دہلی اسمبلی انتخابات کی ووٹنگ ختم، اب نتائج کیلئے 8 فروری کا انتظار
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور انکی بیٹی اور پارٹی کی رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے نرمان بھون پہنچ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں کے لئے آج ووٹنگ کا عمل انجام پا گیا۔ آج صبح 7 بجے سے ووٹنگ شروع ہوئی تھی جو شام 6 بجے کے بعد تک جاری رہی۔ ووٹنگ کا وقت شام 6 بجے ختم ہوگیا تھا، لیکن قطار بند لوگوں کو وقت ختم ہونے کے بعد بھی حق رائے دہی کا موقع فراہم کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ ابھی ووٹنگ کا حتمی فیصد جاری نہیں کیا گیا ہے، لیکن 5 بجے تک کا جو ڈاٹا فراہم کیا گیا ہے، اس کے مطابق 57.
الیکشن کمیشن کے مطابق دہلی کی تمام 70 اسمبلی سیٹوں پر مجموعی طور پر 33.31 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے لئے ووٹنگ کا عمل صبح 7 بجے سے جاری ہے اور اب تک متعدد اہم شخصیات اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ ووٹ ڈالنے والے لیڈران میں دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال بھی شامل ہیں۔ اروند کیجریوال اپنی اہلیہ سنیتا کیجریوال، والد گوبند رام کیجریوال اور گیتا دیوی کے ہمراہ ووٹ ڈالنے کے لئے پہنچے تھے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور ان کی بیٹی اور پارٹی کی رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے نرمان بھون پہنچ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ پولنگ مرکز پر نئی دہلی سیٹ سے پارٹی کے امیدوار سندیپ دکشت ان کے ساتھ موجود تھے۔
اس موقع پر پرینکا گاندھی نے کہا کہ یہ سب سے بڑا اور اہم حق ہے، اپنے اس حق کا استعمال کریں، اپنے مسائل کو حل کرنا ہے تو گھروں سے باہر نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ دہلی میں اسمبلی انتخابات کے لئے ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صبح 11 بجے تک 19.95 فیصد ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر لیا تھا۔ کانگریس کے خزانچی اجے ماکن نے اپنا ووٹ ڈال دیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ دس برسوں میں دہلی کو ایل جی بمقابلہ سی ایم سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو کام ہونے ہوتے ہیں وہ ان کی لڑائی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا جب دہلی میں کانگریس کی حکومت تھی جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی، اس کے باوجود دہلی کی ترقی ہوتی تھی اور تو تو میں میں نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے لوگ اب پھر کانگریس کو یاد کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے حق رائے دہی کا استعمال الیکشن کمیشن کے دہلی اسمبلی استعمال کر پارٹی کی کے مطابق ووٹنگ کا بجے تک کے لئے
پڑھیں:
بھارت اور پاکستان طویل انتظار کے بعد نیزہ بازی مقابلے کے لیے تیار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) کرکٹ میں دونوں ممالک کے درمیان شدید محبت اور شدید تر حریفانہ تعلقات ہیں، لیکن اس ہفتے دونوں ملکوں کی توجہ ایک سادہ اور مختصر کھیل یعنی نیزہ بازی کی طرف ہے۔
جاپان میں ہونے والی عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں بھارت کے نیرج چوپڑا اور پاکستان کے ارشد ندیم ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔
یہ ان کا 2024 کے پیرس اولمپکس کے بعد پہلا آمنا سامنا ہو گا۔ اس وقت ندیم نے گولڈ میڈل جیتا تھا جبکہ چوپڑا نے چاندی پر اکتفا کیا، حالانکہ انہوں نے ٹوکیو اولمپکس 2020 میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔2025 میں جرمنی کے جولیان ویبر نے اب تک سب سے طویل تھرو (91.51 میٹر) کیا۔ چوپڑا نے بھی 90 میٹر سے زائد نیزہ پھینکا ہے، جب کہ ندیم کی بہترین کارکردگی مئی میں 86.40 میٹر رہی۔
(جاری ہے)
یہ ان کا سرجری کے بعد پہلا مقابلہ ہے، تاہم مداح اس پر فکرمند نہیں ہیں۔کراچی کے ایک مداح فرید خان نے کہا، ''ندیم نے جولائی میں پنڈلی کی سرجری کروائی تھی، اس لیے زیادہ نہیں کھیل پائے۔ لیکن جب وہ فٹ ہوں تو چھ کوششوں میں سے ایک یا دو بڑے تھرو نکال سکتے ہیں۔‘‘
مقبولیتدونوں کھلاڑی اپنے اپنے ملک میں بڑے ستارے ہیں کیونکہ بھارت اور پاکستان اولمپک میں بڑی کامیابی سے محروم رہے ہیں۔
بھارت کی آبادی 1.4 ارب ہے، مگر چوپڑا کا طلائی تمغہ 1964 کے بعد صرف تیسرا گولڈ تھا۔ ندیم کا طلائی تمغہ پاکستان کا 40 سال بعد پہلا گولڈ تھا۔ جب وہ پیرس سے لاہور واپس آئے تو ہزاروں افراد نے ان کا استقبال کیا۔ چوپڑا سیمسنگ، ویزا اور کوکا کولا جیسے بڑے برانڈز کا چہرہ رہے ہیں۔ممبئی کے ایک مداح سمیت پانڈے نے کہا،''نیرج کا گولڈ میڈل ہمارے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔
وہ خوش گفتار ہیں، اچھی شخصیت کے مالک ہیں اور اب سب سے بڑے اسپورٹس آئیکنز میں شمار ہوتے ہیں۔‘‘پاکستان میں بھی ندیم کی مقبولیت بے مثال ہے۔ خان کہتے ہیں، ''ہم نے ہر اولمپکس میں دوسروں کو گولڈ جیتتے دیکھا تھا۔ پھر ہمیں اپنا ہیرو ملا۔ یہ ناقابلِ بیان خوشی تھی۔‘‘
’دوست ہی نہیں بلکہ بھائی‘یہ حقیقت کہ دونوں حالیہ اولمپک چیمپئن ہمسایہ ملکوں سے ہیں، ان کے رشتے کو ایک خاص پہلو دیتی ہے۔
پانڈے نے کہا، ''یہ بات کہ نیرج کا حریف پاکستان سے ہے، اس کو اور بھی بڑا بنا دیتی ہے۔‘‘
2024 کے اولمپکس کے بعد پورے جنوبی ایشیا میں فخر کا احساس تھا۔ چوپڑا کی والدہ سروج دیوی نے کہا، ''ہمیں سلور پر بھی خوشی ہے۔ جس نے گولڈ جیتا وہ بھی ہمارا بچہ ہے اور جس نے سلور جیتا وہ بھی ہمارا بچہ ہے۔‘‘
اسی طرح ندیم کی والدہ رضیہ پروین نے کہا، ''وہ صرف دوست نہیں بلکہ بھائی ہیں۔
نیرج بھی ہمارے بیٹے کی طرح ہے، میں اس کے لیے بھی دعا کرتی ہوں کہ وہ میڈل جیتے۔‘‘دسمبر میں ندیم نے سوشل میڈیا پر چوپڑا کو سالگرہ کی مبارکباد دی۔
پانڈے کے مطابق، ''ماؤں کے بیانات اس رشتے کا سب سے خوبصورت پہلو ہیں، ورنہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اکثر کشیدہ رہتے ہیں۔‘‘
دعوت منسوخاس سال چوپڑا نے ندیم کو اپنے ایونٹ ''نیرج چوپڑا کلاسک‘‘ میں شرکت کی دعوت دی تھی جو جولائی میں بنگلورو میں ہونا تھا۔
لیکن اپریل میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے، جس میں زیادہ تر بھارتی سیاح تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا لیکن پاکستان نے اس کی تردید کی۔ بعد میں دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔اس کے بعد چوپڑا نے ندیم کو دعوت منسوخ کر دی۔ انہوں نے لکھا، ''گزشتہ 48 گھنٹوں میں جو کچھ ہوا اس کے بعد ارشد کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں پوری قوم کی طرح غمزدہ اور غصے میں ہوں۔‘‘انہوں نے اپنی والدہ کے بیانات پر تنقید کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کو بھی جواب دیا، ''جب میری والدہ نے گزشتہ سال معصومیت میں ایک بیان دیا تھا تو سب نے تعریف کی۔ آج انہی لوگوں نے ان پر تنقید شروع کر دی ہے۔‘‘
ان واقعات کے بعد اب ٹوکیو میں دونوں کا سامنا پہلی بار ہو گا اور ہر کوئی دیکھے گا کہ ان کے درمیان تعلقات کیسے ہیں۔
خان کے مطابق، ''ہمارے ممالک کے تعلقات اچھے نہیں، یہ حقیقت ہے۔ مگر دونوں پروفیشنل کھلاڑی ہیں اور ایونٹ پر توجہ رکھیں گے۔‘‘ دائمی وراثتیقیناً ٹوکیو میں صرف نیرج اور ندیم ہی نہیں ہیں۔ پاکستانی اسپورٹس رائٹر علی احسن کے مطابق، ''جولیان ویبر بہترین فارم میں ہیں اور گولڈ جیتنا چاہیں گے۔ گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز اور ٹرینیڈاڈ کے کیشورن والکاٹ بھی میڈل کی دوڑ میں ہیں۔
‘‘نیرج اور ندیم چاہے جیتیں یا ہاریں، ان دونوں کھلاڑیوں کی وراثت قائم ہو چکی ہے۔
پانڈے کے مطابق، ''نیرج نے پہلی بار دکھایا کہ بھارتی کھلاڑی بھی ایتھلیٹکس میں میڈل جیت سکتے ہیں۔ اس نے دوسرے بھارتی ایتھلیٹس کو حوصلہ اور اعتماد دیا ہے۔‘‘
پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ خان نے کہا، ''ارشد ہم سب کے لیے ایک تحریک ہیں۔ چاہے جو بھی ہو، وہ تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن اگر وہ ٹوکیو میں گولڈ جیتیں تو یہ مزید شاندار ہو گا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین