ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) تہران میں ایک روٹی کی قیمت ایک لاکھ ریال ہے، تو کیا اب یہی قیمت 10 تومان ہونی چاہیے؟ یا پھر دس ہزار تومان ہونی چاہیے، جو تقریبا ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
عام ایرانیوں کے لیے ایک تومان کا مطلب صرف 10 ریال ہے۔ تاہم اب حکومت کرنسی کو ہموار بنانے کی کوششوں میں ہے، جس سے عام اشیا کی خرید و فروخت کے بنیادی عمل میں نمبروں کا الجھاؤ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں پہلی مرتبہ ایران کے متعدد شہروں میں مظاہرے
ایران میں تومان کو کرنسی کے طور پر متعارف کرانے کی کوششیں سن 2016 میں تجویز کی گئی تھیں اور سن 2021 میں اس کا آغاز ہوا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ ریال کی قیمتوں کے توازن کے لیے چار صفر کو ہٹا دیا جائے اور اسی لیے سرکاری ریال بینک نوٹوں کو دوبارہ ڈیزائن کیا گیا تھا اور عام لوگوں کی مدد کے لیے آخری چار ہندسوں کو کافی ہلکے رنگ میں رکھا گیا، تاکہ لوگ اس تبدیلی کو ایڈجسٹ کر سکیں۔
(جاری ہے)
گرچہ یہ منصوبہ کاغذ پر اچھا لگ رہا تھا، لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے اس سے معاشی طور پر کوئی حقیقی تبدیل نہیں آئی۔ اس کے بعد مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کی انتظامیہ میں کرنسی کی ان اصلاحات کا عمل رک گیا۔
ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے
اب ان کے جانشین مسعود پیزشکیان نے پچھلے مہینے اس اقدام کو بحال کیا ہے۔
ایران کی پارلیمنٹ بھی مسلسل مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کو روکنے کے لیے اس عمل کی تجدید کے لیے ایک بل پر ووٹ ڈالنے والی ہے، تاہم ووٹنگ کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔ایک ڈالر، قریب دو لاکھ ایرانی ریال کے برابر
ساختی اصلاحات بمقابلہ دکھاوے کی کوششابتدائی طور پر کرنسی سے صفر کو ہٹانے کا مقصد لین دین کو آسان بنانا اور ایران کے مالیاتی نظام پر اعتماد کو بہتر بنانا تھا۔
اس پالیسی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ افراط زر کے نفسیاتی اثرات کو بھی کم کرے گا۔ لیکن مہنگائی میں کمی نہیں آئی اور سن 2021 سے ہی عوام کا اعتماد مسلسل گرتا رہا ہے۔
لندن میں مقیم ایک اقتصادی صحافی آرزو کریمی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نسبتاً غیر موثر رہا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "قومی کرنسی سے صفر کو ہٹانے سے معیشت کے بنیادی مسائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جیسے افراط زر، پیسے کی اندرونی قدر، لیکویڈیٹی، جی ڈی پی اور بے روزگاری پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی آئندہ ایسا ہو گا۔
"ایرانی بازارِ حصص میں حیران کن تیزی: کیا بلبلہ پھٹنے کو ہے؟
جو ریال میں مہنگا تھا وہ تومان میں بھی مہنگا ہی ہو گاسن 2018 میں امریکی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے بعد سے ایرانی ریال کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 80 فیصد سے زیادہ گر گئی ہے۔
اس قدر میں کمی نے افراط زر کو بھی ہوا دی ہے اور گزشتہ برس کے دوران ہی خوراک اور ادویات جیسی ضروری اشیا کی قیمت دوگنی ہو گئیں۔
بہت سے ایرانی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ اجرتیں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔تہران کے ایک دکاندار فرشید نے بتایا، "پچھلے مہینے، میں نے اپنی آدھی تنخواہ صرف گروسری پر خرچ کر دی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ریال ہے یا تومان، ہر چیز بہت مہنگی ہے۔"
امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر
کرنسی میں کس نے بہتر اصلاحات کیں؟افراط زر سے نمٹنے کے لیے کرنسی میں اصلاحات کوئی نئی بات نہیں ہے اور بہت سے ممالک نے ماضی میں اپنی معیشتوں کو مستحکم کرنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کیے ہیں۔
تاہم اس طرح کے إصلاحات کے بیشتر ملے جلے نتائج رہے ہیں، جس میں کامیابی کا انحصار وسیع تر مالیاتی اقدامات اور ساختی تبدیلیوں پر ہوتا ہے۔سن 1920 کی دہائی میں جرمنی تاریخ کے شدید ترین افراط زر کے بحران سے دوچار ہوا تھا۔
پھر ویمار ریپبلک نے کرنسی سے 12 صفر کو ہٹاتے ہوئے، پرانے نشان کی جگہ رینٹین مارک متعارف کیا تھا۔
ایرانی جوہری ڈیل سے امریکی علیحدگی، افغان معیشت متاثر ہو گی
اس اقدام نے عوام کا کچھ اعتماد بحال کیا، لیکن نئے نشان کی طویل مدتی کامیابی بڑی حد تک اس کے بعد آنے والے مالیاتی نظم و ضبط سے منسوب ہے، جس میں لیگ آف نیشنز کے تعاون سے بین الاقوامی قرضے اور استحکام کے اقدامات شامل تھے۔
ایران کا نظام 'پرانا' ہےتہران میں مقیم ماہر اقتصادیات کامران نادری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "تیل کی آمدن پر ایران کا انحصار اور مسلسل پابندیاں وینزویلا کو درپیش چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ نظاماتی اصلاحات کے بغیر صرف کرنسی کی تبدیلیاں کام نہیں کریں گی۔"
وینزویلا اور ایران دونوں امریکہ کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں کی زد میں ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ عالمی منڈیوں تک ان کی رسائی محدود ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے اور یہ پابندیاں بینکنگ و تیل جیسے اہم شعبوں میں جدید کاری کی کوششوں میں بھی رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں۔گرچہ ایران نے چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کی کوشش کی ہے، تاہم ان تعلقات نے پابندیوں کے اثرات کی تلافی نہیں کی ہے۔
نادری نے کہا کہ "ہمارا مالیاتی نظام پرانا ہے۔
پابندیوں نے غیر ملکی سرمائے کو اپنی طرف متوجہ کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے، جو ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔"پابندیوں کی واپسی، ایرانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟
ایرانی نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیںان تمام کوششوں کے درمیان ہی ایرانیوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ 75 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ کرنسی کی اصلاحات ان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔
بہت سے نوجوان اور بیشتر پڑھے لکھے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں، جس سے ایران کی طویل مدتی ترقی کو خطرہ لاحق ہے۔یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں بیرون ملک جانے کے لیے ہر ایک تومان بچا رہا ہوں۔ یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔"
کمزور ایرانی معیشت، کیا روحانی صدارتی الیکشن جیت پائیں گے؟
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کو آگے بڑھنے کے لیے معیشت کو متنوع بنانا، بدعنوانی سے نمٹنا اور شفافیت کو بہتر بنانے سمیت دکھاوے کی اصلاحات سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
مزید برآں، سفارتی مذاکرات کے ذریعے پابندیوں میں نرمی، جیسے کہ سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا، معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ماہر اقتصادیات نادری نے خبردار کیا، "اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی کے بغیر، ہم چند سالوں میں یہیں واپس آ جائیں گے۔"
ص ز/ ج ا (عامر سلطان زادے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افراط زر رہے ہیں کے لیے صفر کو
پڑھیں:
مہنگائی تھمی نہیں؛ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے
اسلام آباد:ملک میں مہنگائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی جب کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کو سال بھر ذہنی کرب سے دوچار رکھا۔
وفاقی ادارہ شماریات نے ایک سال کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں رد و بدل پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق روزمرہ استعمال کی کئی اشیا مہنگی ہوئی ہیں جب کہ چند اشیا کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جہاں آٹا، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتیں نیچے آئی ہیں، وہیں چکن، گوشت، چینی، انڈے اور گھی سمیت کئی ضروری اشیا مہنگی ہو گئی ہیں، جس سے عام شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔
اعدادوشمار میں بتایا گیاہ ے کہ گزشتہ ایک سال میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1907 روپے سے کم ہو کر 1509 روپے کا ہو گیا، یعنی 400 روپے کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔
اسی طرح پیاز کی قیمت 113.91 روپے سے گھٹ کر 45.51 روپے فی کلو، ٹماٹر 67.68 سے کم ہو کر 49 روپے اور آلو 87.85 سے کم ہو کر 62.85 روپے فی کلو ہو گئے ہیں۔ علاوہ ازیں دال ماش بھی 548 روپے سے کم ہو کر 457.78 روپے فی کلو ہو گئی۔
دوسری جانب بنیادی غذائی اشیا کی بڑی فہرست مسلسل مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔
چینی کی قیمت 143.78 روپے سے بڑھ کر 174.19 روپے فی کلو ہو گئی۔ اسی طرح چکن 347 روپے سے بڑھ کر 456.48 روپے، بڑا گوشت 933.39 سے 1105 روپے جب کہ چھوٹا گوشت 1877 سے بڑھ کر 2026 روپے فی کلو ہو گیا۔
علاوہ ازیں دودھ 187.15 سے بڑھ کر 198.39 روپے، دہی 219.26 سے بڑھ کر 231.51 روپے اور فارمی انڈے 252.43 سے بڑھ کر 295.78 روپے فی درجن ہو گئے۔
سرسوں کا تیل بھی 495.45 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 527.64 روپے اور گھی 503.29 روپے سے بڑھ کر 568.40 روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔
اس کے علاوہ دالوں کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، جہاں دال مونگ 308.75 سے بڑھ کر 400.82 روپے اور دال چنا 260 سے بڑھ کر 314.58 روپے فی کلو ہو گئی۔ اسی طرح دال مسور 320.94 سے کم ہو کر 293.52 روپے اور دال ماش میں بھی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔
قیمتوں میں اضافے کو مزید دیکھا جائے تو کیلے کی فی درجن قیمت بھی 146.63 روپے سے بڑھ کر 176.55 روپے ہو چکی ہے، جس سے پھلوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
عوام کا کہنا ہے کہ اگرچہ آٹے اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی خوش آئند ہے، مگر دیگر ضروری اشیا کی مہنگائی نے ان کے بجٹ کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو موثر اور پائیدار معاشی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔