Nai Baat:
2025-11-03@21:41:13 GMT

عمران خان 5 اگست کو کیوں گرفتار ہوا؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

عمران خان 5 اگست کو کیوں گرفتار ہوا؟

میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ پی ٹی آئی کا بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان پانچ اگست کو ہی کیوں گرفتار ہوا حالانکہ وہ اس سے پہلے 9 مئی کو بھی گرفتار ہوا تھا مگر اس کے عہدیداروں اور کارکنوں کے جی ایچ کیو سمیت ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور اعلیٰ عدلیہ میں ’ گڈ ٹو سی یو‘ کہنے والے ججوں کی وجہ سے رہا ہو گیا تھا۔ جب یہ پانچ اگست کی شام توشہ خانہ کیس میں جھوٹا حلف نامہ دینے پر نااہل اور گرفتار ہوا تو اس روز کوئی احتجاج ہوا نہ ہنگامے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کی پانچ اگست کو گرفتاری قدرت کی منصوبہ بندی تھی یا ریاست کی۔ اسٹیبلشمنٹ نے تو پہلے بھی اسے گرفتار کیا تھا مگرقدرت چاہتی تھی کہ اسے نو مئی کی بجائے پانچ اگست کو ہی گرفتار کیا جائے کہ یہ دن ہماری تاریخ میں ہمارے دشمن کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ سقوط کشمیر کا دن ہے، وہ سیاہ دن جب اسی نریندر مُودی نے پاکستان کی حکومت اور ریاست کو کمزور پا کے اپنے آئین کے آرٹیکل370 یعنی مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنا لیا تھا اور پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کے بزدلانہ بیان جاری کیا تھا کہ میں کیا کروں، کیا میں ہندوستان پر حملہ کر دوں؟

میں نے کہا کہ کہ اسی نریندر مودی نے تو لفظ اسی سے مُراد یہ ہے کہ یہ وہی نریندر مودی ہے جو اپنے ہیلی کاپٹر میں افغانستان سے اڑا تھا اور لاہور لینڈ کر کے بغیر پروٹوکول کے از خود ہی جاتی امرا میںاس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے ان کے گھر پہنچ گیا تھا ۔ یہ ایک تہلکہ خیز اور تاریخی ڈویویلپمنٹ تھی۔ یہ نریندر مودی ، ہندوتوا کے نعرے والی، اسی انتہا پسندبی جے پی کا رہنما ہے جس سے اٹل بہاری واجپائی کا تعلق تھا، جی ہاں، وہی اٹل بہاری واجپائی جو نواز شریف کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر بس پر بیٹھ کے واہگہ کے راستے لاہور آ گئے تھے اور میں نے بھی بطور چیف رپورٹر روزنامہ دن وہ تاریخی لمحات دیکھے تھے جب وہ مینار پاکستان حاضری دینے پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ان کی مہر سے نہیں چلتا۔ اسی شام اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کے گورنر ہاوس کے سرسبز میدان میں ’اعلان لاہور‘ پر دستخط کئے تھے جس میں انہوں نے بھارت کی طرف سے وعدہ کیا تھا کہ دونوں ہمسائے باہمی طور پراس تاریخی مسئلے کا حل نکالیں گے۔ وہ بھارت جس کے انتہا پسند جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم ، اپنے دشمن ملک میں پہنچ کے اعلان کر رہے تھے کہ وہ تنازعات اور بالخصوص ستر برس سے جاری تنازع کشمیر کو برابری کی سطح پر حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہی جماعت اور اس کا وزیراعظم اتنے اتھرے کیوں ہو گئے کہ اس نے یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ تک کی قراردادوں کو پیروں تلے کچل دیا۔ اس کا جواب میرے پاس موجود ہے کیونکہ اسے علم تھا کہ پاکستان کے پاس اس وقت ایسی قیادت موجود نہیں جو عالمی سطح پر اثر و رسوخ رکھتی ہو، افسوس، پاکستان محب وطن، تجربہ کار اور سنجیدہ سیاستدانوں سے چھین کے ایک پلے بوائے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

میں تاریخ کو حال کے ساتھ جوڑ رہا ہوں اور یاد کر رہا ہوں سقوط کشمیر کے بعد تاریخ کے بزدل ترین وزیراعظم نے کہا تھا کہ کیا میں ہندوستان پر حملہ کر دوں اور آج پاکستان کا وزیراعظم ، مظفر آبا د جا کے کہہ رہا ہے کہ ہمیں ضرورت پڑی تو طاقت کا استعمال کریں گے اور بھرپور طریقے سے کریں گے۔ پاکستان کا سپہ سالار کہہ رہا ہے کہ ہم نے تین جنگیں کشمیر کے لئے ہی لڑی ہیں اور اگر کشمیر کے لئے ہمیں مزید دس جنگیں بھی لڑنی پڑیں تو ہم لڑیں گے۔ اس وقت کشمیرفروشوں کا ایک گروہ فکری مغالطے پیدا کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق ہی نہیں چاہتے اور میں انہیں مرد حریت سید علی گیلانی کی بار بار کہی ہوئی بات سنانا چاہتا ہوں ، انہوں نے فرمایا کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کو ہمیشہ اپنے دل اور اپنی پلکوں پر رکھا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کشمیریوں کو جو بجلی اور فائن آٹا فراہم کر رہا ہے وہ اس کی اپنی پروڈکشن کاسٹ سے نصف قیمت پر ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ نہیں ہیں تو وہ سو فیصد غلط ہے۔ درست تو یہ ہے کہ بھارت لاکھوں کشمیریوں کو قید اور شہید کرنے ، اپنی لاکھوں کی فوج وہاں مسلسل لگائے رکھنے اور پانچ اگست 2019 والا غیر قانونی اور غیر اخلاقی قدم اٹھانے کے باوجود مسئلہ کشمیر کو ختم نہیں کر سکا کہ بھلا قوموں کی آزادی کی خواہش اور جدوجہد کبھی ختم کی جا سکی ہے، کبھی نہیں، فلسطین کو ہی دیکھ لیجئے کہ کیا اسرائیل غز ہ والوں کے عزم اور جذبے کو ختم کر سکا ہے؟
پانچ اگست کا سقوط سری نگر اتنا ہی بڑا سانحہ تھا جتنا بڑا سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے کردار عبرتناک انجام سے نہیں بچ سکے تو سقوط سری نگر کے کیسے بچ سکتے تھے،کوئی مانے یا نہ مانے، کلمے کا رشتہ بہت مضبوط رشتہ ہے، میں نے دیکھا کہ اس رشتے کو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کمزور کیا گیا مگر خود بنگالیوں نے پہلے شیخ مجیب کے ساتھ کیا سلوک کیا اور پھر اس کی بیٹی کے ساتھ۔ شیخ مجیب کو خود بنگالی فوج نے عبرتناک طریقے سے قتل کیا تھا اور آج اس کی بھارت میں پناہ لے کر بیٹھی ہوئی بیٹی بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ نفرت کی جانے والی شخصیت بن چکی ہے۔ میں جب یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو اطلاعات ہیں کہ بنگالیوں نے اس کے آبائی گھر کو بھی مسمار کر دیا ہے، ایک کھنڈر بنا دیا ہے۔ میں اندرا گاندھی کی موت کا بھی یہاں حوالہ دینا چاہتا ہوں اور پورے یقین سے کہتا ہوں کہ آج جیل میں بیٹھا ہوا جو شخص شیخ مجیب بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے، ختم کرنے اور اس پر ایٹم بم گرانے کی خواہشات کا اظہار کر رہا ہے، وہ نیو بورن برائلر شیخ مجیب ہے اور اسی انجام سے دوچار ہو گا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے پہلے کردار دوچار ہوئے۔میں دہرائوں گا کہ عمران خان کی پانچ اگست کو ہونے والی گرفتاری اورا س کے بعد لمبی جیل ظاہر کر رہی ہے کہ اسے کشمیر فروشی کی سزا ملی ہے۔ پاکستان، مملکت خداداد ہے اور خدا اپنی دی ہوئی نعمت کو نقصان پہنچانے والوں کو کیسے معاف کر سکتا ہے۔ پانچ اگست کا مودی کا اقدام اور اس پرڈھیلا ماٹھا جواب سید علی گیلانی ، آسیہ اندرابی، میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک، برہان وانی جیسے ہزاروں وفا کرنے والوں کی توہین تھا، عمران خان کو اس کی سزا تو ملنی تھی اور وہی مل رہی ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پانچ اگست کو پاکستان کے گرفتار ہوا کیا تھا کے ساتھ تھا کہ اور اس کر رہا رہا ہے رہا ہو

پڑھیں:

وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مسلسل تاخیر کی وجہ سامنے آگئی

وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائدین نے تاحال متبادل قائد ایوان کی نامزدگی نہیں کی اور بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی پر ہی پیپلز پارٹی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ متوقع ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر مسلم لیگ ن کے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تاخیر کی وجہ ہے جبکہ آزاد کشمیر حکومت کا 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ذرائع کے مطابق موجودہ اسمبلی کی مدت جولائی 2026 میں ختم ہو رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا مطالبہ ہے کہ مارچ 2026 میں انتخابات کرائے جائیں۔ذرائع کا بتانا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کا مطالبہ تسلیم کیا جاتا ہے تو انتخابات سے 2 ماہ قبل جنوری ہی میں نئی حکومت اختیارات سے محروم ہو جائے گی جبکہ دسمبر اور جنوری میں پیپلزپارٹی مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل نہیں کر پائے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا اسمبلی کی مدت پوری کرنے پر اصرار ڈیڈلاک کی مبینہ وجہ ہے۔خیال رہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اتفاق کر چکی ہیں تاہم مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ وہ آزاد کشمیر حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور اپوزیشن بینچز پر بیٹھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مسلسل تاخیر، وجہ سامنے آگئی
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مسلسل تاخیر کی وجہ سامنے آگئی
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں مسلسل تاخیر
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • آزاد کشمیر میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد تعطل کا شکار
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد مسلسل تاخیر کا شکار
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
  • پی پی آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم
  • پی ٹی آئی کی وجہ سے آزاد کشمیر کے گزشتہ الیکشن میں جیت کو شکست میں بدلا گیا، اب حکومت بنائینگے: بلاول