط شاہ محمود قریشی ، بانی صاحب کو ایک قدم پیچھے ہٹنے کی طرف مائل کریگی ۔

ساتھ ہی یہی لوگ حکومت سے بھی میل ملاقاتیں کریں گے ، حکمرانوں سے بھی گزارش کریں گے کہ بہت ہو گیا تناؤ اور کھچاؤ ، اب اِس ضمن میں حکومت بھی ایک قدم پیچھے ہٹے ۔ اور یوں مفاہمت کی ایک فضا قائم کرنے کی دانستہ کوشش کی جائے ۔ اور جب مفاہمت کے لیے فضا ہموار ہوجائے گی تو بڑھے ہُوئے سیاسی درجہ حرات میں تخفیف یا کمی بھی واقع ہو جائے گی۔ اور یوں بانی پی پی ٹی آئی کی رہائی کی بھی کوئی سبیل نکل آئے گی ۔ مگر سب سے پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی خود تو جیل سے رہائی پائیں ۔ توقعات ظاہر کی گئی ہیں کہ رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پُل کا کردار ادا کر سکیں گے۔

یہ خبریں سامنے آنے کے بعد کہ پی ٹی آئی کے بعض ’’اولڈ گارڈز‘‘ اپنے تئیں کوششیں کرنے لگے ہیں کہ ملک میں بڑھتے سیاسی درجہ حرات کو نیچے لایا جائے ، چند ’’اولڈ گارڈز‘‘ تردیدوں پر بھی اُتر آئے ہیں ۔ مثال کے طور پر اسد عمر اور علی زیدی۔خبروں میں دونوں ہی کے اسمائے گرامی شامل کرکے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ صاحبان بھی بانی پی ٹی آئی کی مبینہ رہائی تحریک میں شامل ہیں ۔

پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر ، اسد عمر، نے یکم نومبر2025ء کو اپنے ٹویٹ میں کہا:’’ آج اخباروں اور سوشل میڈیا کے زریعے نظر آیا کہ مَیں عمران خان کی رہائی کے لیے کسی تحریک کا حصہ ہُوں۔ مبینہ طور پریہ تحریک پی ٹی آئی کے ماضی کے لیڈر شروع کررہے ہیں۔ کوئی بھی کاوش جو عمران خان اوردوسرے اسیروں کی رہائی کے لیے ہو، اچھی بات ہے، لیکن جس (رہائی)تحریک کا ذکر کیا جا رہا ہے، مَیں اُس کا حصہ نہیں ہُوں۔‘‘ اِسی طرح پی ٹی آئی کے سابق لیڈر اور سابق وفاقی وزیر، علی زیدی، نے ایک انگریزی معاصر کے توسط سے مذکورہ رپورٹوں اور تحریکِ رہائی میں حصہ لینے کی تردید کرتے ہُوئے، یکم نومبر ہی کو، کہا:’’ مَیں ایسا کام کرنے کا قطعی ارادہ نہیں رکھتا ہُوں۔میرے معاشی حالات اجازت دیتے ہیں نہ خاندانی ، اس لیے مَیں یہ بات کلیئر کرنا چاہتا ہُوں کہ مَیں جلدکسی بھی طرح سیاست میں داخل نہیں ہورہا۔ ‘‘ پھر وہ سیاست میں جَلد داخل نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہُوئے اپنے ٹویٹ میں کہتے ہیں:’ ’ملک میں کوئی سیاست ہے ہی نہیں ۔ کرپشن کا غلبہ ہے۔

بانی پی ٹی آئی واحد لیڈر تھے اور ہیں جنھوں نے اِس سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ افسوس اُنہیں غیر قانونی طور پر جیل میںرکھا گیا ہے ۔ اور ہم سب جانتے ہیں کیوں۔‘‘اسد عمر، علی زیدی ، فواد چوہدری، عمران اسماعیل وغیرہ پی ٹی آئی کی وہ’’ ہستیاں‘‘ ہیں جو9مئی کے سانحہ کے بعد شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران سیاست ہی سے تائب ہو گئے تھے یا جنہیں بانی پی ٹی آئی نے خود پارٹی سے نکال باہر کیا تھا۔ شائد اِسی لیے جب مذکورہ شخصیات کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد سیاسی ہلچل پیدا ہُوئی اور سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کے مباحث شروع ہُوئے (اور خاص طور پر فواد چوہدری کی سیاسی پتنگ اُڑنے لگی) تو پی ٹی آئی کے ایم این اے اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات، شیخ وقاص اکرم ، نے مبینہ طور پر ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا:’’مذکورہ ملاقات اور ملاقات کرنے والوں کی اہمیت تب ہو جب ان کی پارٹی میں کوئی حیثیت بھی ہو۔

جب انھیں پارٹی سے نکالا جا چکا ہے تو ان کی ملاقاتوں کی بنیادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ اِس سخت ردِ عمل سے یہ اندازہ لگانا سہل ہو جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرانے کی مبینہ تحریک اور سیاسی درجہ حرارت کو نیچے لانے کی مبینہ کوششیں ، کم از کم، پی ٹی آئی میں(فی الحال) کوئی قبولیت نہیں رکھتیں ؛ چنانچہ بعض اطراف سے یہ بدگمانی بھی کی جارہی ہے کہ مذکورہ رہائی تحریک کی شروعات کرنے والوں کودراصل کسی کا اشارہ ہے ۔

 بانی پی ٹی آئی کے جیل میں مقید ہونے سے کئی ملکی سیاسی معاملات اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی فضا معلّق سی ہو کر رہ گئی ہے ۔ اِسی کی تحلیل کے لیے پی ٹی آئی کی سابقہ سینئر قیادت نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی ہے۔ یہی سابقہ قیادت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سابق سینیٹر اعجاز چوہدری ، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور پی ٹی آئی کے سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملی ہے ۔

آخر الذکر دونوں شخصیات بھی اسپتال میں بوجوہ داخل ہیں ۔ پی ٹی آئی کی مذکورہ سابقہ قیادت کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت بانی پی ٹی آئی کو باہر نکالنے کی ہمت ، سکت اور اہلیت نہیں رکھتی، اس لیے ہمیں یہ قدم اُٹھانا پڑا ہے ۔سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کی یہ کوشش و سعی مستحسن تو قرار دی جاسکتی ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ اِس کوشش کے خلاف پی ٹی آئی قیادت میں جو ردِ عمل دیکھنے میں آرہا ہے، اِس کا سبب اور علاج کیا ہے؟ بانی پی ٹی آئی بھی تو اِس ضمن میں ابھی کچھ نہیں بولے۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی جارحیت کے مقابلے میں پاکستان نے فیصلہ کن کردار اداکیا، ایرانی سفیر
  • ایران ملتِ اسلامیہ کے سر کا تاج، امریکی دھمکیاں مرعوب نہیں کر سکتیں، قاسم علی قاسمی
  • پاکستان اور ایران کے درمیان میڈیا کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ، اب تعلقات مزید مستحکم ہوں گے، عطااللہ تارڑ
  • امریکا جب تک اسرائیل کی پشت پناہی نہیں چھوڑتا، تعاون ممکن نہیں: خامنہ ای
  • ہم ہر قسم کے جواب کے لیے تیار ہیں، ایرانی مسلح افواج کی دشمن کو وارننگ
  • ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے: محمد اورنگزیب
  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق