Jasarat News:
2025-06-09@16:30:31 GMT

اسٹاک مارکیٹ پرکشش نہ رہی ،انڈیکس 1500 پوائنٹس گھٹ گیا

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز بدترین مندی رہی۔ منافع کی خاطر فروخت کے دباو اور سیاسی افرا تفری کی وجہ سے ٹریڈنگ کے دوران مارکیٹ پرکشش نہ رہی اور انڈیکس 1500پوائنٹس گھٹ گیا جس کی وجہ سے مارکیٹ 1 لاکھ 14 یزار اور 1لاکھ13ہزار پوائنٹس کی دو بالائی حد سے نیچے گرگیا۔مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کو 120ارب روپے سیز اید کا خسارہ برداشت کرنا پڑا جس کے نتیجے میں سرمائے کا مجموعی حجم14053ارب روپے سے کم ہو کر 13933 ارب روپے رہ گیا جبکہ 58.

22فیصد حصص کی قیمتیں بھی کم ہوگئیں پیر کو کیمیکل،کمرشل بینکوں ،فرٹیلائزر، تیل و گیس کی تلاش کرنیوالی کمپنیوں ،او ایم سیز ،پاور جنریسن اور ریفائنری سمیت اہم شعبوں میں فروخت کا دباو رہا جس کی وجہ سیکے ایس ای 100 انڈیکس 1510 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی جس سے انڈیکس 1 لاکھ 14 ہزار 255 پوائنٹس سے کم ہوکر 1 لاکھ 12 ہزار 745 پوائنٹس ہو گیا اسی طرح 509 پوائنٹس کی کمی سے کے ایس ای 30 انڈیکس 35 ہزار359پوائنٹس پر آگیا جبکہ کے ایس ای آل شیئرز انڈیکس 70 ہزار 604 پوائنٹس سے کم ہو کر 69 ہزار 855 پوائنٹس پر بند ہوا۔ مارکیٹ کے سرمائے میں 120 ارب 83 کروڑ 22لاکھ 99 ہزار 107 روپے کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں سرمائے کا مجموعی حجم 14053 ارب 83کروڑ 96 لاکھ 2 ہزار 238 ارب روپے سے کم ہوکر 13933 ارب 73 لاکھ 3 ہزار 131روپے رہ گیا۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں پیر کو 20ارب روپے مالیت کے40کروڑ14 لاکھ 56ہزار حصص کے سودے ہوئے جبکہ گذشتہ جمعہ کو 27 ارب روپے مالیت کے 54کروڑ 31 لاکھ 24 ہزار حصص کے سودے ہوئے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ میں گذشتہ روز مجموعی طور پر 450 کمپنیوں کا کاروبار ہوا جس میں سے 137 کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ، 262 میں کمی اور 51کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ کاروبار کے لحاظ سے ورلڈکا ل ٹیلی کام ،بینک آف پنجاب ،غنی کیمیکل،سنرجیکوپاک اور فوجی سیمنٹ سر فہرست رہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ارب روپے

پڑھیں:

پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔

طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔

اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
  • حکومت کے قرضے رواں مالی سال کے 9 ماہ میں 76 ہزار 7 ارب تک پہنچ گئے
  • آئی ٹی برآمدات 2 ارب 82 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں
  • رواں مالی سال ٹیکس چھوٹ کی مالیت 5 ہزار 840 ارب سے تجاوز کرگئی
  • ایک سال میں گندم کی پیداوار میں 29 لاکھ ٹن کی کمی
  • بجٹ کاحجم 17 ہزار 600 ارب مقرر:تنخواہوں میں 10فیصداضافہ کی تجویز
  • وفاقی بجٹ 10 جون کو کابینہ کی منظوری کے بعد شام کو پیش کیا جائے گا
  • ایک لاکھ جرمانہ ؟؟ گاڑی مالکان کیلئے پریشان کن خبر آ گئی
  • ملک بھر سے قربانی کے جانوروں کی 70 لاکھ کھالیں جمع ہونے کا امکان
  • ملک بھر سے قربانی کے جانوروں کی  70 لاکھ کھالیں جمع ہونے کا امکان