کراچی میں ہماری رہائش گاہ کے قریب ہی کوئٹہ چائے ہوٹل ہے۔ چائے اور پراٹھا یہاں کی اصل سوغات ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کےلیے دور دور سے لوگ آتے ہیں اور یہاں ہر وقت گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ مجھے چائے کا شوق اور نہ ہی پراٹھے کی تمنا، البتہ! میرے بچوں کو یہاں کا پراٹھا بہت بھاتا ہے اور وہ گاہے بہ گاہے یہاں سے پراٹھا خرید کر، سیر ہوکر کھاتے ہیں۔
اس ہوٹل پر کام کرنے والے سب کوئٹہ کے پٹھان ہیں اور سبھی انتہائی مستعد اور سمجھ دار ہیں۔ اُن میں سے اکثر تیرہ چودہ سال سے کم عمر کے بچے ہیں، لیکن اپنے اپنے کام میں مشاق ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اِس عمر میں صبح کے وقت اُن کو اسکولوں بعد از دوپہر تا اگلی صبح اپنے گھر والوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لیکن غمِ روزگار نے اُن معصوموں کا بچپن اُن سے چھین لیا ہے اور ان کو اپنے گھروں سے سیکڑوں میل دور کراچی میں زمانے کی سرد و گرم ہوا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
یہ بچے ہر طرح کی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کےلیے ہر دم تیار ہیں۔ صبح پُو پھٹتے ہی یہ کام پر لگ جاتے ہیں اور آدھی رات تک بغیر رکے لگاتار کام کیے جاتے ہیں۔ میں ان کی ہمت، صلاحیت، برداشت اور لگن کو داد دیے بِنا نہیں رہ سکتا۔ دن بھر ہر طرح کے لوگوں سے میل ملاپ کے بعد ان کی خدمت کرنا، حساب کتاب درست رکھنا، ہوٹل مالکان جو کہ اکثر ان کے قریبی رشتے دار ہوتے ہیں اور گاہک دونوں کو خوش و راضی رکھنا، آسان کام ہرگز نہیں ہے۔
رات کو سونے کےلیے کبھی بس کی چھت پر، کبھی مزدا گاڑی کی باڈی کے اندر، کبھی ٹرک کے اوپر اور کبھی فرش پر۔ دن کے وقت زمانے بھر کے دکھ درد، لوگوں کی ہوس بھری نگاہیں، امیر کبیر قسم کے لوگوں کی دھتکار، رات کے وقت ان کےلیے بستر اور تکیے کا کام کرتے ہوں گے۔ ان کو کبھی میں نے اپنے نیچے کوئی گتہ یا کوئی اور موٹا کپڑا بچھا کر سوتے نہیں دیکھا۔ مچھر کاٹتے ہوں گے، رات سوتے میں کبھی کبھی بارش بھی ہوتی ہوگی اور سردیوں میں ٹھنڈ بھی بہت لگتی ہوگی، مگر یہ کبھی اُف تک نہیں کرتے۔ البتہ ان کو میں نے ہمیشہ اپنے دوسرے ہم عمر بچوں کو خوشی خوشی اسکول جاتے دیکھ کرحسرت و یاس کی تصویر بنے ضرور دیکھا ہے۔
آج بھی دوپہر کے وقت میرے بچے کو میرے ساتھ گھر کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر ان میں سے ایک نو یا دس سالہ بچے کی نگاہیں دور سے ہی ہمارا تعاقب کرنے لگیں۔ اُسی دوران میرے بچے نے پراٹھا لینے کی فرمائش کر ڈالی۔ رقم کی ادائی کے بعد اُسی بچے نے پراٹھا بنانا شروع کیا۔ ماشا اللہ اُس کا ہاتھ نہایت تیزی اور مہارت سے چل رہا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ پشتو میں ہلکا پھلکا گنگنا بھی رہا تھا۔ انتہائی خوش اخلاق اور ہنس مکھ بچہ ہے۔ میں نے کہا: ’’آج بڑے خوش نظر آرہے ہو؟‘‘ کہنے لگا: ’’اگلے مہینے رمضان میں ہم کھوئٹہ (کوئٹہ) جائے گا۔ اس لیے خوش ہے۔‘‘
’’کوئٹہ جاکر کیا کروگے؟‘‘ میں نے سوال داغ دیا۔ کہنے لگا: ’’کیا کروں گا؟ اپنے والدین، بین بائیوں (بہن بھائیوں) سے ملوں گا، رشتہ داروں کے گھر جاؤں گا، کھیلوں گا، گھوموں گا، پھروں گا، آزادی مناؤں گا، مستی کروں گا اور آرام کروں گا۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’گھر والے تمھیں یاد آتے ہیں؟‘‘ اس سوال نے جیسے اُسے ایک دم اداس کردیا۔ معصوم چہرے پر ایک دم سنجیدگی نمودار ہوئی اور کہنے لگا: ’’کیا مطلب ہے گھر والے یاد آتے ہیں؟ بہت یاد آتے ہیں۔ ہم تو مجبوری میں یہاں پردیس میں ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’فون پر تو بات ہوتی ہوگی؟‘‘ کہنے لگا: ’’کبھی کبھی، کیوں کہ سیٹھ کام کے علاوہ کوئی اور بات جانتا ہی نہیں ہے۔‘‘
بات کرتے کرتے اُس نے پراٹھے تیار کرلیے اور گرم گرم پراٹھے کاغذ میں لپیٹنے کے بعد شاپنگ بیگ میں ڈال کر ہمیں دے دیے، لیکن تلخ حقائق بیان کر کے نہ صرف ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا بلکہ اپنے ساتھ ہمیں بھی دکھی کردیا۔
کتنی ہی ایسی کلیاں ہوں گی جن پر وقت اور حالات ستم ڈھاتے ہوں گے اور وہ بِن کِھلے مرجھاتی ہوں گی۔ یہ عمر بچوں کو اپنوں سے دور پردیس کاٹنے، اسکول نہ جانے، نہ کھیل سکنے، اچھے کپڑے نہ پہن سکنے، صحیح طرح نہ سو سکنے، ہر وقت بھاری بھر کام کرتے رہنے اور ڈانٹ کھاتے رہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔ اس عمر میں تو ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ اور پیار کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عمر تو اسکول جانے، پڑھائی کرنے، کھیلنے کودنے اور رات کو ماں یا باپ کے بازو پر سر رکھ کر گہری نیند سونے کی ہوتی ہے۔
آخر ان کا بھی کوئی پرسانِ حال ہے؟ ان کے بارے میں بھی کوئی سوچتا ہے؟ ان سے بھی کسی کو ہمدردی ہے؟ اے کاش! اربابِ حل و عقد ان کا بھی سوچیں!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہنے لگا ا تے ہیں ہیں اور کے وقت
پڑھیں:
حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ حماس، غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور اب ان کے رہنما شکار کیے جائیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے، حماس دراصل معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے وہ (حماس رہنما) مرنا چاہتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حماس کے رہنما اب شکار کیے جائیں گے۔
ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی دھمکی دی ہے کہ غزہ جنگ بندی نہ ہونے کے بعد اسرائیل اب ’’متبادل راستے‘‘ اپنائے گا تاکہ باقی مغویوں کی بازیابی اور غزہ میں حماس کی حکمرانی کا خاتمہ کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ امریکا اور اسرائیل یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ان دونوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات سے اپنے نمائندے واپس بلالیے ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سیاسی رہنما باسم نعیم نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کی اصل نوعیت کو مسخ کر رہے ہیں۔
حماس رہنما نے الزام عائد کیا کہ غزہ جنگ بندی پر امریکی موقف میں تبدیلی دراصل اسرائیل کی حمایت اور صیہونی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ دوحہ میں مجوزہ غزہ جنگ بندی کے تحت 60 روزہ جنگ بندی، امداد کی بحالی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی مغوی رہائی پر اتفاق کرنا تھا۔
تاہم اسرائیل کے فوجی انخلا اور 60 دن بعد کے مستقبل پر اختلافات ڈیل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔