پرنس کریم آغا چہارم مصر کے شہر اسوان میں سپرد خاک ،وزیرخزانہ اورنگزیب سمیت 300 سے زیادہ شخصیات کی شرکت
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسماعیلی برادری کے 49 ویں روحانی پیشوا پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کو اتوار کے روز مصر کے شہر اسوان میں ایک خصوصی تقریب کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔
اسماعیلی کمیونٹی کے ایک بیان میں مرحوم پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کی تدفین ان کے دادا مولانا سلطان محمد شاہ کے مزار کے احاطے میں کرنے کااعلان کیاگیاتھا۔ بعد ازاں اس مزار کے ساتھ ملحقہ اراضی پر مرحوم پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کی آخری آرام گاہ کے طور پر مقبرہ بنایا جائے گا۔
پرنس کریم آغا خان 88 سال کی عمر میں بدھ کے روز لزبن میں انتقال کر گئے تھے۔ شہزادہ رحیم الحسینی آغا خان پنجم ، ان کے مرحوم والد پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کی وصیت پڑھنے کے بعد اسماعیلی برادری کے 50 ویں روحانی پیشوا نامزد کئے گئے۔
ہفتہ کے روز پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کی آخری رسومات لزبن کے اسماعیلی سینٹر میں ادا کی گئیں۔
تقریب میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، پرتگال کے صدر مارسیلو ریبیلو ڈی سوزا، سابق ہسپانوی بادشاہ خوان کارلوس اول اور پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سمیت 300 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی۔
دیگر شرکاء میں اسماعیلی برادری کے رہنما، اہل خانہ، آغا خان یونیورسٹی کے صدر سلیمان شہاب الدین اور حبیب بینک لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سلطان علی الانہ شامل تھے۔
تجہیز و تکفین ایک خصوصی تقریب میں ہوئی جس میں صرف مدعو مہمانوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر قومی کونسل کے 22 صدور بھی موجود تھے جو پاکستان سمیت عالمی اسماعیلی برادری کی نمائندگی کرتے تھے۔
تقریب کو اسماعیلی ٹی وی پر براہ راست نشر کیا گیا جس سے دنیا بھر کے پیروکاروں کو شرکت کا موقع ملا۔ اس تقریب کو دیکھنے اور مرحوم پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کمیونٹی سینٹر اور جماعت خانوں میں انتظامات کیے گئے تھے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسماعیلی برادری
پڑھیں:
غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اعلامیہ
استنبول (ویب دیسک )غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اجلاس کا اعلامیہ
غزہ کی تازہ صورتِ حال پر استنبول میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد 7 مسلم ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا۔
اعلامیہ میں زور دیا گیا ہے کہ غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے، اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے اور انسانی امداد کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور قومی نمائندگی کو تسلیم کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔
شریک ممالک نے اس مؤقف پر اتفاق کیا کہ بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام پر غور کیا جائے گا تاکہ جنگ بندی کی نگرانی اور انسانی امداد کی فراہمی مؤثر بنائی جا سکے۔
اعلامیے کی نمایاں شقیں
1. غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کرنے پر مکمل اتفاق۔
اجلاس میں شریک تمام ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کا سیاسی و انتظامی نظم کسی بیرونی قوت کے بجائے مقامی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہونا چاہیے۔
2. جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر تشویش۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی حملے جاری ہیں جن میں اب تک تقریباً 250 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
3. انسانی امداد کی فراہمی کی فوری ضرورت۔
شریک ممالک نے مطالبہ کیا کہ کم از کم 600 امدادی ٹرک اور 50 ایندھن بردار گاڑیاں غزہ میں بلا تعطل داخل کی جائیں۔
4. بین الاقوامی استحکام فورس پر مشاورت۔
اعلامیے میں تجویز دی گئی کہ غزہ میں ایک غیرجانب دار فورس تشکیل دی جائے جو امن کی نگرانی اور انسانی امداد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
5. فلسطینی انتظامیہ کی اصلاحی کوششوں کی حمایت۔
شریک ممالک نے فلسطینی قیادت کے اصلاحی اقدامات اور عرب لیگ و اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے منصوبوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
یہ اہم اجلاس ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فیدان کی میزبانی میں استنبول کے ایک معروف ہوٹل میں منعقد ہوا، جس میں انڈونیشیا، پاکستان، سعودی عرب، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ یا نمائندوں نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران جنگ بندی کی تازہ صورتِ حال، انسانی بحران، اور آئندہ سفارتی اقدامات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ترکیہ کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اعلانِ جنگ بندی کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں تقریباً 250 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ ہم امن کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں، مگر اسرائیل کی جارحانہ کارروائیاں عالمی ضمیر کے لیے چیلنج ہیں۔
فیدان نے کہا کہ ترکیہ نے اپنے تمام علاقائی شراکت داروں سے رابطے بڑھا دیے ہیں تاکہ جنگ بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کیا جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر انسانی امداد کی راہیں نہ کھلیں تو غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔