سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کامعاملہ، جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کل طلب
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کا معاملہ زیر غور ہے اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت کل منعقد ہوگا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں تقرریوں کا عمل کئی مہینوں سے متنازعہ بنا ہوا ہے کیونکہ ججز کی سنیارٹی کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے بلایا گیا اجلاس سپریم کورٹ کے کانفرس روم میں دن 2 بجے ہوگا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پاکستان کی پانچوں ہائیکورٹس لاہور، کراچی، پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ کے سینئر ججز کے نام طلب کر لیے ہیں۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوگا کہ آیا یہ تقرریاں فوری کی جائیں گی یا مزید مشاورت درکار ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ تنازع تب شروع ہوا جب سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا، جس میں ججز کی تعیناتی کے عمل کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں ججز کا مؤقف تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے کیس میں ممکنہ طور پر فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے اور اگر نئے ججز شامل ہو جاتے ہیں تو فل کورٹ کے تعین میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ججز کی جانب سے لکھے گئےخط میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز کے تبادلے کے بعد انہیں آئینی طور پر دوبارہ حلف اٹھانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہواجس سے ان کی جج کی حیثیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آٹھ ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سینیٹر علی ظفر نے کل کا اجلاس مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی جس میں انھوں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس یحییٰ خان آفریدی کو خط لکھا، خط میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی سنیارٹی تنازع کا حوالہ دیا۔
جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس یحییٰ خان آفریدی کو لکھے گئے خط میں سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ سنیارٹی تنازع حل ہونے تک اجلاس مؤخر کیا جائے، سپریم کورٹ کے چار ججز بھی اجلاس مؤخر کرنے کی درخواست کر چکے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ ا ف پاکستان میں ججز کی تعیناتی اسلام ا باد جسٹس یحیی چیف جسٹس کورٹ کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے، ملک معتصم خان
جماعت اسلامی کے نائب امیر نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے 2006ء کے 7/11 ممبئی ٹرین دھماکوں کے مقدمے میں تمام 12 ملزمان کو بری کئے جانے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے مہاراشٹر حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے جس کے تحت وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ 21 جولائی 2025ء کو سنایا گیا جس میں 2015ء کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا اور عدالت کی طرف سے تفتیش میں سنگین کوتاہیوں اور ناقص شواہد کی بنیاد پر شدید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ ہمارے فوجداری نظام انصاف پر سنجیدہ غوروفکر کے متقاضی ہیں۔
میڈیا کو دئے گئے اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ ہم 7/11 ممبئی دھماکوں کے مقدمے میں 12 بے گناہ افراد کو بری کرنے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک جیل میں ظلم و جبر کا سامنا کیا۔ عدالت کے ریمارکس نے واضح کر دیا ہے کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اور جو شواہد عدالت میں پیش کئے گئے وہ ناقابل اعتبار تھے۔ کورٹ کے مطابق مہاراشٹر اے ٹی ایس بم دھماکوں میں استعمال ہونے والے بارود کی قسم تک معلوم نہ کر سکی اور مشکوک گواہیوں اور غلط طریقے سے جمع کئے گئے شواہد پر انحصار کیا۔ یہ صرف اے ٹی ایس کی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام انصاف کی ناکامی ہے جس نے ملزمان اور ان کے خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ملک معتصم خان نے اس شدید ناانصافی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد 19 سال جیل میں رہے جہاں ان پر تشدد ہوا اور انہیں نفسیاتی طور پر ہراساں کیا گیا، خود عدالت نے بھی ان باتوں کا مشاہدہ کیا ہے، بے قصور افراد کے خاندان بدنامی کا شکار ہوئے اوران کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ انہون نے کہا کہ اب بجائے اس کے کہ حکومت ان مظلوموں کو انصاف دے اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرے وہ سپریم کورٹ میں اپیل کر کے ایک ناقص اور بلاجواز فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے اصل مسئلہ پس پشت چلا جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 7/11 بم دھماکوں کے اصل مجرم اب بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان دھماکوں میں 189 افراد جاں بحق اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کے ساتھ انصاف کرے۔ ان دھماکوں میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کو انصاف اور سکون چاہیئے جو 19 سال بعد بھی میسر نہیں آسکا ہے۔ ہائی کورٹ کے 671 صفحات پر مشتمل فیصلے نے استغاثہ کی مکمل ناکامی کو ظاہر کر دیا ہے۔ اس کے بعد اب یہ سوال بدستور قائم ہے کہ اس خوفناک جرم کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنا وقت اور وسائل سپریم کورٹ میں اپیل کرکے ضائع نہ کرے بلکہ دھماکوں کی ازسرنو اور سنجیدہ تفتیش کرے تاکہ اصل مجرموں کو گرفتار کیا جا سکے۔ یہی قانون کی بالادستی اور عوام کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ملک معتصم خان نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔