Nai Baat:
2025-07-27@00:32:14 GMT

بے سکونی کی جڑ کہاں ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

بے سکونی کی جڑ کہاں ہے

انسان کی فطرت میں کئی جذبات پوشیدہ ہیں، جن میں سے بعض مثبت اور بعض منفی ہوتے ہیں، انہی میں سے ایک منفی جذبہ حسد ہے جو انسان کے سکون کو تباہ کر نے کے ساتھ معاشرے میں نفرت اور دشمنی کو فروغ دیتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ حسد نے نہ صرف خاندانوں کو توڑا بلکہ سلطنتوں کو بھی برباد کیا۔ یہ ایک نفسیاتی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے دل میں جلن اور نفرت پیدا کرتی ہے۔ حسد کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر نا راضی اور دوسروں کی کامیابی پر نا خوش ہونا ہے، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں حسد کو سخت نا پسند کیا گیا ہے اور اسے نیکیوں کے زیاں کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’تم حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے‘۔ قرآن کریم میں بھی حسد کے نقصانات کو واضح کرتے ہوئے اس سے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ تاریخِ اسلام میں حسد کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حسد اور کینہ نا صرف فرد بلکہ پوری کی پوری قوموں اور معاشروں کے زوال کا سبب بنتا ہے حسد ہی نے عزازیل کو ابلیس بنایا اور پھر اس پر بس نہیں کی، بلکہ آدم ؑ سے حسد کے باعث ان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسوا کرنے کی خاطر انہیں دانہِ گندم کھانے پر اکسانے کا عمل بھی اسی حسد کا نتیجہ تھا۔ انسانوں سے اسی حسد کے باعث ابلیس قیامت تک کوشاں رہے گا کہ انسانوں کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر اس مقام سے گرا دے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘۔ تو گویا حسد ان اولین گناہوں میں سرفہرست تھا جن پر گناہوں کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سلسلہ پھر تھما نہیں، اسی حسد کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کے ساتھ خونی رشتے کا لحاظ نہیں کیا اور اپنے سگے بھائی کو ہی قتل کر ڈالا۔ اس کے علاوہ برادرانِ یوسف ؑ کا حسد، قریش کا نبی کریم ؐ سے حسد، ابو جہل کا نبی کریم سے حسد، ابو لہب اور امِ جمیل کا حسد، مدینہ کے یہودی علماء کا نبی کریمﷺ سے حسد، خوارج کا حضرت علی ؓ سے حسد، یزید کا حضرت امام حسینؓ سے حسد، فرعون کا موسیٰ ؑ سے حسد۔ حسد اور جادو انسانی معاشرے میں پائی جانے والی دو انتہائی مہلک برائیاں ہیں جو فرد اور سماج دونوں کو ہی تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو انسان کو خوشحال اور ترقی کرتا دیکھ کر بے چین کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس بے قراری میں غیر شرعی اور گناہ آلود راستوں کا انتخاب کر لیتے ہیں وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی ان سے آگے نکل گیا، کسی کے پاس دولت، عزت اور شہرت کیسے آ گئی۔ یہی جلن انہیں منفی راستوں پر لے جاتی ہے اور پھر وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کالے جادو جیسے شیطانی ہتھیاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ کالا جادو اور حسد انسانی زندگی کے دو ایسے زہر ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے، مگر آہستہ آہستہ زندگی کوتباہ کر دیتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے۔ حسد نفسیاتی امراض میں سے ایک مرض ہے اور ایسا غالب مرض ہے جو انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے اور حاسد اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتا رہتا ہے، اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے، دل کا سکون ختم ہو جاتا ہے، بے چینی، ڈپریشن، بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر
جس دل میں کینہ ہے، وہی برباد ہوا
نفرتوں میں جل کر کوئی نہ آباد ہوا
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں حسد کرنے والے کا دل جب دنیا کی ظلمت میں گھِر کر خطرات ِ شیطانی اور ہوائے نفسانی کی آماجگاہ بن چکا ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہ ِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمراہ ہو کر حرص و حسد اور کبر سے بھر جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو انسان کے دل و دماغ کو اتنا اندھا کر دیتا ہے کہ پھر وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ حسد ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو آغازِ کائنات سے چلی آ رہی ہے اور ایمان کے ساتھ ساتھ بندے کے جسم کو بھی نا محسوس طریقے سے کھا جاتی ہے، لیکن انسان اس سے نا واقف ہی رہتا ہے اور اس میں مبتلا ہو کر جہاں کبھی کبھار دوسروں کا نقصان کرتا ہے وہاں اپنا نقصان لازمی کر بیٹھتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’دوسروں کے مال و دولت کی طرف نا دیکھو بلکہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو، تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کر سکو‘۔ انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند و برتر رہنا چاہتا ہے، وہ اپنی نا کامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کی خوشحالی سے نفرت کرنے لگتا ہے اور انتقام کی خاطر ایسے راستوں کا انتخاب کرتا ہے جو اسے مزید گمراہی میں مبتلا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے، لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ اگر یہ چیز اس کو حاصل نہیں ہے تو پھر یہ نعمت اس دوسرے انسان سے بھی چھن جائے۔ حسد کی سب سے بڑی جڑ انسان کا اس دنیائے فانی کی محبت میں مبتلا ہونا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو اندیشہ تھا کہ امتِ مسلمہ حسد کی لعنت میں مبتلا ہو جائے گی۔چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی، صحابہؓ نے پوچھا پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا، غرور، تکبر، کثرتِ حرص دنیا میں محو ہونا، ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہو گی اور پھر قتل بہت زیادہ ہو گا۔ درحقیقت حسد ایک ایسی بے مقصد جنگ ہے جس میں جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی، مگر نقصان سب کا ہی ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: میں مبتلا ہو ہے جو انسان اللہ تعالی دیتا ہے جاتا ہے جاتی ہے ہے جو ا ہے اور حسد کی

پڑھیں:

نام ماں کا بھی

میں نے جب پہلی بار سنا کہ پاکستان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر ماں کا نام بھی درج کیا جائے گا تو میرے دل میں ایک پرانا دکھ سا جاگا جیسے صدیوں پرانی کسی خاموش ’’آہ‘‘ کو زبان ملی ہو۔ برسوں سے ہم ایک ایسی شناخت کے قیدی ہیں جو صرف ولدیت کے سہارے مکمل مانی جاتی ہے۔ ماں کی آغوش جو سب سے پہلی پہچان ہے، وہ قانونی کاغذات پر کبھی غیر ضروری ،کبھی غیر واضح اورکبھی مکمل طور پر غائب سمجھی گئی۔

کتنی ہی عورتیں جو اکیلی ماں ہیں، جنھوں نے بچوں کو تن تنہا پالا ،سماج کی سرد ہواؤں میں جگر کے ٹکڑوں کو اپنے لہو سے سینچا، وہ ماؤں کی فہرست میں نہ آ سکیں کیونکہ ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے تھے جہاں باپ کے نام کے بغیر شناخت ادھوری سمجھی جاتی تھی اور اب جب ریاست نے ماں کو اس کاغذ پر جگہ دی ہے تو یہ محض ایک خانہ پُری نہیں، یہ ایک اعلان ہے کہ عورت بھی وجود رکھتی ہے اور اس کی گود سے جنم لینے والا بچہ صرف باپ کے نام سے نہیں پہچانا جائے گا۔

میں نے نادرا کی بنیادیں رکھتے وقت ریاست کو صرف ایک بیورو کریٹک ڈھانچہ نہیں سمجھا تھا۔ میں نے اسے ایک امکان کی شکل میں دیکھا تھا، ایک ایسا امکان جو اس ملک میں انصاف، مساوات اور شفافیت لا سکے لیکن افسوس کہ اب تک یہ امکانات صرف طاقتورکے مفاد میں بروئے کار لائے گئے۔نادرا کے پاس آج ہر فرد کی انگلیوں کے نشان چہرے کی پہچان، پتے بینک تفصیل یہاں تک کہ موبائل فون کی لوکیشنز تک موجود ہیں۔

یہ ساری معلومات اگر چاہے تو ریاست ایک دن میں بتا سکتی ہے کہ کون واقعی مستحق ہے اورکون اس ملک کی دولت پر قابض ہے، لیکن یہ سوال پوچھنے کی جرات کس میں ہے؟ اور اگر پوچھ بھی لیا جائے تو سننے والے کان کہاں ہیں؟ہم نے ٹیکس کا نظام بھی نادرا سے باندھ دیا، ووٹنگ کا بھی سبسڈی کی سہولتیں بھی لیکن آج بھی ایک مزدور اگر دہاڑی پرکام کرے تو اس کا ڈیٹا تو درج ہو جاتا ہے مگر وہ انصاف کے کاغذ پر درج نہیں ہوتا۔ دوسری طرف وہ سرمایہ دار، جس کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں، وہ پارلیمنٹ میں بیٹھا قانون سازی کرتا ہے۔

نادرا اگر واقعی اتنی بااختیار ہے تو پھر غربت کیوں اب تک برقرار ہے؟ اگر سب کچھ رجسٹرڈ ہے تو زکوٰۃ، بیت المال اور احساس پروگراموں کی رقوم میں خرد برد کیوں؟ اگر ہر بچے کی شناخت موجود ہے تو اسکولوں کی یہ حالتِ زارکیوں؟ اگر ہر مریض کا ڈیٹا موجود ہے تو اسپتالوں میں دوا کیوں نہیں؟ اگر ہر بزرگ کا ریکارڈ موجود ہے تو پنشن اور بزرگ بینیفٹس کے لیے گھنٹوں کی قطارکیوں؟اور یہاں ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے، اگر آپ کو معلوم ہے کہ کون کہاں ہے، کس کے کتنے ذرایع آمدن ہیں تو پھر زمین پر رہنے والے کسی ایک شخص کے لیے بھی انصاف کی راہیں کیوں دشوار ہیں؟

ڈیجیٹل پاکستان کا خواب اگر صرف سہولت کارڈ، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ تک محدود ہے تو یہ خواب ادھورا ہے۔ اصل خواب تب مکمل ہو گا جب ماں کا نام صرف ایک خانے میں نہیں بلکہ ہر قانون میں، ہر پالیسی میں ہر فیصلے میں، موجود ہوگا۔میں جانتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن آئے گا جب نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود ایک مزدور عورت کا نام اس کے بچے کے شناختی کارڈ میں فخر سے لکھا جائے گا جب کوئی یتیم بچہ ریاست کے نظام سے محروم نہیں ہوگا جب ایک ماں اپنے شوہرکے نام کے بغیر بھی فخر سے کہہ سکے گی کہ یہ بچہ میرا ہے اور ریاست اس کی گواہی دے گی۔

ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے عورت کو کبھی مکمل انسان تسلیم نہیں کیا۔ ماں کو تقدس دیا لیکن وہ تقدس ہمیشہ ایک خانہ نشینی تک محدود رہا۔ جب ماں نے آواز اٹھائی، سوال کیا، نوکری کی، ووٹ مانگا یا اپنا نام بچے کی پہچان میں شامل کرنے کی بات کی تو سماج نے اسے خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔مگر اب وقت آ گیا ہے کہ خاموشی کو توڑا جائے۔ یہ جو ماں کا نام شناختی کارڈ پر درج ہو رہا ہے، یہ صرف ایک خانہ نہیں ،یہ ایک بغاوت ہے، ایک پدرانہ سماج کے خلاف جو ماں کو صرف قربانی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر پہچان کا درجہ دینے سے ڈرتا تھا۔

میری آنکھوں میں بے شمار عورتوں کے چہرے گھوم رہے ہیں، وہ سنگل مدرز جو طلاق یا بیوگی کے بعد بچوں کی تعلیم علاج اور سفر کے لیے شناختی دستاویزات کی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرتی رہیں۔ اب جب ان کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے تو ہمیں امید ہے کہ یہ روشنی صرف چند خانوں تک محدود نہیں رہے گی، یہ روشنی قانون معاشرت اور سوچ تک پھیلے گی۔

لیکن میں ایک اور پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ڈیجیٹل دنیا میں شناخت معلومات اور نگرانی تین بڑے ستون ہیں، اگر ریاست کے پاس ہماری ہر حرکت کا ریکارڈ ہے تو پھر ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا ہوگا کہ کیا وہ اس طاقت کو انصاف کے لیے استعمال کرے گی یا جبر کے لیے؟ کیا نادرا کا ڈیٹا صرف سیکیورٹی کے نام پر استعمال ہوگا یا سماجی بہتری کے لیے؟

یہ نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کہ آج دنیا بھر میں سب سے قیمتی ڈیٹا ہے۔ جس کے پاس ڈیٹا ہے، اس کے پاس اختیار ہے، اگر پاکستان میں یہ اختیار صرف حکمران طبقے کے ہاتھ میں رہے تو پھر یہ شناختی کارڈ بھی ایک اور ہتھیار بن جائے گا، لیکن اگر یہ اختیار عام لوگوں، عورتوں، اقلیتوں، معذوروں اور غریبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال ہو تو پھر یہی شناختی کارڈ انصاف کی کلید بنے گا۔

میں اپنے قارئین سے اپنے دوستوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ شناخت کا مطلب صرف نام یا نمبر نہیں ہوتا، شناخت ایک عہد ہے، ایک وعدہ کہ آپ اس زمین کے باسی ہیں اور آپ کو برابری عزت اور انصاف حاصل ہے۔یہ جو ماں کا نام آیا ہے، یہ ایک آغاز ہے لیکن اختتام نہیں، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ، شناخت کو وقار سے جوڑنا ہوگا اور ریاست کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اس کا کام صرف ڈیٹا جمع کرنا نہیں بلکہ اس ڈیٹا کو انسانوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ورنہ پھر کسی نئے کالم میں یہ لکھنا پڑے گا کہ ماں کا نام تو آ گیا لیکن ماں اب بھی کہیں نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 2025، انسان اور خلائی مخلوق کے ملاپ کا سال، بابا ونگا کی پیشگوئی
  • نام ماں کا بھی
  • یہ غلط ہو رہا ہے
  • میری بیوی ڈاکٹر مشعل حافظہ تھیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُسے دینی و دنیاوی ہر لحاظ سے نوازا ہوا تھا، ڈاکٹر سعد اسلام
  • ججز بھی انسان، دیکھ بھال کی ضرورت، ایماندار جوڈیشل افسر کیساتھ کھڑا ہوں: چیف جسٹس
  • ویسٹ انڈیز میں دنیا کا سب سے چھوٹا انوکھا سانپ 20 برس بعد دوبارہ دریافت
  • کراچی میں منشیات کا دھندا زوروں پر، مگر یہ آتی کہاں سے ہے؟
  • کھیلایشیا کپ 2025 کا آغاز کب سے ہوگا اور میچز کہاں ہوں گے؟ تجاویز سامنے آگئیں
  • دوسروں کے اے سی اتارنے والا سہولیات نہ ملنے کا پروپیگنڈا کررہا :عظمیٰ بخاری
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ !