حارث رؤف سہ فریقی سیریز سے باہر، کیا چیمپیئنز ٹرافی کھیل پائیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
قومی کرکٹ ٹیم کے تیز رفتار بولر حارث رؤف زخمی ہونے کے باعث پاکستان میں جاری سہ فریقی سیریز کے بقیہ میچز نہیں کھیل پائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سہ ملکی سیریز: کراچی میں میچز کے دوران جامع سیکیورٹی پلان مرتب کرلیا گیا
یاد رہے کہ 8 فروری کو سہ فریقی سیریز کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف بولنگ کرواتے ہوئے حارث رؤف انجری کا شکار ہو کر اوور مکمل کروائے بغیر کھیل سے باہر ہوگئے تھے۔
ان کی جگہ اب عاکف جاوید کو سہ فریقی سیریز کے لیے قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں حارث رؤف کی شرکت میڈیکل رپورٹ سے مشروط
یاد رہے کہ اتوار کو پی سی بی اپنی پریس ریلیز میں ایم آر آئی اور ایکسرے اسکین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ حارث رؤف کو نیوزی لینڈ کے خلاف ہفتے کے روز ہونے والے میچ کے دوران سینے کے نچلے حصے میں موچ آئی۔
مزید پڑھیں: سہ ملکی سیریز: فاسٹ بولر حارث رؤف کو پسلیوں میں تکلیف، اوور ادھورا چھوڑ کر گراؤنڈ سے جانا پڑا
کرکٹ بورڈ کا کہنا تھا کہ چوٹ سنگین نہیں ہے اور توقع ہے کہ وہ 19 فروری سے کراچی میں شروع ہونے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے مکمل طور پر صحت یاب ہو جائیں گے۔
تاہم احتیاطی تدابیر اور ان کی جاری بحالی کے حصے کے طور پر وہ 12 فروری کو جنوبی افریقہ کے خلاف اہم میچ کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 20225 حارث رؤف سہ فریقی کرکٹ سیریز عاکف جاوید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 20225 سہ فریقی کرکٹ سیریز کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
سوڈان میں خونیں کھیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-3
سوڈان ایک بار پھر خون میں نہا رہا ہے۔ شہر الفشر میں گزشتہ ہفتے سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ فوجی انخلا کے بعد سے ریپڈ سپورٹ فورسز نے شہر پر قبضہ کر کے ایک ایسا قتل عام شروع کیا ہے جس نے دارفور کے پرانے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں۔ صرف چار دن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور پچیس ہزار سے زیادہ شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، الفشر کے اطراف میں ایک لاکھ سترہ ہزار کے قریب لوگ پھنسے ہوئے ہیں، بغیر خوراک، پانی یا طبی سہولت کے۔ اس المناک صورتحال کی جڑیں آج کی نہیں بلکہ ایک دہائی پرانی پالیسیوں میں پیوست ہیں۔ 2013ء میں جب دارفور میں بغاوت کے شعلے بھڑکے، تو خرطوم نے روایتی فوج کی ناکامی کے بعد ایک نئی ملیشیا بنائی، ریپڈ سپورٹ فورس۔ مقصد یہ تھا کہ تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے شورش کو ختم کیا جائے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، ’’ایک ملک میں دو فوجیں کبھی ساتھ نہیں رہ سکتیں‘‘۔ اس ملیشیا کو وسائل، اختیار اور تحفظ دیا گیا، مگر اس کے ساتھ وہ خود مختاری بھی ملی جس نے بالآخر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔ ماضی میں دیکھا جائے تو جب 2019ء میں عمرالبشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو یہی ملیشیا اقتدار کی کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی۔ ریپڈ فورسز نے فوجی اقتدار کے عبوری دور میں بھی اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ جاری رکھا۔ پھر 2023ء میں وہ لمحہ آیا جب جنرل برھان کی فوج اور جنرل حمیدتی کی فورس کے درمیان تصادم نے سوڈان کو مکمل خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ آج الفشر میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ دراصل انہی غلط فیصلوں اور طاقت کے بے لگام استعمال کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ سوڈان کی صورت حال اب انسانی المیے کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر، معیشت تباہ، اسپتال ملبے میں تبدیل، اور عورتیں و بچے عدم تحفظ کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ وہی مغربی دنیا جو یوکرین یا اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بیانات دیتی ہے، سوڈان کے جلتے ہوئے شہروں پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ سوڈان کا المیہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ یہاں بھی عالمی بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ جب کسی ریاست کے اندر طاقت کے دو مراکز قائم ہو جائیں، جب اقتدار ذاتی مفاد کے تابع ہو جائے، جب بین الاقوامی طاقتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی اسیر ہوجائیں تو ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت سوڈان کو فوری طور پر جنگ بندی، غیر جانب دار انسانی رسائی، اور ایک جامع سیاسی عمل کی ضرورت ہے، جس میں فوج، ریپڈ فورس اور سول سوسائٹی سب شامل ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ صرف تماشائی بنے رہنا چاہتی ہے یا واقعی انسانی حقوق کے اصولوں پر قائم ہے۔