Nai Baat:
2025-11-03@17:59:17 GMT

سزا اور بانی کی مقبولیت

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

سزا اور بانی کی مقبولیت

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا اس حد تک ڈھول پیٹا گیا ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی ان کی مقبولیت کے گن گاتے نظر آتے ہیں اور اس میں وہ بھی شامل ہیں کہ جو تحریک انصاف کے سخت مخالف ہیں جبکہ ہم شروع دن سے کبھی ان کی مقبولیت کے قائل نہیں رہے اور اس کی کچھ وجوہات تھیں اور اب آہستہ آہستہ یہ حقیقت دنیا کے سامنے آتی جا رہی ہے اور جھوٹ کا یہ ڈرامہ کہ جس میں پوری دنیا کو ماموں بنایا جا رہا تھا اب اس کی حقیقت کافی حد تک کھل کر سامنے آ چکی ہے اور اگر کچھ پردہ رہ گیا ہے تو وہ بھی جلد فاش کر اصل منظر نامہ سب کے سامنے آ جائے گا اور مقبولیت کے بھرم کی حقیقت کا دنیا کے سامنے آنے کے جو اسباب ہیں اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خود تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی ہیں ۔ یہ بات ہم کوئی ہوا میں نہیں کہہ رہے بلکہ جس طرح تحریک انصاف کی احتجاج کی تمام کالز پے در پے ناکام ہوئیں ہیں تو اصل کام انھوں نے کیا ہے اور اس میں تحریک انصاف کی قیادت کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا کہ بانی پی ٹی آئی کا ہے اس لئے کہ تحریک انصاف میں بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا لہٰذا تحریک انصاف کے اندر کے ذرائع تو یہی بتاتے ہیں کہ سمجھانے کے باوجود بھی عمران خان کسی کی نہیں سنتے اور وہ اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک بار دو بار نہیں بلکہ بار بار احتجاجی کالز کی ناکامی کے باوجودبھی انھوں نے سبق نہیں سیکھا اور حکومت کو سبق سکھانے کے چکر میں خود انھوں نے اپنی مقبولیت کے بھرم کو چکنا چور کر دیا ۔ 2014میں عوامی تحریک کا ساتھ تھا لیکن پھر بھی چند دنوں کے بعد دھرنے کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ دن میں ویرانیاں اور شام کو کوئی دو ڈھائی سو بندہ ہوتا جسے ہزاروں کی تعداد میں دکھانے کے لئے میڈیا کو حکم جاری کیا گیا تھا ۔ 2022میں جب لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ شروع ہوا تو اس میں عوام کی اتنی تعداد بھی نہیں تھی کہ اسے جاری رکھا جا سکتا یہی وجہ ہے کہ وہ لانگ مارچ بڑی مشکل سے راوی کا پل کراس کر سکا اور اس کے بعد شاہدرے میں ایک چھوٹا سا جلسہ کر کے لانگ مارچ والے اپنے گھر اور خان صاحب اپنے گھر لوٹ گئے اور اس کے بعد دوسرے دن اگلے شہر میں ایک جلسی ہوتی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تاوقتیکہ وزیر آباد میں فائرنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا اور لانگ مارچ کو منسوخ کرنا پڑا لیکن پھر جس طرح بڑے دھڑلے سے نئے آرمی چیف کی تقرری کو رکوانے کے لئے راولپنڈی میں دھرنے کی کال دی تو اس میںبھی جب قابل ذکر تعداد میں لوگ نہیں آئے تو پھر وہ بھی منسوخ کرنا پڑا۔
ایک بار اسلام آباد پر چڑھائی میں ناکامی دوسری بار ناکامی اور پھر تیسری بار بھی ناکامی ۔ لاہور میں جلسہ ہوا تو چونکہ جگہ بدل گئی تھی اور وقت بھی دن کا تھا لہٰذا جعلی وڈیوز لگا کر کام چلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی جب اسلام آباد کی پہاڑیوں کو لاہور میں دکھایا گیا تو پول کھل گیا ۔ میڈیا نے ڈی چوک پر فاتحانہ انداز میں داخل کرا کر سنسنی تو پیدا کر دی لیکن پھر جب صفائی کا فیصلہ ہوا تو گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ڈی چوک تو کیا پورا اسلام آباد بھی خالی ہو گیا اور اس اعلان کے ساتھ خالی ہوا کہ سب کچھ اب معمول کی حالت میں ہے اور دوبارہ کچھ نہیں ہو گا ۔حد تو یہ ہوئی کہ ایک طرف سزا ہو رہی تھی اور دوسری جانب وہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی کہانیاں کرائی جا رہی تھیں کہ سب سیٹ ہو گیا ہے اور وہ جو الیکشن سے پہلے نواز لیگ کہتی تھی اب وہی بات ہمارے تحریک انصاف کے دوست کہنے لگے تھے کہ ” پائین ساڈی گل ہو گئی اے “ ۔ آپ کو یاد ہے کہ تحریک انصاف کے ہمارے دوست سوشل میڈیا پر کہا کرتے تھے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے جبکہ عمران خان کہتے تھے کہ بشریٰ بیگم ان کی ریڈ لائن ہیں ۔ ریڈ لائن کا مطلب ہے کہ پائین اسے اگر کراس کیا تو پھر پھڈا ہے لہٰذا اسے چھیڑنے کی کوشش بھی نہ کریں لیکن ہوا کیا کہ تحریک انصاف کی ریڈ لائن اور خود عمران خان کی ریڈ لائن دونوںکو احتساب عدالت سے سزا ہو گئی اور سزا بھی کم نہیں بلکہ چودہ اور سات سال کی سزائیں سنائی گئیں تو اس پر تو پورے پاکستان میں کہرام مچ جانا چاہئے تھا اور عوام کو سڑکوں پر آ جانا چاہئے تھا لیکن ہوا کیا کہ کراچی سے خیبر تک کہیں پر ایک بندہ بھی احتجاج کے لئے باہر نہیں نکلا ۔ ” او پئی ہوئی جے مقبولیت “ ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اس قدر سختی کی ہوئی ہے تو اس میں کون باہر نکلے تو عرض ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جنرل ضیاءکے دور آمریت میںساٹھ ہزار کوڑے جیلیں پھانسیاں یہ سب ایسے ہی گھر بیٹھے تو نہیں کر لیا تھا آخر وہ بھی تو تمام تر تشدد کے باوجود احتجاج کے لئے نکلتے تھے لیکن یہ دلیل اس وقت ڈھیر ہو جاتی ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ چلیں باقی جگہ تو سختیاں تھیں لیکن خیبر پختون خوا میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے وہاں پر تو پشاور ، دیر ، مالا کنڈ ، مردان ، سوات ہر جگہ عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پر ہونا چاہئے تھا پورا صوبہ جام ہو جانا چاہئے تھا اس لئے کہ اسے تو تحریک انصاف کا گڑھ کہا جاتا ہے لیکن وہاں سے بھی کسی احتجاج کی خبر نہیں آئی ۔ اس دوران وہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی کہانیاں لیکن جب ان رابطوں کو لے کر حکومت نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر ایسا ہے توپھر ہم سے مذاکرات کی کیا ضرورت ہے تو انتہائی بے بس لہجہ میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ سر راہ ملاقات کو رابطوں کا نام دے کر مذاکرات ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیںاور اب آرمی چیف کو لکھے خط سے جگ ہنسائی تو جب تک تحریک انصاف دو فٹ پیچھے ہٹ کر پالیسی نہیں بدلتی تب تک مشکلات کا شکار رہے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کی تحریک انصاف کے بانی پی ٹی آئی مقبولیت کے کی مقبولیت لانگ مارچ چاہئے تھا ریڈ لائن وہ بھی ہیں کہ ہے اور کے لئے اور اس

پڑھیں:

بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تحریک انصاف کے بانی کے نامزد قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی محمود اچکزئی کی تقرری مزید مشکلات کا شکار ہو گئی۔

آزاد ارکان کی طرف سے تقرری کے لئے عرضداشت کی وصولی کا اعلامیہ اسپیکر چیمبر سے تاحال جاری نہیں ہوا جو گزشتہ ماہ دائر کی گئی تھی۔درخواست ابھی اسپیکر سردار ایاز صادق کے روبرو پیش نہیں ہوئی جو اہم غیر ملکی دورے پر تھے۔

تحریک انصاف کے بانی کے نامزد قومی اسمبلی کے لئے قائد حزب اختلاف پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کا تقرر مشکلات کا شکار ہوگیا ہے۔

گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کے ستر سے زیادہ آزاد ارکان کے مبینہ دستخطوں سے ایک عرضداشت اسپیکر سیکریٹریٹ میں دائر کی گئی تھی جس کے بارے میں تاحال کوئی اعلامیہ اسپیکر چیمبر سے جاری نہیں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق قائد حزب اختلاف کی نشست پر تقرری سے پہلے اسپیکر ایوان میں اس منصب کے خالی ہونے کا اعلان کرینگے جس کے بعد ارکان سے نامزدگی کے لئے درخواستیں طلب کی جائیں گی۔

جن ارکان کی طرف سے عرضداشت پر دستخط کئے گئے ہیں ان کی حیثیت آزاد رکن کی ہے وہ قبل ازیں خو د کو سنی اتحاد کونسل سے وابستہ ظاہر کرتے رہے ہیں جس کے اپنے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کو دس سال کی سزائے بامشقت سنائی جاچکی ہے اور انہیں نا اہل قرار دیا جاچکا ہے اب خو د بھی قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔

قائد حزب اختلاف کے تقرر سے پہلے اسپیکر موصولہ درخواست پر ثبت ارکان کے دستخطوں کی انفرادی طور پر تصدیق کرینگے اگر کسی ایک رکن کے دستخط سیکریٹری میں پیش کردہ دستخطوں سےمختلف ہوئے اور ان کی تصدیق نہ ہوسکی تو پوری درخواست کو مسترد کردیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • انتظامیہ نے حکومت کی ایماء پر کوئٹہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی، تحریک تحفظ آئین
  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تحریک انصاف ،پنجاب لوکل گورنمنٹ بل ہائیکورٹ میں چیلنج کرنیکا اعلان
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • تحریک انصاف کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے