عمران خان 5 اگست کو کیوں گرفتار ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ پی ٹی آئی کا بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان پانچ اگست کو ہی کیوں گرفتار ہوا حالانکہ وہ اس سے پہلے 9 مئی کو بھی گرفتار ہوا تھا مگر اس کے عہدیداروں اور کارکنوں کے جی ایچ کیو سمیت ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور اعلیٰ عدلیہ میں ’ گڈ ٹو سی یو‘ کہنے والے ججوں کی وجہ سے رہا ہو گیا تھا۔ جب یہ پانچ اگست کی شام توشہ خانہ کیس میں جھوٹا حلف نامہ دینے پر نااہل اور گرفتار ہوا تو اس روز کوئی احتجاج ہوا نہ ہنگامے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کی پانچ اگست کو گرفتاری قدرت کی منصوبہ بندی تھی یا ریاست کی۔ اسٹیبلشمنٹ نے تو پہلے بھی اسے گرفتار کیا تھا مگرقدرت چاہتی تھی کہ اسے نو مئی کی بجائے پانچ اگست کو ہی گرفتار کیا جائے کہ یہ دن ہماری تاریخ میں ہمارے دشمن کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ سقوط کشمیر کا دن ہے، وہ سیاہ دن جب اسی نریندر مُودی نے پاکستان کی حکومت اور ریاست کو کمزور پا کے اپنے آئین کے آرٹیکل370 یعنی مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنا لیا تھا اور پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کے بزدلانہ بیان جاری کیا تھا کہ میں کیا کروں، کیا میں ہندوستان پر حملہ کر دوں؟
میں نے کہا کہ کہ اسی نریندر مودی نے تو لفظ اسی سے مُراد یہ ہے کہ یہ وہی نریندر مودی ہے جو اپنے ہیلی کاپٹر میں افغانستان سے اڑا تھا اور لاہور لینڈ کر کے بغیر پروٹوکول کے از خود ہی جاتی امرا میںاس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے ان کے گھر پہنچ گیا تھا ۔ یہ ایک تہلکہ خیز اور تاریخی ڈویویلپمنٹ تھی۔ یہ نریندر مودی ، ہندوتوا کے نعرے والی، اسی انتہا پسندبی جے پی کا رہنما ہے جس سے اٹل بہاری واجپائی کا تعلق تھا، جی ہاں، وہی اٹل بہاری واجپائی جو نواز شریف کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر بس پر بیٹھ کے واہگہ کے راستے لاہور آ گئے تھے اور میں نے بھی بطور چیف رپورٹر روزنامہ دن وہ تاریخی لمحات دیکھے تھے جب وہ مینار پاکستان حاضری دینے پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ان کی مہر سے نہیں چلتا۔ اسی شام اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کے گورنر ہاوس کے سرسبز میدان میں ’اعلان لاہور‘ پر دستخط کئے تھے جس میں انہوں نے بھارت کی طرف سے وعدہ کیا تھا کہ دونوں ہمسائے باہمی طور پراس تاریخی مسئلے کا حل نکالیں گے۔ وہ بھارت جس کے انتہا پسند جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم ، اپنے دشمن ملک میں پہنچ کے اعلان کر رہے تھے کہ وہ تنازعات اور بالخصوص ستر برس سے جاری تنازع کشمیر کو برابری کی سطح پر حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہی جماعت اور اس کا وزیراعظم اتنے اتھرے کیوں ہو گئے کہ اس نے یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ تک کی قراردادوں کو پیروں تلے کچل دیا۔ اس کا جواب میرے پاس موجود ہے کیونکہ اسے علم تھا کہ پاکستان کے پاس اس وقت ایسی قیادت موجود نہیں جو عالمی سطح پر اثر و رسوخ رکھتی ہو، افسوس، پاکستان محب وطن، تجربہ کار اور سنجیدہ سیاستدانوں سے چھین کے ایک پلے بوائے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
میں تاریخ کو حال کے ساتھ جوڑ رہا ہوں اور یاد کر رہا ہوں سقوط کشمیر کے بعد تاریخ کے بزدل ترین وزیراعظم نے کہا تھا کہ کیا میں ہندوستان پر حملہ کر دوں اور آج پاکستان کا وزیراعظم ، مظفر آبا د جا کے کہہ رہا ہے کہ ہمیں ضرورت پڑی تو طاقت کا استعمال کریں گے اور بھرپور طریقے سے کریں گے۔ پاکستان کا سپہ سالار کہہ رہا ہے کہ ہم نے تین جنگیں کشمیر کے لئے ہی لڑی ہیں اور اگر کشمیر کے لئے ہمیں مزید دس جنگیں بھی لڑنی پڑیں تو ہم لڑیں گے۔ اس وقت کشمیرفروشوں کا ایک گروہ فکری مغالطے پیدا کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق ہی نہیں چاہتے اور میں انہیں مرد حریت سید علی گیلانی کی بار بار کہی ہوئی بات سنانا چاہتا ہوں ، انہوں نے فرمایا کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کو ہمیشہ اپنے دل اور اپنی پلکوں پر رکھا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کشمیریوں کو جو بجلی اور فائن آٹا فراہم کر رہا ہے وہ اس کی اپنی پروڈکشن کاسٹ سے نصف قیمت پر ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ نہیں ہیں تو وہ سو فیصد غلط ہے۔ درست تو یہ ہے کہ بھارت لاکھوں کشمیریوں کو قید اور شہید کرنے ، اپنی لاکھوں کی فوج وہاں مسلسل لگائے رکھنے اور پانچ اگست 2019 والا غیر قانونی اور غیر اخلاقی قدم اٹھانے کے باوجود مسئلہ کشمیر کو ختم نہیں کر سکا کہ بھلا قوموں کی آزادی کی خواہش اور جدوجہد کبھی ختم کی جا سکی ہے، کبھی نہیں، فلسطین کو ہی دیکھ لیجئے کہ کیا اسرائیل غز ہ والوں کے عزم اور جذبے کو ختم کر سکا ہے؟
پانچ اگست کا سقوط سری نگر اتنا ہی بڑا سانحہ تھا جتنا بڑا سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے کردار عبرتناک انجام سے نہیں بچ سکے تو سقوط سری نگر کے کیسے بچ سکتے تھے،کوئی مانے یا نہ مانے، کلمے کا رشتہ بہت مضبوط رشتہ ہے، میں نے دیکھا کہ اس رشتے کو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کمزور کیا گیا مگر خود بنگالیوں نے پہلے شیخ مجیب کے ساتھ کیا سلوک کیا اور پھر اس کی بیٹی کے ساتھ۔ شیخ مجیب کو خود بنگالی فوج نے عبرتناک طریقے سے قتل کیا تھا اور آج اس کی بھارت میں پناہ لے کر بیٹھی ہوئی بیٹی بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ نفرت کی جانے والی شخصیت بن چکی ہے۔ میں جب یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو اطلاعات ہیں کہ بنگالیوں نے اس کے آبائی گھر کو بھی مسمار کر دیا ہے، ایک کھنڈر بنا دیا ہے۔ میں اندرا گاندھی کی موت کا بھی یہاں حوالہ دینا چاہتا ہوں اور پورے یقین سے کہتا ہوں کہ آج جیل میں بیٹھا ہوا جو شخص شیخ مجیب بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے، ختم کرنے اور اس پر ایٹم بم گرانے کی خواہشات کا اظہار کر رہا ہے، وہ نیو بورن برائلر شیخ مجیب ہے اور اسی انجام سے دوچار ہو گا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے پہلے کردار دوچار ہوئے۔میں دہرائوں گا کہ عمران خان کی پانچ اگست کو ہونے والی گرفتاری اورا س کے بعد لمبی جیل ظاہر کر رہی ہے کہ اسے کشمیر فروشی کی سزا ملی ہے۔ پاکستان، مملکت خداداد ہے اور خدا اپنی دی ہوئی نعمت کو نقصان پہنچانے والوں کو کیسے معاف کر سکتا ہے۔ پانچ اگست کا مودی کا اقدام اور اس پرڈھیلا ماٹھا جواب سید علی گیلانی ، آسیہ اندرابی، میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک، برہان وانی جیسے ہزاروں وفا کرنے والوں کی توہین تھا، عمران خان کو اس کی سزا تو ملنی تھی اور وہی مل رہی ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پانچ اگست کو پاکستان کے گرفتار ہوا کیا تھا کے ساتھ تھا کہ اور اس کر رہا رہا ہے رہا ہو
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)