بیرون ملک جانے کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے چند اصول
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
بہت سے پاکستانی نوجوان مہنگائی، بےروزگاری اور ماحول سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے کی کوششوں میں ہیں، جن میں بہت سارے ایسے ہیں جو اپنی زمینیں، جائیدادیں، زیورات وغیرہ بیچ کر غیر قانونی راستے سے جانے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ گزشتہ چند ماہ پاکستان میں پاسپورٹ سسٹم انتہائی سست روی کا شکار رہا۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2022 تک میں 90ہزار پاکستانی صرف ایران کے راستے غیر قانونی طور پر یورپ جاتے ہوئے پکڑے گئے، اور جو اس گرداب سے نکل گئے اُن کا اندازہ لگائیں کہ وہ کتنی تعداد میں ہوں گے۔
2019 میں 21 ہزار لوگوں نے صرف یونان کی ڈنکی لگائی، 2020 میں 20 ہزار، 2021 اور 2022 میں 30 ہزار لوگوں نے، 2023 میں 10 ہزار اور 2024 میں 6 ہزار لوگوں نے یونان کی ڈنکی لگائی۔ یہ رجسٹرڈ اعداد و شمار ہیں باقی اس کے علاوہ ہیں۔
اس میں امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں جانے والوں کی تفصیلات شامل نہیں ہیں۔ 2019 سے 2023 تک 4 بڑی کشتیاں ڈوبنے کے حادثے ہوئے۔ 2022 سے 2024 تک کتنے پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک گئے، اس بارے میں مختلف ذرائع سے کچھ معلومات درج ذیل ہیں۔
2022 میں تقریباً 8 لاکھ 29 ہزار پاکستانی بیرون ملک روزگار کے لیے گئے۔ (انڈیپنڈنٹ اردو) 2023 میں 8 لاکھ 62 ہزار سے زائد پاکستانی کام کی تلاش میں بیرون ملک گئے۔ (ڈان نیوز اردو) 2024 میں 7 لاکھ سے زائد پاکستانی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک گئے۔ (ڈان نیوز اردو)
ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 سے 2024 تک تقریباً 23 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک گئے۔ یہ بھی معلومات میں آیا کہ بیرون ملک جانے والوں میں زیادہ تر ڈرائیورز اور دوسرے تجربہ کار مزدور تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز، انجینیئرز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شامل تھے۔
زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور بحرین گئے۔ کچھ پاکستانی برطانیہ، امریکا اور یورپ کے دیگر ممالک بھی گئے۔ غیر قانونی راستوں سے جانے والے اگر ویزہ کی بنیادی ریکوائرمنٹس پر پورا اتریں تو آسانی سے کسی بھی ملک جا سکتے ہیں۔
اگر امریکا کی بات کی جائے تو امریکا کے ویزہ کی بھی کئی اقسام ہیں، جن میں سب سے پہلے نمبر پر آتا ہے وزیٹر ویزہ کا، جسے B1/B2 ویزہ کہا جاتا ہے۔ چونکہ امریکا کا وزیٹر ویزا حاصل کرنا کافی مشکل ہے، لیکن اگر آپ بنیادی ریکوائرمنٹس پورا کرتے ہیں تو آپ کو باآسانی ویزہ ملنے کے امکانات ہیں۔
B1/B2 ویزا آپ کو امریکا میں مختصر مدت کے قیام یعنی عام طور پر 6 ماہ تک کے قیام کی اجازت دیتا ہے۔ یہ ویزا سیاحوں، کاروباری افراد یا امریکا میں مقیم اپنے رشتے داروں کو وزٹ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
امریکا کے وزیٹر ویزا کے لیے درخواست دینے کے لیے آپ کو درج ذیل معیار پر پورا اترنا ہوگا:
آپ کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے (اگر اڈلٹ کیٹیگری میں آتے ہیں تو)۔
آپ کے پاس امریکا میں قیام کے دوران بینک اکاؤنٹ میں کافی فنڈز موجود ہونے چاہییں۔
آپ کو وزٹ کے اختتام پر امریکا چھوڑنے کا ارادہ رکھنا چاہیے۔
آپ کا ریکارڈ مجرمانہ نہ ہو یا آپ امیگریشن کی خلاف ورزی کرتے مسائل میں ملوث نہ ہوں۔
اس ویزہ پر آپ کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں۔ B1/B2 وزیٹر ویزا کے لیے درخواست دیتے وقت آپ کے پاس ویلڈ پاسپورٹ ہو، جس میں کم از کم ایک خالی صفحہ ہو۔ آپ کا مکمل نام (جیسا کہ آپ کے پاسپورٹ میں ہے)، تاریخ پیدائش، جنس، قومیت، موجودہ پتہ اور فون نمبر موجود ہو۔
آپ کی پچھلے 10 سالوں میں امریکا یا دیگر ممالک کے سفر کی تفصیلات موجود ہو۔ اور قیام کے دوران سیلف فنانس کے لیے فنڈز کا ثبوت (جیسے بینک اکاؤنٹ سٹیٹمنٹ، سیلری سلپ، یا سپانسرشپ لیٹر موجود ہو۔
اس کے علاوہ ٹریول پلاننگ اور وزٹ کے مقصد پر مبنی ایک کور لیٹر ہو۔
فریش پاسپورٹ سائز 2یا زائد تصاویر ہوں، جو ویزا کی تصویری ضروریات پر پورا اترتی ہیں۔ اگر آپ اپنے رشتے دار یا دوستوں سے ملنے جا رہے ہیں تو آپ کو اپنے میزبان کی طرف سے ایک دعوت نامہ شامل کرنا چاہیے۔
پاکستان میں آپ اگر جاب کرتے ہیں تو اس کا ثبوت، خاندانی تعلقات، یا پراپرٹی ملکیت کا ثبوت موجود ہو۔ اب آپ ریکوائرمنٹس رکھتے ہوئے سرکاری امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر جائیں گے اور آپ کو آن لائن درخواست فارم (DS-160) فل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
وزیٹر ویزا کے لیے معیاری فیس عام طور پر تقریباً 160 ڈالر ہوتی ہے۔ البتہ یہ فیس آپ کی قومیت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ ویزہ درخواست مکمل کرنے کے بعد آپ کو امریکی سفارت خانے یا قونصل خانے میں انٹرویو کا وقت طے کرنا ہوگا۔ سفارت خانے یا قونصل خانے میں اپنی درخواست اور معاون دستاویزات جمع کروانے ہونگے۔ ایمبیسی کا مقرر کردہ انٹریو دیں، جہاں آپ سے آپ کی درخواست اور سفر کے منصوبوں کے بارے میں سوالات کیے جائیں گے۔
امریکا کے وزیٹر ویزا کی پروسیسنگ کا وقت عام طور پر جمع کرانے کی تاریخ سے 2 سے 4 ہفتے لگتا ہے۔ تاہم، یہ آپ کے رہائشی ملک، سال کے وقت اور انفرادی حالات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے۔
جب آپ کا ویزا منظور ہو جائے گا تو آپ کو اپنے پاسپورٹ کے ساتھ ویزا سٹیمپ یا وینیٹ ملے گا، جو آپ کو امریکا جانے کی اجازت دے گا۔
البتہ بہتر ہے کہ آپ اپنے متوقع سفر کی تاریخ سے کم از کم 2 ماہ پہلے درخواست دیں، اور درخواست کے عمل کے دوران فراہم کردہ تمام ہدایات کو غور سے پڑھیں، تاکہ تاخیر یا غلطیوں سے بچ سکیں۔
اور یہ بھی بہتر ہوتا ہے کہ امریکا میں قیام کے دوران سفر کی انشورنس کروائیں۔ امریکی امیگریشن حکام آپ سے یہ ثبوت طلب کر سکتے ہیں کہ آپ وزٹ کے اختتام پر امریکا چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسے واپسی کا ٹکٹ یا اپنے ملک میں ملازمت یا خاندانی تعلقات کا ثبوت (یہ آپ کے داخلے کے مقام پر پوچھا جاتا ہے اگر آپ کا ویزا منظور ہو چکا ہے)۔
آپکا ویزہ ریجیکٹ کیوں ہوتا ہے؟آپ کے قیام کے سیلف فنانس کے لیے ناکافی فنڈز ہونے، اپنے ملک میں واپس جانے کے ارادے کا ثبوت نہ ہونا، درخواست یا دستاویزات میں کمی یا غلطی۔ مجرمانہ ریکارڈ یا ماضی کی ویزا کی خلاف ورزیاں ہوسکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیو یارک میں مقیم ڈیٹا سائنٹسٹ ڈاکٹر من تشاء چیمہ نے میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے آرٹیفیشیل انٹیلیجنس میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ وہ پہلی کم عمر پاکستانی پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، جن کا نام 65 پاکستانی سائنسدان، انجینئرز، ڈاکٹرز اور اسکالر خواتین کی فہرست میں شامل ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے بطور ریسرچ پروفیسر بھی منسلک رہ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرون ملک گئے وزیٹر ویزا امریکا میں موجود ہو کے دوران قیام کے کا ثبوت ہیں تو کے لیے
پڑھیں:
مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)
پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔
پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔
انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔
اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔
پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔
بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔
آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔
افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔
افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔
71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔
دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔
خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔
سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔
Tagsپاکستان