میڈیا رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز اپوزیشن کا پہلا اجلاس ہوا اور اس فورم سے ملکی مسائل کا حل دیں گے۔یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی پروگرام گفتگو کرتے وہئے کہی۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اجلاس میں 26 ویں ترمیم پر بات ہوئی ہے اور یہ ترمیم آئین اور عدلیہ پر وار ہے اس لیے اسے ختم کرنا ہوگا، ترمیم میں اب بھی خرابیاں ہیں لیکن ہم بڑی خرابی سے بچ گئے اور مولانا فضل الرحمان نے ہمیں بڑی خرابی سے بچا لیا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملنا ضروری نہیں سمجھتا لیکن ملنے پر اعتراض نہیں ہے ، نواز شریف سے بات چیت ممکن ہے، لیکن وہ حکومت کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ حکومت غیرنمائندہ ہے ، مستقبل کا راستہ الیکشن ہیں۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اتحادی حکومت بنانے پر بات نہیں ہوئی لیکن مسائل کے حل کیلئے اتحادی حکومت بننی چاہیے اور کوئی ایک جماعت مسائل حل نہیں کرسکتی۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل کا کہنا تھا کہ

پڑھیں:

وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ میں اس حکم کو جیوڈیشل ایکٹیوازم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، بہرحال یہ عدالتی اختیار اور دائرہ کار کا معاملہ ، اس پر جنھیں نوٹس ہوا ہے۔

 ان کے وکلا ہی مقررہ تاریخ پیشی پر کوئی بات کریں گے ، البتہ دیگر پہلو پر بات ممکن ہے ، مثلاً عافیہ صدیقی کسی پاکستانی جیل میں قید نہیں ہیں۔ وہ امریکا کی جیل میں قید ہیں۔ امریکا کی عدالت نے انھیں 86سال قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ وہاں پاکستان کا کوئی حکم نہیں چلتا۔البتہ سفارت کاری ہوسکتی ہے جو ہوتی بھی رہتی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2024میں وزیر اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔ لیکن شاید امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو رہا کیا گیا ۔ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے بار بار پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس خط کا امریکی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد محترم جج صاحب نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے تمام غیر ملکی دوروں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اب انھوں نے وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں امریکا اور پاکستان کے درمیان کیسے تعلقات ہیںیا تعلقات کیسے ہونے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کب امریکی صد ر کو کسی ایشو کے حوالے سے کوئی خط لکھنا چاہتے ہیں اور کب نہیں لکھنا چاہتے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا مینڈیٹ ہوتا۔ یہ دو ممالک کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے کہ کس حد تک بات کرنی یا نہیں کرنی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی دوسرے آئینی ادارے کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پاکستان امریکا کے تعلقات کیسے ہوںگے؟ ایک دوسرے کے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ یہ طے کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔

 ہمارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے جذبات قابل قدر ہیں۔ ہماری یہ خواہش کہ امریکی حکومت ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا کر دے، قابل تحسین ہے۔ لیکن امریکا کا نظام ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے ۔

وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی حکم کو مانتے ہوئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا۔ اب امریکی صدر نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ توہین عدالت کے نوٹس وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو جاری ہو گئے ہیں۔ ان کے دوروں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔ ظاہر یہ قانونی کارروائی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچے گی۔

عافیہ صدیقی کی طرح بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے معاملات سفارتی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ سفارت خانے ان سے جیلوں میں ملاقات بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ سلوک وہاں کی حکومتیں اپنے قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔ان پر پاکستان کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔

جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام قانونی اخراجات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت پاکستان یہ اخراجات ادا کرے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے؟ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی کئی بات عرض کیا ہے کہ پاکستان کا قانون یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ’’اہم‘‘ کے کیسز اور ’’غیر اہم‘‘ کے کیسز میں فرق نظر آتا ہے۔ اگر قانونی اخراجات ادا کرنے ہیں تو صرف ایک کے کیوں ادا کرنے ہیں، باقی تمام پاکستانیوں کے کیوں نہ ادا کیے جائیں۔

سوال یہی ہے کہ باقی پاکستانیوں کی رہائی کے لیے خط کیوں نہ لکھا جائے؟ میں کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف نہیں۔ لیکن میرا مقصد اس اصول کو سامنے رکھنا ہے کہ سب کے لیے یکساں نظام انصاف ۔ بیرون ملک جیلوں میں قید اکثر قیدیوں کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کے لوگ بے قصور اور بے گناہ قید ہیں۔ کیا کسی غیر ملک کا نظام انصاف کسی کے لواحقین کے کہنے پر یقین کرے گا۔ عوامی رائے پر بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدالت نے قانون اور ثبوت دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔

میں نظام عدل کے انتظامی اختیارات یا معاملات کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیو نکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ کوئی جج چھٹی پر تھا یا نہیں،کاز لسٹ چھٹی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی تھی۔یا نہیں ، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل معاملہ سسٹم کو ٹھیک رکھنے کا ہے تاکہ پاکستان کے عوام کو یکساں انصاف کے اصول پر انصاف مل سکے۔ پاکستان میں بہت عرصے سے نظام عدل پر تند و تیز باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں جتنا ممکن ہوسکے، اتنا اجتناب کیا جانا چاہیے، سفارتی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ
  • چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • ایمل ولی خان کے بیان پر ترجمان حکومت بلوچستان کا سخت ردِ عمل آگیا
  • وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس
  • وزیر اعظم کا اہم اقدام ،خواتین کیلئے’’ آن لائن ویمن پولیس اسٹیشن‘‘ قائم،صرف ایک فون کال پر کیا کیا سہولیات فراہم کی جائیں گی ؟ جانیے
  • چار جنرل نشستوں پر ظہیر عباس بانی سے نام لے آئے تھے، سلمان اکرم
  • چین سے آنے والی الیکٹرک گاڑیاں تقسیم ہوں گی ، وزیر اعظم
  • ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ