سئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل صرف اور صرف مسلح مزاحمت سے ہی ممکن ہے، علامہ باقر زیدی
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ٹھوس اور بھرپور حکمت عملی وضع کرے، دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کو ان کے اصل باشندوں سے جدا نہیں کر سکتی، بھارت اور اسرائیل دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہیں، عالمی برادری ان کے خلاف ایکشن لے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صدر علامہ باقر عباس زیدی نے کہا یے کہ مسئلہ کشمیر حکومت کی بھرپور توجہ اور عملی اقدامات کا متقاضی ہے، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خاتمہ اور کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور اگر بھارت اپنی ریاستی دہشت گردی سے پیچھے نہیں ہوتا تو پھر کشمیری عوام کی مزاحمت کو ہر سطح پر تعاون اور حمایت پہنچائی جائے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بد ترین مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور عالمی برادری اور ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، آج بھارت کشمیر میں اور غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل فلسطین میں بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
ایم ڈبلیو ایم رہنما نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل صرف اور صرف مسلح مزاحمت سے ہی ممکن ہے، حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ٹھوس اور بھرپور حکمت عملی وضع کرے، دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کو ان کے اصل باشندوں سے جدا نہیں کر سکتی، بھارت اور اسرائیل دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہیں، عالمی برادری ان کے خلاف ایکشن لے۔ انہوں کہا کہ حکومت کی کشمیر و فلسطین کے معاملہ پر کمزور خارجہ پالیسی نے فلسطین اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ زبانی جمع خرچ کی بجائے کشمیر کاز کے لئے عملی اور موثر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور فلسطین عالم اسلام کا قلب ہے، بھارت نے پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ اسرائیل مسلم امہ کے قلب میں خنجر کی مانند ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مسئلہ کشمیر نے کہا کہا کہ کے لئے
پڑھیں:
اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپین: میڈرڈ کی قدامت پسند حکومت نے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت پر خاموشی سے پابندی عائد کردی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپین کے دارالحکومت نے مختلف اسکولوں کو فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے تمام نشانات، جن میں فلسطینی پرچم بھی شامل ہیں، ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی موقف یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور فلسطین کی حمایت ایک سیاسی معاملہ ہے، یہ ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں کیونکہ اس سے قبل میڈرڈ ریجن کے کئی اسکول مہینوں تک فلسطین کے حق میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اسی حکومت نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تعلیمی اداروں میں یوکرین کی حمایت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس سے اس فیصلے پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اسپین کی قومی سیاست میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے، گزشتہ دنوں میڈرڈ ریجن کی پاپولر پارٹی کی سربراہ ایزابیل دیاس اییوسو نے وزیراعظم پیڈرو سانچیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے ملکی آزادی اور کھیلوں کے تقدس پر حملہ ہیں۔
اسی دوران پاپولر پارٹی کے قومی سربراہ البیرتو نونیز فیخوو نے بھی حکومت کی فلسطین نواز پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سانچیز اپنی ناکامیوں اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،میں آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ غزہ میں ہونے والی اموات کو ہسپانوی عوام کے خلاف استعمال کریں۔”
جواب میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے فیخوو کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حالیہ سروے کے مطابق 82 فیصد اسپین کے عوام غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت یورپی یونین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے مؤثر آواز رہی ہے۔ 2024 میں اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر مستقل اسلحہ پابندی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے درآمدات پر بھی پابندی عائد کی۔
میڈرڈ ریجن کی حکومت کی اس پالیسی نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید بحث کو جنم دیا ہے اور یہ واضح تضاد اجاگر کیا ہے کہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ فلسطین کی حمایت کو دبایا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔