UrduPoint:
2025-07-26@00:49:41 GMT

ترکی: پراسیکیوٹر کی کہانی شائع کرنے پر صحافیوں کی گرفتاریاں

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

ترکی: پراسیکیوٹر کی کہانی شائع کرنے پر صحافیوں کی گرفتاریاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) ترکی میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایک معروف اخبار بیر جون نے اتوار کے روز حکام پر پریس کے خلاف دباؤ ڈالنے اور دھمکانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کے تین صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

اخبار کے ایڈیٹر انچیف ابراہیم ورلی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ صحافی اوگور کوک، برکات گلٹیکن اور ان کے مینیجنگ ایڈیٹر یاسر گوکدیمیر کو ہفتے کی رات گئے ان کے گھروں سے اٹھا لیا گیا۔

جرمنی نے 'آزادی صحافت' کے تنازع پر ترک سفیر کو طلب کرلیا

بیر جون کے مطابق استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے بارے میں ایک اسٹوری شائع کرنے پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت تینوں صحافیوں کو کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا۔

(جاری ہے)

جس رپورٹ کی وجہ سے صحافیوں کو حراست میں لیا گیا، وہ حکومت کے حامی میڈیا ادارے صباح کے ایک صحافی کے حوالے سے تھی، جنہوں نے چیف پراسیکیوٹر اکن گورلیک سے ملاقات بھی کی تھی۔

خود صباح نے بھی اسی طرح کی ایک رپورٹ کی اطلاع بھی دی تھی۔

’دہشت گردوں کی مدد‘: ترکی میں چودہ صحافیوں کو سزائے قید

ترکی میں انسداد دہشت گردی کا قانون ان لوگوں کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جنہوں نے انسداد دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو "نشانہ" بنایا ہو۔

حراستیں 'ناقابل قبول' ہیں، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز

ترک حکام نے صحافیوں کو اتوار کے روز استنبول کی ایک عدالت میں پیش کیا، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا اور انہیں باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا۔

دو ہزار سولہ میں صحافیوں کی ہلاکتیں کم لیکن شدید خطرات باقی

میڈیا پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) اور ترکی میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

آر ایس ایف کے ایرول اونڈروگلو نے ایکس پر لکھا، "پراسیکیوٹر کی غیر جانبداری پر تنقید کرنے والی ایک خبر پر یہ کارروائی بلاجواز ہے۔

" ادارے نے کہا کہ اس طرح کی حراستیں "ناقابل قبول" ہیں۔

انقرہ حکومت نے ڈی ڈبلیو کا ویڈیو مواد ضبط کر لیا

صحافیوں کی گرفتاریوں میں اضافہ

حالیہ مہینوں میں استنبول کے اعلیٰ پراسیکیوٹر اکین گرلیک کے بارے میں مضامین لکھنے یا تبصر کرنے جیسے اسی طرح کے الزامات کے تحت کئی افراد کے خلاف قانونی تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔

حزب اختلاف کے رہنما اوزگور اوزیل نے اس حوالے سے کہا کہ صحافیوں کی حراست "ایک بے مثال رسوائی" ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ "اس طرح کے واقعات کے حوالے سے جرم گھڑنے کی کوشش کرنا ایک جرم کی علامت ہے۔"

ترکی میں آزادیٴ صحافت پر حملے اور یورپی یونین پر بڑھتا دباؤ

اوزیل کو بھی اسی طرح کے الزامات کے تحت نشانہ بنایا جا چکا ہے، جن پر نومبر میں "ایک سرکاری اہلکار کی توہین" اور "انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ملوث افراد کو نشانہ بنانے" کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر آکن گورلیک کے بارے میں بعض تبصرے کیے تھے۔

سنسر شپ کی شکار ترک صحافت ہانپتی ہوئی

ترکی میں ایم ایل ایس اے میڈیا رائٹس گروپ کا کہنا ہے کہ ملک میں کم از کم تیس صحافی اور میڈیا کارکن جیل میں ہیں، جبکہ چار گھروں میں نظر بند ہیں۔

تنظیم نے گزشتہ برس کہا تھا کہ اس نے آزادی اظہار سے متعلق 281 مقدمات کی نگرانی کی، جس میں اہک ہزار آٹھ سو چھپن مدعا علیہان شامل تھے اور اس میں سے تین سو چھیاسٹھ صحافی تھے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی ڈبلیو ذرائع)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے صحافیوں کو صحافیوں کی ترکی میں کی میں

پڑھیں:

’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا

اداکارہ و ٹی وی میزبان ندا یاسر ایک بار پھر اپنے مارننگ شو میں ملازمہ کی چوری کی کہانی سناتے ہوئے تنقید کا نشانہ بن گئیں۔

حال ہی میں ندا یاسر نے اپنے مارننگ شو میں اپنے گھر میں پیش آنے والے چوری کے واقعے کی تفصیلات بتائیں، ان کا کہنا تھا کہ جب میرے بچے چھوٹے تھے اور میں کوئی کام بھی نہیں کر رہی تھی تو بچوں کو اسکول لے کر جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میری ایک دوست نے اپنے گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کی بیٹی کو میرے گھر پر کام کے لیے رکھوا دیا۔ اس وقت میرے بچے پلے گروپ میں تھے اور مجھے اسکول کے باہر دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا تھا اور اس دوران گھر پر ان کی ملازمہ اکیلی ہوتی تھی۔

 ایک دن میری دوست نے کہا کہ میرے بچوں کا اسکول تمہارے گھر کے قریب ہے اور ملازمہ اسکول میں اکیلی بیٹھی رہتی ہے، اگر اجازت ہو تو وہ تمہارے گھر آکر اپنی بیٹی (ملازمہ) کے پاس وہ وقت گزار سکتی ہے جب تک بچوں کے اسکول کی چھٹی نہیں ہو جاتی تو میں نے اجازت دے دی۔

میزبان کے مطابق جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ اسکول جاتیں تو گھر میں صرف ملازمہ اور اس کی ماں موجود ہوتی تھیں اور پورا گھر ان کے حوالے ہوتا۔ اس دوران وہ دونوں گھر سے قیمتی سامان چوری کرتی رہیں اور جب تک وہ ملازمہ ان کے گھر میں کام کرتی رہی، گھر سے خاصا سامان چوری ہوتا رہا جن میں کپڑے اور جیکٹس بھی شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا ڈرامہ ’جنت سے آگے‘ کی کہانی ندا یاسر کی ہے؟

ندا یاسر نے مزید کہا کہ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملازمہ پر اندھا بھروسہ کیا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی سہیلی کو انکار بھی کر سکتی تھیں۔ اور اس وقت سمجھ آیا کہ آپ کو انکار آنا چاہیے۔ اب اگر میرے گھر کوئی کام کرتا ہے تو ملازمین کے گھر والوں کو اس وقت آنا منع ہے جب میں گھر پر نہ ہوں۔

سوشل میڈیا صارفین ندا یاسر کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئے ایک صارف نے کہا کہ ایک شو ندا صرف اکیلے کریں اور ہمیں بتائیں کے کتنی دفعہ ان کے گھر چوری ہوئی ہے۔ صارف نے کہا کہ ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے کہ ان کے گھر کیسے چوری ہوئی۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے بدا یاسر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ندا باجی کے گھر جتنی چوریاں ہوئی ہیں پورے کراچی میں نہیں ہوئیں۔ ثبور نامی صارف نے کہا کہ ندا یاسر کی باتیں سننے کے بعد سارے ملازمین کو گھر سے نکال کر خود جھاڑو پکڑ لینا چاہیے۔ جبکہ ایک صارف نے طنزاً کہا کہ ’ندا یاسر اور ان کے ملازموں کے کیوٹ قصے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ندا یاسر کو بیرون ملک جا کر لپ اسٹک لگانا مہنگا پڑ گیا، سوشل میڈیا صارفین کی کڑی تنقید

واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی ندا یاسر نے بتایا کہ جب ان کے بیٹے بالاج کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے ایک فلپائنی ملازمہ کو نوکری پر رکھا تاکہ گھر کے کاموں میں مدد مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اعتماد کا غلط فائدہ اٹھایا گیا، وہ ملازمہ موبائل فونز اور باہر سے خریدی گئی اشیا چوری کرتی رہی۔ ایک دن انہیں شک ہوا کہ ان کے پرس سے یوروز غائب ہوئے ہیں۔ یہی سے شک ہوا کہ ملازمہ چور ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ندا یاسر ندا یاسر چوریاں ندا یاسر ملازمہ

متعلقہ مضامین

  • غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی دعوت
  • غزہ پر یہودی حملوں کی شدت چھپانے کیلئے میڈیا پر پابندی(134 مسلمان شہید)
  • دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہیں، طلال چودھری
  • پاکستان کا سوشل میڈیا کمپنیوں سے ڈیٹا شیئرنگ اور دہشت گردوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ
  • سوشل میڈیا کمپنیوں کو اے آئی کے ذریعے دہشت زدہ مواد فوراً ہٹانا ہوگا، طلال چوہدری
  • ثناء یوسف قتل کیس: پولیس چالان میں عمر حیات قاتل قرار
  • سمی خان نے علیزہ شاہ اور منسا ملک کے جھگڑے کی اصل کہانی بتا دی
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا
  • سعودی شہزادہ عبدالرحمان بن عبداللہ کی والدہ انتقال کر گئیں
  • لندن ہائیکورٹ میں بیان: آئی ایس آئی کا اغوا، تشدد یا صحافیوں کو ہراساں کرنے سے کوئی تعلق نہیں، بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر