Express News:
2025-09-18@13:56:45 GMT

ترقی پسند خواتین کا بلند اقبال

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

اگر یہ کہا جائے کہ برٹش راج کے سرمایہ دارانہ دور میں برصغیر ترقی پسند فکر اور ترقی پسند ادب کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز جب کہ ’’حیدرآباد دکن‘‘ اس تحریک کا مضبوط محور رہا تو کسی طور بھی کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ 

بلاشبہ حیدر آباد دکن نے اپنی تہذیبی بقا اور نسل کی روشن خیال فکر کے لیے ہمیشہ اہل جبر کے حلق میں اٹک کر علم و دانش کی سطح پر ترقی پسند تحریک اور مارکس ازم کو جلا بخشی اور تمام تر خوشحالی کے باوجود مارکسی سماج بنانے کی جدوجہد میں اپنے خون کے نذرانے دیے۔ 

طاغوت کی سولی کو چوم کر تختہ دار پر چڑھے اور تمامتر ریاستی تشدد سہہ کر بھی سماج کی جمہوری اور سیاسی آزادی کے لیے جان کے نذرانے دیے، جہاں پاکستان میں حسن ناصربندی خانوں کے قہر کا نشانہ بنا تو وہیں ترقی پسند فکرکو عوام کا سیاسی حوالہ بنانے میں مخدوم محی الدین کی عملی اور ادبی جدوجہد آج تک ترقی پسند تحریک کا وہ مضبوط حوالہ ہے جس نے حیدرآباد دکن کے گھرانوں میں سیاسی اور سماجی جوت جلائی اور حیدرآباد دکن کے خطے میں گھر گھر ترقی پسند فکر کے دیپ جلائے، مخدوم نوجوانوں کے تحرک اور ہمتوں کو دوام دینے کے لیے یہی کہتے رہے کہ!

قدم قدم پہ اندھیروں کا سامنا ہے یہاں

سفر کٹھن ہے دم شعلہ ساز ساتھ رہے

یہی نہیں بلکہ پاکستان کے قیام کے بعد ترقی پسند تحریک کو تیز کرنے اور سماج میں روشن خیال سیاسی و سماجی سوچ پیدا کرنے کے لیے مارکسی فکر کے ساتھ طب سے لے کر تعلیم اور عوام کو سماجی منڈلیوں میں جوڑنے کا کام کبھی ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی کبھی ڈاکٹر منظور تو کبھی علامہ اقبال خان تو کبھی مزدور حقوق دلانے کی جدوجہد میں وکیل علی امجد بلا معاوضہ اپنی خدمات دیتے رہے اور سماج میں روشن خیال فکر کے چراغ جلاتے رہے۔ 

انھی سر پھرے دیوانوں میں ڈاکٹر م۔ ر ۔حسان کا پورا گھرانہ بھی تھا، جو فکری طور پر مارکس ازم کے فلسفے کو سماج کی سیاسی اور جمہوری آزادی حاصل کرنے کا ایک مضبوط نکتہ نظر سمجھتا تھا، یہی وہ فکری وجہ رہی کہ فیض احمد فیض نے عبداللہ کالج لیاری کو قائم کرنے کے لیے اپنا دست راز اور ساتھی ڈاکٹر م ر حسان کو چنا اور انتظامی طور پر وائس پرنسپل کی حیثیت سے ڈاکٹر م ر حسان نے لیاری اور قرب و جوار کے طلبہ میں روشن خیالی کے دیپ جلائے جس کے نتیجے میں لیاری اپنی سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ایک شاندار کردار کے طور پر اپنی جدوجہد و روشن خیالی پر آج بھی فاخر ہے.

ڈاکٹر حسان کی مارکسی فکر نے کنبے کی ایسی تربیت کی کہ مزدور حقوق کی تحریک اور عوامی ادبی انجمن کو منظم کرنے میں کہیں فصیح الدین سالار ہر اول دستہ کے طور پر کھڑے ملے تو کہیں ڈاکٹروں کی جدوجہد کو منظم کرنے میں ڈاکٹر محبوب کو اس شہر نے متحرک دیکھا، ان سب کی روشن خیال فکر اور بلا رنگ و نسل و جنس ایسے عمل کو دیکھتے ہوئے بھلا اکلوتی بہن بھائیوں کا ساتھ کیسے چھوڑ سکتی تھی۔

یہی وجہ رہی کہ اقبال سلطانہ نے تحریک میں عملی حصہ لینا چاہا توبھائیوں کے حوصلے نے اقبال سلطانہ کے اعتماد کو مہمیز کیا اور اقبال سلطانہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کا وہ نشان بنی جس کے بغیر انجمن جمہوریت پسند خواتین اور عورت حقوق کی ہر تحریک اقبال سلطانہ کے عزم و حوصلے کے بغیر نا مکمل رہتی تھی۔ 

بیگم داؤدی ہوں یا نسیم اشرف ملک یا بیگم نورانی سب میں عورت حقوق کے لیے فلک شگاف نعرے لگاتی اقبال سلطانہ ہمیشہ صف اول میں ملتی، عورتوں کومنظم کرنے کے لیے سفر کی تکان سے بے پرواہ اور دور دراز دشوار علاقوں میں جانے سے نڈر یہ اقبال سلطانہ ہی تھی جو قریہ قریہ شہر شہر عورت حقوق کی لگن میں بھوک و پیاس سے ماورا کسی بھی مشکل سے ٹکرا جاتی تھی۔ 

اقبال سلطانہ کا یہی حوالہ اور جذبہ ہی تو تھا کہ انجمن جمہوریت پسند خواتین کی قائد بیگم اشرف ملک، ہمیشہ اقبال کے گھر ٹہرنے کو ترجیح دیتی تھیں، یہ وہ کٹھن دور تھا جب عورت کے حقوق کی تحریک کو سماج میں پذیرائی کرنے والا کوئی نہ تھا بلکہ اقبال سلطانہ ایسی چند سر پھری خواتین تھیں جو سماج میں بے باک تصور کرکے تنقید کے نشتر سہتی تھیں۔ 

اس وقت نہ کوئی خواتین حقوق کی منظم آواز تھی اور نہ ہی تنظیم کی مالی مدد کی کوئی سبیل تھی، اقبال سلطانہ اپنے قافلے کے ساتھ مگن خواتین حقوق کے لیے سراپا احتجاج و جدوجہد بنی رہتی تھی، یہ وہ دور تھا کہ نہ آج کل کی خواتین تنظیموں کی طرح بیرونی ڈالر آتے تھے اور نہ ہی اپنی تنظیم کی کار گذاری کوبیرونی فنڈ دینے والوں کا پابند سمجھا جاتا تھا، یہ وہ جمہوری و سیاسی نسل تھی۔

جس نے سب سے پہلے اپنی سیاسی جدوجہد سے ملک میں 8 مارچ کو ’’یوم خواتین‘‘ قرار دلوایا، افسوس کہ آج 8 مارچ کو فنڈز کے سہارے منا کر پھر پورے سال بیٹھ کر فنڈز کا انتظار کیا جاتا ہے،اب نہ خواتین تنظیموں کی کوئی سیاسی سوچ ہے نہ نکتہ نظر اور نہ ہی کام کرنے کا جذبہ اگر ہے تو صرف فنڈز ملنے کی للچائی ہوئی توقع اور امید، اس سیاسی اور نظریاتی بگاڑ کے تناظر میں اگر خواتین حقوق کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو تمام تر وسائل اور فنڈز کے ہوتے ہوئے بھی پہلے سے زیادہ خواتین کی ہراسگی، سماجی بدسلوکی اور خواتین کو کم تر سمجھنے کے رجحان میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے جو انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، اس مقام پر عام خواتین کی سیاسی عدم دلچسپی اور تنظیموں کے سیاسی عمل اور جدوجہد سے لا تعلقی ایک ایسا خطرناک رجحان ہے، جس کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

 اقبال سلطانہ جہاں سیاسی و نظریاتی طور سے متحرک رہیں، وہیں انھوں نے اپنے جیون ساتھی معروف وکیل اختر حسین کے قدم بہ قدم ساتھ دینے سے اپنی گھریلو تہذیب کا سر فخر سے بلند کیا، اختر حسین کی سیاسی جدوجہد میں کنبے کی دیکھ بھال اور کنبے کو ایک لڑی میں پرو کر رکھنے کے کام سے بھی اقبال سلطانہ شعوری طور سے کبھی پیچھے نہ رہیں۔ 

اقبال سلطانہ کی سیاسی نظریاتی اور خواتین حقوق کی جدوجہد پر عملی کام کے ساتھ عملی جدوجہد کی بھی ضرورت ہے وگرنہ ایسا نہ ہو کہ یہ سماج خواتین حقوق کی آواز اٹھانے سے بانجھ کر دیا جائے اور پھر سماج کی سیاسی و شعوری سوچ دفنا کر آیندہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے سیاسی و نظریاتی شعور کے زاویئے وا کریں اور اس سماج کو خواتین دوست سماج میں تبدیل کریں کہ یہی اقبال سلطانہ کا مشن اور مقصد تھا بقول مخدوم محی الدین۔

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خواتین حقوق کی اقبال سلطانہ کی جدوجہد روشن خیال کی سیاسی سیاسی ا فکر کے

پڑھیں:

لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟

وہ تمام لوگ جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں، یقیناً ان کا جواب ہاں میں ہوگا۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال کلبلا سکتا ہے کہ اکلوتے کےلیے ’’سب‘‘ کا لفظ گرامر کے لحاظ سے غلط ہے۔ آگے جو کچھ غلط آنا ہے تو اس کے مقابلے میں اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر آگے چلتے ہیں۔

جو لوگ دو بھائی یا ایک بھائی ایک بہن یا دو بہنیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا جواب ہاں میں اور کچھ کا نہ بھی ہوسکتا ہے مگر وہ لوگ جو تین یا تین سے زائد بھائی یا بہنیں ہیں، یقیناً ان میں سے اکثریت کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔

میں عموماً اپنی تربیتی نشستوں میں شرکا سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ بھائی بہنوں میں والد یا والدہ کا پسندیدہ بچہ کون ہے؟ لوگوں کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عموماً والد کی پسندیدہ اولاد کوئی بہن ہوتی ہے اور والدہ کی پسند کوئی بڑا یا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور جو خود پسندیدہ ہوتے ہیں وہ شرماتے ہوئے اس کا اقرار کرلیتے ہیں۔

والد کی پسند عموماً مستقل ہوتی ہے اور بیٹی کی شادی ہونے کے بعد بھی جو پہلے پسندیدہ ہوتی ہے وہی رہتی ہے لیکن والدہ کی پسند میں تغیر آتا ہے اور یہی ہماری آج کی تحریر کا اصل موضوع ہے۔

والدہ کی پسند عموماً کوئی نہ کوئی بیٹا ہوتا ہے جس کو گھر میں سب سے زیادہ لاڈ پیار ملتا ہے۔ کھانے پینے میں اس کی پسند کا ترجیحی بنیادوں پر خیال رکھا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک تواتر سے جاری رہتا ہے جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی۔ شادی چاہے وہ اپنی پسند سے کرے یا والدہ کی پسند سے، اب وہ اس مقام پر مستقل فائز نہیں رہ سکتا۔ بس یوں سمجھ لیجیے اور میں یہ بات مبالغہ آرائی سے لکھ رہا ہوں کہ پہلے سب گھر والے مل کر اس کےلیے دلہن لاتے ہیں اور پھر سب مل کر یہ چاہتے ہیں کہ بس اب دلہا اور دلہن خوش نہ رہیں۔

شادی سے پہلے والدہ کو بیٹی کی شکل میں ذمے داری نظر آتی ہے اور شادی کے بعد بیٹی میں سہیلی بلکہ بیٹے اور بہو کے خلاف کسی بھی قسم کی محاذ آرائی میں ایک بااعتماد شریک اور ساتھی نظر آتی ہے۔

شادی کے بعد بیٹا اگر گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹائے تو زن مرید اور اگر یہی سب کچھ داماد کرے تو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی میں کیا خوب ہم آہنگی ہے اور اللہ ایسے داماد سب کو دیں۔ مگر خود کے بیٹے پر ایسا داماد بننے کی پابندی تا دم مرگ برقرار رہتی ہے۔

اگر بیٹا معاشی لحاظ سے داماد سے بہتر ہو تو یہ بات بھی وجہ تنازعہ بن جاتی ہے اور اب بیٹے سے یہ امید بلکہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ اپنے بیوی بچوں کےلیے کرے ایسا ہی سب کچھ اپنی بہن اور اس کے بچوں کےلیے بھی کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اماں نہ صرف اس کو ناخلف قرار دیتی ہیں اور حالات اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹی کے گھر چیزیں پہنچانا شروع کردیتی ہیں کہ جس سے گھر کا ماحول کشیدہ ہوتے ہوئے جنگ و جدل کا میدان بن جاتا یے۔ تمام خاندان میں بہو اور اس کے بچوں جو کہ دراصل ان کے اپنے پوتے پوتیاں ہوتے ہیں، کی ایک منفی تصویر بنا کر پیش کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب ڈراموں میں ایسے کردار کھل کر دکھائے جارہے ہیں اور عقیدت اور احترام کو پس پشت ڈال کر حقیقت دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام وصف تھوڑے تھوڑے ہمیں بھی دیے ہیں جیسے محبت کرنا، خوش ہونا، انعام دینا، غصہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں جس وصف کا سب سے زیادہ حساب دینا ہوگا اور جس پر ہماری سب سے زیادہ پکڑ ہوگی، وہ عدل ہوگا۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ہر رشتے میں عدل کریں چاہے اولاد کا ہو یا والدین کا اور اگر اس میں ہم نے ظلم کیا تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوگی۔

والدین بالخصوص والدہ کی اس جانبدارانہ رویے کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے اور بدقسمتی سے بزرگوں کو تنہائی کا کرب سہنا پڑتا ہے جو کہ خود ان کا اپنا بویا ہوا ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ تمام غلطیاں والدین ہی کی ہوتی ہیں، کوئی بھی انتہا پسند یا جانبدارانہ رویہ غلط ہے، چاہے کسی بھی جانب سے ہو۔

آج جب ہر موضوع پر بات ہورہی ہے تو میں نے سوچا کہ اس حساس موضوع پر بھی بات کر لیتے ہیں جو عموماً تمام گھروں کی کہانی ہے لیکن کوئی بھی اس پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو میری یہ تحریر بیٹے یا بہو کی بے جا حمایت محسوس ہوگی لیکن اگر اپنے تمام جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اگر آپ اس پر سوچیں گے اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے تو آپ کو یہ کہانیاں کھلی آنکھوں نظر آنے لگیں گی۔

اس دفعہ آخر میں کوئی کہانی نہیں، بس ایک مضمون کا حوالہ ہے۔ ’’میبل اور میں‘‘ میں پطرس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ مردوں سے ضرور داد چاہیں گے بالکل اسی طرح میں اپنی اس تحریر کے مظلوم طبقے یعنی بہو اور بیٹے سے اپنی حمایت ضرور چاہوں گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
  • عوامی حقوق کی تحریک خالصتاً ایک عوامی اور پرامن جدوجہد ہے، ذیشان حیدر
  • امریکی قدامت پسند سیاسی کارکن چارلی کرک کے قتل کے ملزم پر باضابطہ فردِ جرم عائد
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور اقتصادی ترقی کو مستحکم کرنے کے لئے وزیراعظم یوتھ پروگرام اور موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • کامیابی کا انحصار پالیسی استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے،احسن اقبال