Express News:
2025-11-03@18:11:17 GMT

ترقی پسند خواتین کا بلند اقبال

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

اگر یہ کہا جائے کہ برٹش راج کے سرمایہ دارانہ دور میں برصغیر ترقی پسند فکر اور ترقی پسند ادب کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز جب کہ ’’حیدرآباد دکن‘‘ اس تحریک کا مضبوط محور رہا تو کسی طور بھی کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ 

بلاشبہ حیدر آباد دکن نے اپنی تہذیبی بقا اور نسل کی روشن خیال فکر کے لیے ہمیشہ اہل جبر کے حلق میں اٹک کر علم و دانش کی سطح پر ترقی پسند تحریک اور مارکس ازم کو جلا بخشی اور تمام تر خوشحالی کے باوجود مارکسی سماج بنانے کی جدوجہد میں اپنے خون کے نذرانے دیے۔ 

طاغوت کی سولی کو چوم کر تختہ دار پر چڑھے اور تمامتر ریاستی تشدد سہہ کر بھی سماج کی جمہوری اور سیاسی آزادی کے لیے جان کے نذرانے دیے، جہاں پاکستان میں حسن ناصربندی خانوں کے قہر کا نشانہ بنا تو وہیں ترقی پسند فکرکو عوام کا سیاسی حوالہ بنانے میں مخدوم محی الدین کی عملی اور ادبی جدوجہد آج تک ترقی پسند تحریک کا وہ مضبوط حوالہ ہے جس نے حیدرآباد دکن کے گھرانوں میں سیاسی اور سماجی جوت جلائی اور حیدرآباد دکن کے خطے میں گھر گھر ترقی پسند فکر کے دیپ جلائے، مخدوم نوجوانوں کے تحرک اور ہمتوں کو دوام دینے کے لیے یہی کہتے رہے کہ!

قدم قدم پہ اندھیروں کا سامنا ہے یہاں

سفر کٹھن ہے دم شعلہ ساز ساتھ رہے

یہی نہیں بلکہ پاکستان کے قیام کے بعد ترقی پسند تحریک کو تیز کرنے اور سماج میں روشن خیال سیاسی و سماجی سوچ پیدا کرنے کے لیے مارکسی فکر کے ساتھ طب سے لے کر تعلیم اور عوام کو سماجی منڈلیوں میں جوڑنے کا کام کبھی ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی کبھی ڈاکٹر منظور تو کبھی علامہ اقبال خان تو کبھی مزدور حقوق دلانے کی جدوجہد میں وکیل علی امجد بلا معاوضہ اپنی خدمات دیتے رہے اور سماج میں روشن خیال فکر کے چراغ جلاتے رہے۔ 

انھی سر پھرے دیوانوں میں ڈاکٹر م۔ ر ۔حسان کا پورا گھرانہ بھی تھا، جو فکری طور پر مارکس ازم کے فلسفے کو سماج کی سیاسی اور جمہوری آزادی حاصل کرنے کا ایک مضبوط نکتہ نظر سمجھتا تھا، یہی وہ فکری وجہ رہی کہ فیض احمد فیض نے عبداللہ کالج لیاری کو قائم کرنے کے لیے اپنا دست راز اور ساتھی ڈاکٹر م ر حسان کو چنا اور انتظامی طور پر وائس پرنسپل کی حیثیت سے ڈاکٹر م ر حسان نے لیاری اور قرب و جوار کے طلبہ میں روشن خیالی کے دیپ جلائے جس کے نتیجے میں لیاری اپنی سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ایک شاندار کردار کے طور پر اپنی جدوجہد و روشن خیالی پر آج بھی فاخر ہے.

ڈاکٹر حسان کی مارکسی فکر نے کنبے کی ایسی تربیت کی کہ مزدور حقوق کی تحریک اور عوامی ادبی انجمن کو منظم کرنے میں کہیں فصیح الدین سالار ہر اول دستہ کے طور پر کھڑے ملے تو کہیں ڈاکٹروں کی جدوجہد کو منظم کرنے میں ڈاکٹر محبوب کو اس شہر نے متحرک دیکھا، ان سب کی روشن خیال فکر اور بلا رنگ و نسل و جنس ایسے عمل کو دیکھتے ہوئے بھلا اکلوتی بہن بھائیوں کا ساتھ کیسے چھوڑ سکتی تھی۔

یہی وجہ رہی کہ اقبال سلطانہ نے تحریک میں عملی حصہ لینا چاہا توبھائیوں کے حوصلے نے اقبال سلطانہ کے اعتماد کو مہمیز کیا اور اقبال سلطانہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کا وہ نشان بنی جس کے بغیر انجمن جمہوریت پسند خواتین اور عورت حقوق کی ہر تحریک اقبال سلطانہ کے عزم و حوصلے کے بغیر نا مکمل رہتی تھی۔ 

بیگم داؤدی ہوں یا نسیم اشرف ملک یا بیگم نورانی سب میں عورت حقوق کے لیے فلک شگاف نعرے لگاتی اقبال سلطانہ ہمیشہ صف اول میں ملتی، عورتوں کومنظم کرنے کے لیے سفر کی تکان سے بے پرواہ اور دور دراز دشوار علاقوں میں جانے سے نڈر یہ اقبال سلطانہ ہی تھی جو قریہ قریہ شہر شہر عورت حقوق کی لگن میں بھوک و پیاس سے ماورا کسی بھی مشکل سے ٹکرا جاتی تھی۔ 

اقبال سلطانہ کا یہی حوالہ اور جذبہ ہی تو تھا کہ انجمن جمہوریت پسند خواتین کی قائد بیگم اشرف ملک، ہمیشہ اقبال کے گھر ٹہرنے کو ترجیح دیتی تھیں، یہ وہ کٹھن دور تھا جب عورت کے حقوق کی تحریک کو سماج میں پذیرائی کرنے والا کوئی نہ تھا بلکہ اقبال سلطانہ ایسی چند سر پھری خواتین تھیں جو سماج میں بے باک تصور کرکے تنقید کے نشتر سہتی تھیں۔ 

اس وقت نہ کوئی خواتین حقوق کی منظم آواز تھی اور نہ ہی تنظیم کی مالی مدد کی کوئی سبیل تھی، اقبال سلطانہ اپنے قافلے کے ساتھ مگن خواتین حقوق کے لیے سراپا احتجاج و جدوجہد بنی رہتی تھی، یہ وہ دور تھا کہ نہ آج کل کی خواتین تنظیموں کی طرح بیرونی ڈالر آتے تھے اور نہ ہی اپنی تنظیم کی کار گذاری کوبیرونی فنڈ دینے والوں کا پابند سمجھا جاتا تھا، یہ وہ جمہوری و سیاسی نسل تھی۔

جس نے سب سے پہلے اپنی سیاسی جدوجہد سے ملک میں 8 مارچ کو ’’یوم خواتین‘‘ قرار دلوایا، افسوس کہ آج 8 مارچ کو فنڈز کے سہارے منا کر پھر پورے سال بیٹھ کر فنڈز کا انتظار کیا جاتا ہے،اب نہ خواتین تنظیموں کی کوئی سیاسی سوچ ہے نہ نکتہ نظر اور نہ ہی کام کرنے کا جذبہ اگر ہے تو صرف فنڈز ملنے کی للچائی ہوئی توقع اور امید، اس سیاسی اور نظریاتی بگاڑ کے تناظر میں اگر خواتین حقوق کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو تمام تر وسائل اور فنڈز کے ہوتے ہوئے بھی پہلے سے زیادہ خواتین کی ہراسگی، سماجی بدسلوکی اور خواتین کو کم تر سمجھنے کے رجحان میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے جو انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، اس مقام پر عام خواتین کی سیاسی عدم دلچسپی اور تنظیموں کے سیاسی عمل اور جدوجہد سے لا تعلقی ایک ایسا خطرناک رجحان ہے، جس کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

 اقبال سلطانہ جہاں سیاسی و نظریاتی طور سے متحرک رہیں، وہیں انھوں نے اپنے جیون ساتھی معروف وکیل اختر حسین کے قدم بہ قدم ساتھ دینے سے اپنی گھریلو تہذیب کا سر فخر سے بلند کیا، اختر حسین کی سیاسی جدوجہد میں کنبے کی دیکھ بھال اور کنبے کو ایک لڑی میں پرو کر رکھنے کے کام سے بھی اقبال سلطانہ شعوری طور سے کبھی پیچھے نہ رہیں۔ 

اقبال سلطانہ کی سیاسی نظریاتی اور خواتین حقوق کی جدوجہد پر عملی کام کے ساتھ عملی جدوجہد کی بھی ضرورت ہے وگرنہ ایسا نہ ہو کہ یہ سماج خواتین حقوق کی آواز اٹھانے سے بانجھ کر دیا جائے اور پھر سماج کی سیاسی و شعوری سوچ دفنا کر آیندہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے سیاسی و نظریاتی شعور کے زاویئے وا کریں اور اس سماج کو خواتین دوست سماج میں تبدیل کریں کہ یہی اقبال سلطانہ کا مشن اور مقصد تھا بقول مخدوم محی الدین۔

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خواتین حقوق کی اقبال سلطانہ کی جدوجہد روشن خیال کی سیاسی سیاسی ا فکر کے

پڑھیں:

فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا

فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں اکتوبر کے مہینے میں عسکریت پسندوں کو گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، کیوں کہ سیکیورٹی فورسز نے ملک کے مختلف علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پیش رفت ستمبر میں عسکریت پسندوں کے دبا میں آنے کے بعد سامنے آئی ہے، جب 69 حملے ریکارڈ ہوئے تھے، اور اگست کے مقابلے میں حملوں میں 52 فیصد کمی دیکھی گئی تھی۔

تھنک ٹینک کی آج جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق، اکتوبر میں 355 عسکریت پسند ہلاک ہوئے، 72 سیکیورٹی اہلکار اور 31 عام شہری بھی جاں بحق ہوئے، جن میں بنوں میں امن کمیٹی کا ایک رکن بھی شامل تھا۔مزید برآں، ملک بھر میں 92 سیکیورٹی اہلکار، 48 عام شہری اور 22 عسکریت پسند زخمی ہوئے۔اگرچہ پی آئی سی ایس ایس کے مطابق ستمبر کے 69 حملوں کے مقابلے میں اکتوبر میں عسکریت پسندانہ حملوں میں 29 فیصد اضافہ (89 حملے) ہوا، لیکن ان حملوں میں مجموعی جانی نقصان میں 19 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ماہ عسکریت پسندوں نے 55 افراد کو اغوا کیا، جو پچھلی ایک دہائی میں اغوا کے سب سے زیادہ ماہانہ واقعات ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز نے 22 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں میں 55 سیکیورٹی اہلکار، 29 عام شہری، ایک امن کمیٹی کا رکن اور 24 شدت پسند مارے گئے۔ان حملوں میں 88 سیکیورٹی اہلکار، 45 شہری اور ایک عسکریت پسند زخمی ہوئے۔بلوچستان میں اکتوبر کے دوران 23 عسکریت پسند حملے ہوئے، جو ستمبر کے 21 سے کچھ زیادہ تھے

، تاہم ہلاکتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی، سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات 33 سے گھٹ کر 16 اور شہریوں کی 38 سے کم ہو کر 3 رہ گئیں۔دونوں مہینوں میں 8 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔زخمی ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 37 سے کم ہو کر 15، جب کہ شہریوں کی تعداد 85 سے گھٹ کر 20 رہ گئی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اکتوبر میں عسکریت پسندوں نے 31 افراد اغوا کیے، جن میں زیادہ تر مزدور تھے۔انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے پی آئی سی ایس ایس نے بتایا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے 67 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا، جو 2002 کے بعد سے ایک مہینے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ادارے نے اسے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری قرار دیا، کیوں کہ شہریوں کی ہلاکتوں میں 92 فیصد اور سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں 52 فیصد کمی آئی ہے۔

سابق قبائلی اضلاع میں 22 عسکریت پسند حملے ریکارڈ ہوئے، جو ستمبر کے برابر تھے مگر جانی نقصان میں نمایاں اضافہ ہوا۔ان حملوں میں کل 31 افراد مارے گئے، جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار اور 13 شہری شامل تھے، جبکہ 45 افراد زخمی ہوئے، جن میں 32 سیکیورٹی اہلکار اور 13 شہری تھے۔عسکریت پسندوں نے علاقے سے 18 افراد کو اغوا بھی کیا۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق اس خطے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں 200 فیصد اضافہ ہوا (6 سے بڑھ کر 18)، جب کہ مجموعی ہلاکتوں میں 48 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 209 عسکریت پسند مارے گئے، جو نومبر 2014 کے بعد کسی ایک مہینے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ان کارروائیوں میں 16 سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے،

جن میں اورکزئی ضلع میں پیش آنے والا سب سے خونریز واقعہ شامل ہے، جس کے بعد افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی پیدا ہوئی۔ادارے نے تصدیق کی کہ سیکیورٹی فورسز نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق نائب امیر اور شیڈو وزیرِ دفاع، قاری امجد کو باجوڑ میں ہلاک کیا، جو 2007 میں ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد سب سے ہائی پروفائل ہلاکت ہے۔خیبر پختونخوا میں اکتوبر کے دوران 37 عسکریت پسند حملے ہوئے، جو ستمبر کے 25 حملوں سے زیادہ ہیں، جن میں 48 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 21 سیکیورٹی اہلکار، 10 شہری، 16 عسکریت پسند اور ایک امن کمیٹی رکن شامل ہیں۔

مجموعی طور پر 42 افراد زخمی ہوئے، جن میں 35 سیکیورٹی اہلکار اور 7 شہری شامل تھے، جبکہ 4 افراد کو عسکریت پسندوں نے اغوا کیا۔سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 55 عسکریت پسند مارے گئے، جب کہ ایک اہلکار شہید ہوا۔ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد 88 سے کم ہو کر 55 رہی۔سندھ میں 3 حملوں میں 3 شہری ہلاک اور 7 افراد زخمی ہوئے، جن میں 4 شہری اور 3 سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق، کالعدم زینبیون بریگیڈ کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا، جس کے اہم کمانڈرز سمیت 8 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی امریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان بھارتی خفیہ ایجنسی نے پاکستانی مچھیرے کو پیسوں کا لالچ دیکر اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا، عطا تارڑ ڈی جی این سی سی آئی اے نے ضبط تمام جائیدادوں،گاڑیوں کی تفصیلات مانگ لیں وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد پنجاب میں اب کسی غریب اور کمزور کی زمین پرقبضہ نہیں ہوگا، وزیر اطلاعات پنجاب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پاکستان بحری شعبے میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے، احسن اقبال
  • میری ٹائم شعبے میں ترقی کا سب سے پہلے فائدہ ساحلی آبادیوں کو پہنچنا چاہیے، وفاقی وزیر احسن اقبال
  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • کالعدم علیحدگی پسند جماعت کیلیے کام کرنے کا الزام، اے ٹی سی نے ملزمان کومقدمے سے ڈسچارج کردیا
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • صحافیوں پر حملے سماج کے ضمیر پر وار ہیں: مراد علی شاہ
  • فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
  • گورنر خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات،‘متحد ہو کر صوبے کو پرامن بنائیں گے’
  • خواتین کے سرطان کے 40 فیصد کیسز چھاتی کے سرطان پر مشتمل ہیں