Daily Ausaf:
2025-11-03@16:45:10 GMT

قرآن کریم پڑھنے کے سات مقاصد

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ کا معمول تھا کہ رات کو سونے سے پہلے آخری تین سورتیں جو ’’معوذات‘‘ کہلاتی ہیں یعنی، قل ھو اللّٰہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتے تھے اور ان ہاتھوں کو پورے جسم پر پھیرتے تھے۔ آخری ایام میں جب کمزوری بڑھ گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر نبی اکرمؐ کے ہاتھوں پر پھونکتی تھی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے جسم پر پھیرتی تھی۔ معوذات کا یہ پڑھنا برکت کے لیے تھا اور شفا کے لیے تھا۔ اور قرآن کریم کی تلاوت سے یہ دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت سے ہمارے ذہنوں میں پانچواں مقصد عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ وفات پانے والے کسی بزرگ، دوست، ساتھی اور رشتہ دار کو ایصال ثواب کے لیے ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ قرآن کریم سے یہ مقصد اور فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے، ایصال ثواب بھی ہوتا ہے اور قرآن کریم کی برکت سے اللہ تعالیٰ مغفرت اور بخشش بھی فرماتے ہیں۔
جبکہ قرآن کریم کی تلاوت سے ہمارا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ قراء کرام عام جلسوں میں اچھے سے اچھے لہجے میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں جس سے لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف رغبت ہوتی ہے، قرآن کریم کے اعجاز کا اظہار ہوتا ہے، اور غیر مسلموں کے سامنے قرآن کریم کی اچھے لہجے میں تلاوت ان کی قرآن کریم کی طرف کشش کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہ پانچ چھ مقاصد جن کا میں نے ذکر کیا ہے دراصل وہ فوائد ہیں جو ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوتے ہیں اور ہم قرآن کریم کی تلاوت یا سماع سے یہ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت سے یہ سارے فائدے ملتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ان فوائد کا منبع بنا یا ہے، مگر سوال یہ ہے جس کی طرف میں خود کو اور آپ سب حضرات کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کا اپنا ایجنڈا اور مقصد کیا ہے اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ دنیا کی کوئی کتاب ہم پڑھتے ہیں تو اس کا موضوع اور مقصد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کس موضوع پر اور کس مقصد کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن قرآن کریم کو پڑھتے ہوئے ہمارا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ اس کا اپنا موضوع اور مقصد کیا ہے اور یہ کس سبجیکٹ کی کتاب ہے؟ تاریخ کی ہے، سائنس کی ہے، سیاست کی ہے، طب کی ہے، ادب کی ہے، یا کون سے فن کی ہے۔ ہم اس کتاب اللہ کو اپنے اپنے ذوق کے موضوعات کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش تو کرتے رہتے ہیں کہ سائنس سے دلچسپی والا مفسر اس کی تفسیر میں پوری سائنس بیان کر دے گا، جغرافیہ کے ذوق کا عالم اس میں جغرافیے کو سمونے کی کوشش کرے گا، منطق و فلسفہ کا عالم اسے منطق و فلسفہ کا نمائندہ بنانے میں قوت صرف کرے گا اور طب کی دنیا کا شناور اسے علاج و معالج کی کتاب بنانے میں صلاحیتوں کو استعمال کرے گا، مگر اللہ تعالیٰ کے اس آخری کلام کا اپنا موضوع کیا ہے؟ اس کی طرف کم لوگوں کی توجہ ہوتی ہے۔
قرآن کریم نے اپنا موضوع صرف ایک لفظ میں بیان کیا ہے اور وہی اس کا اصل مقصد ہے جو تلاوت کا آغاز کرتے ہی سامنے آجاتا ہے۔ سورہ البقرہ کا آغاز اسی سے ہوتا ہے کہ ’’ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین‘‘ (سورہ البقرہ ۲) یہ کتاب شک و شبہ سے بالاتر ہے اور متقین کے لیے ’’ہدایت‘‘ ہے۔ یعنی اس کا اصل موضوع ہدایت ہے، یہ نسل انسانی کی راہنمائی کے لیے آئی ہے کہ اسے دنیا میں کس طرح رہنا ہے اور انسانوں کو اس دنیا میں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے۔ قرآن کریم کا اصل موضوع ’’ھدًی‘‘ ہے۔ یہ ھدی للناس بھی ہے اور ھدی للمتقین بھی ہے۔ اپنے خطاب کے حوالہ سے یہ ھدی للناس ہے مگر نفع کے اعتبار سے ھدی للمتقین ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھ لیا جائے کہ کسی گاؤں میں بجلی نہیں تھی، گاؤں والوں کی کوشش سے بجلی منظور ہو گئی اور گاؤں سے باہر اس مقصد کے لیے ٹرانسفارمر لگا دیا گیا۔ اب یہ ٹرانسفارمر سارے گاؤں کے لیے ہے لیکن بلب اس کا روشن ہو گا جس کا کنکش ہو گا۔ دو میل دور اگر کسی گھر کا کنکشن ہے تو اس کی ٹیوب بھی چلے گی اور اے سی بھی چلے گا، مگر ساتھ والے مکان کا کنکشن نہیں ہے تو اس کا زیرو کا بلب بھی روشن نہیں ہو گا۔ اسی طرح قرآن کریم بھی اپنے خطاب کے حوالہ ہےھدی للناس ہے لیکن فائدہ اسی کو ہو گا جس کا ایمان کا کنکشن ہو گا۔
یہ ’’ھدًی‘‘ کیا ہے؟ اس پر بھی غور کر لیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو زمین پر اتارا تو دو باتیں اسی وقت فرما دی تھیں۔ (۱) ایک یہ کہ ’’ولکم فی الارض مستقر و متاع الی حین‘‘ (سورہ الاعراف ۲۴) تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ اور زندگی کے اسباب ملیں گے لیکن یہ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک مقررہ مدت کے لیے ہوں گے۔ یہ مقررہ مدت ایک فرد کے لیے چالیس پچاس ساٹھ سال کی وہ زندگی ہے جو وہ اس دنیا میں بسر کرتا ہے، اور نسل انسانی کے لیے وہ چند ہزار سال کا وقت ہے جو اس کے لیے اس دنیا میں مقرر ہے۔ (۲) جبکہ دوسری بات اللہ رب العزت نے یہ واضح طور پر فرما دی تھی کہ ’’اما یأتینکم منی ھدًی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ولاھم یحزنون‘‘ (سورہ البقرہ ۳۸) جب میری طرف سے تمہارے پاس ہدایات آئیں گی تو جس نے میری ہدایات کے مطابق دنیا کی زندگی بسر کی وہ خوف و حزن سے نجات پائے گا یعنی جنت میں واپس آئے گا، اور جس نے میری ہدایات کو جھٹلا دیا اسے دوزخ میں جانا ہوگا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کی محدود زندگی تم اپنی مرضی کے مطابق گزارنے میں آزاد نہیں ہو بلکہ میری ہدایات کے پابند ہو جو میری طرف سے تمہارے پاس آتی رہیں گی۔ قرآن کریم اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ میں وہ ’’ھدًی‘‘ ہوں جس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے تم سب پابند ہو۔ یعنی قرآن کریم نسل انسانی کے تمام طبقات اور تمام افراد کو یہ بتانے آیا ہے کہ تم نے اس دنیا میں کیسے رہنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ یہ سیاستدانوں کی بھی راہنمائی کرتا ہے، حکمرانوں کی بھی، سائنس دانوں کی بھی، ڈاکٹروں کی بھی، انجینئروں کی بھی، جغرافیہ دانوں کی بھی، اور فلسفیوں اور منطقیوں کی بھی راہنمائی کرتا ہے۔
اس لیے قرآن کریم کا اصل موضوع اور مقصد یہ ہے کہ ہم اسے ہدایت اور راہنمائی کے لیے پڑھیں اور اس کی ہدایات کی روشنی میں اپنی زندگی کے معاملات طے کریں۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہمارا معاملہ قرآن کریم کے ساتھ کچھ اس طرح کا ہے کہ جیسے کسی کے ہاں کوئی بہت ہی معزز مہمان آجائے وہ اسے پورا پروٹوکول دے، اس کی خدمت کرے اور اس کی آمد سے جتنے فوائد حاصل ہو سکتے ہوں وہ بھی حاصل کرے، لیکن اس سے اس کی آمد کا مقصد نہ پوچھے کہ آپ کس مقصد کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ یہ طرز عمل خودغرضی کہلاتا ہے اور ہمارا قرآن کریم کے ساتھ خدانخواستہ یہی خودغرضی والا معاملہ چل رہا ہے۔ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے محبت و عقیدت بھی ہمارے دلوں میں ہے، اس کا ادب و احترام بھی کرتے ہیں، اس سے سارے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں، مگر اس سے یہ نہیں دریافت کرتے کہ اس کی آمد کا مقصد کیا ہے اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی کے ساتھ یہ جذباتی محبت ہی ہمارا اصل اثاثہ ہے اور سرمایہ حیات ہے۔ البتہ ہمیں صرف اس پر قناعت کرنے کی بجائے قرآن کریم اور سنت نبویؐ کو اپنی زندگی کا راہنما بنانا چاہیے کہ قرآن و سنت کا اصل مقصد یہی ہے اور اسی راستے پر چل کر ہم دنیا و آخرت میں نجات اور سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قرا ن کریم کی تلاوت سے اس دنیا میں اللہ تعالی کیا ہے اور کرتے ہیں اور مقصد کہ قرا ن حاصل ہو کے لیے کی بھی کا اصل کی طرف اور اس

پڑھیں:

ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟

تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔

ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔

عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔

تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔

اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔

آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟

پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟

اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔

آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔

خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔ 

ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔

دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔

اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔

آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • مالدیپ نے نئی نسل کیلئے تمباکو نوشی پر پابندی لگا دی
  • فیصل کریم کنڈی کا صوبے کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہر کوشش کی حمایت کا اعلان
  • گورنر کے امیدوار کیلئے 8 ،10 نام؛ پارٹی فیصلہ کرے گی : گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی
  • خیبر پختونخوا میں اس وقت ایسی صورتحال نہیں کہ گورنر راج لگانا پڑے، فیصل کریم کنڈی
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • کے پی کو وفاقی حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے؛ گورنر فیصل کریم کنڈی
  • کے پی کو وفاقی حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے: گورنر فیصل کریم کنڈی
  • گورنر خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات،‘متحد ہو کر صوبے کو پرامن بنائیں گے’
  • پشاور: گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی ملاقات کررہے ہیں