Daily Ausaf:
2025-11-05@02:57:31 GMT

مہذب قومیں تاریخ سے سیکھتی ہیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

ماضی آئینہ کی طرح ہوتا ہے ۔ جس میں جھانک کر قومی حلیہ سلجھایا جاتا ہے ۔ تاریخی نشانات ، حیرت انگیز فن تعمیر ، تہذیبوں کے آثار اچھے یا برے ماضی کے عکاس ہوتے ہیں ۔ مہذب قومیں اپنی تاریخ اور ورثہ محفوظ اور زندہ رکھتی ہیں ۔ اپنے ماضی کے عروج و زوال کی علامات اور معلومات کو مٹنے نہیں دیتیں ۔ ارتقائی سفر ، کاوشوں ، قربانیوں، ناکامیوں اور کامیابیوں کی اپنی روداد اگلی نسلوں تک پہنچاتی ہیں ۔ اس طرح اپنے ماضی سے نہ صرف جڑت رکھتے ہیں بلکہ بہتر مستقبل کے لئے مشعل راہ بھی بناتے ہیں ۔ اچھی روایات اور حکمت عملی کو اپناتے ہیں ۔ ناکامی اور رسوائی کا سبب بننے والی حماقتوں سے گریز کرتے ہیں۔ تب ہی تو تاریخ کو سب سے بڑا استاد مانا جاتا ہے ۔ اس سے سبق سیکھا جاتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کے دامن میں چھپے حقائق و واقعات کو سنجیدگی سے سمجھا جائے ۔ اس کی روشنی میں اپنی منزل کی راہیں متعین کی جائیں ۔ ہر گام پہ راہنمائی لے کر درست رخ منزل برقرار رکھی جائے ۔ اس لئے ماضی کی تاریخ اور اس کے نشانات کو محفوظ اور پبلک کے لئے قابل رسائی رکھنا بڑا اہم ہے ۔
یوں تاریخی تفصیلات اپنے قومی درسی نصاب میں زندہ رکھ سکتے ہیں۔ نسل در نسل ، سینہ بہ سینہ اپنے ماضی کی عظمتوں اور ہزیمتوں سے قوم کو آگاہ رکھ سکتے ہیں ۔ جس سے ان کے علمی خزانے اور حد نظر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ان کی بصیرت میں پختگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ انسان کی علم و آگاہی اور سکھلائی میں حواس خمسہ کا کلیدی رول ہے ۔ ہر ایک کی اپنی مخصوص و محدود افادیت اور فعالیت ہے ۔ تاہم حس مشاہدہ سب سے اہم ہے جس کے ذریعے انسان سب سے زیادہ سیکھتا ہے ۔ ایک چیز جس کو کتابی لیکچر کے ذریعے طلبا یا قاری کو سمجھانے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں اگرعملی طور پر اس کو دیکھا جائے تو شائد چند منٹوں میں سمجھ آ جائے ۔ مثال کے طور قلعہ روہتاس کے مقام ، محل وقوع، طرز تعمیر اور تاریخ کو کتابوں کے ذریعے سمجھنے اور ازبر کرنے میں کافی محنت اور وقت درکار ہوتا ہے ۔ پڑھتے ہوئے قاری اس کے خدو خال کوصرف چشم تصور سے دیکھ کر فرض کر رہا ہوتا ہے ۔ استاد بے شک اس کے ایک ایک حصے کو باریک بینی سے بیان کرے ، اس کا نقشہ کھینچے ، لیکن کچھ روز ذہن کے پردے پہ محفوظ رہنے کے بعد وہ خود بخود محو ہو جاتا ہے ۔ اس کو یاد کر نے کے لئے ذہن پہ زور دینا پڑتا ہے یا پھر واپس کتاب کے دریچوں میں جھانکنا پڑتا ہے ۔ دوسری طرف اگر عملی طور پر قلعہ روہتاس کا دورہ کیا جائے ، جائزہ لیا جائے اور نظارہ کیا جائے تو اسکا ذرہ ذرہ برسوں یاد رہتا ہے ۔اسی لئے تو کہتے ہیں مشاہدے سے سیکھنا سب سے آسان اور موثر ہوتا ہے ۔ اسی حقیقت کے پیش نظر سمجھدار قومیں اپنے قومی ورثے ، پرانی تاریخی عمارتوں اور آثار کو محفوظ رکھتی ہیں ۔ عجائب گھر اور لائبریریوں کو قائم کرتی ہیں ۔ جن سے نئی نسلیں مستفید ہو کر اپنی علمی استعداد اور صلاحیتیں بڑھاتی ہیں ۔ باقی ملکوں کی مانند ہمارے ملک میں بھی محکمہ آثار قدیمہ موجود ہے ۔ جس کی بدولت بہت ساری بڑی بڑی تاریخی عمارات ، باغات، کھنڈرات اور قلعے اصلی حالت میں محفوظ ہیں۔ لیکن یہ بڑے گنے چنے سے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مذہب ، مسلک اور تعصب سے بالا تر ہو کر تاریخی ورثے یا آثار قدیمہ کے زمرے میں آنے والے تمام آبجیکٹس کو محفوظ کیا جاتا ۔ مگر ایسے نہیں ہوا ۔ میرا آبائی قصبہ بڑا تاریخی ہے ۔ تقسیم سے پہلے ہندوں کی کثیر تعداد یہاں آباد تھی ۔ مالی طور پر وہ مسلمانوں سے زیادہ آسودہ اور خوشحال تھے ۔ ان کے بڑے چوبارے تھے۔جن کا بڑا دلکش فن تعمیر تھا ۔جس کی مغلیہ طرز تعمیر سے کافی مماثلت تھی ۔ چند بڑے بڑے مندر اور گردوارے بھی تھے ۔ ایک بازار تھا جس کے دونوں اطراف سرخ اینٹوں سے بنی بلند عمارتیں تھیں ، جن کے نیچے دکانیں تھیں ۔ میرا گھر گائوں ایک کنارے جبکہ پرائمری سکول دوسرے کنارے واقع تھا ۔ سکول آتے جاتے ہمیں اس بازار سے گزرتے ، پرانی رہائشی ، تجارتی ، مذہبی اور درسی عمارت کو دیکھتے جاتے ۔ اپنے بڑوں سے ان بارے پوچھتے تو وہ اس کی تفصیلات بتاتے تو بہت اچھا لگتا ۔ وقت گزرنے اور نئی نسل کی آمد کے بعد حالات اور مزاج بدل گئے ۔
جدت پسندی اور مادہ پرستی کی خو نے قومی ورثے کی حامل ان عمارات اور آثار کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ماضی کی ہماری شاندار تاریخی کی علامتیں گمنامی کی قبر میں چلی گئیں ۔ اب ہمیں اپنے بچوں کو بتانا پڑتا ہے کہ یہاں ایک چار منزلہ مغلیہ انداز کا چوبارہ ہوتا تھا ۔ جس کا فن تعمیر انسان کو حیرت زدہ کر دیتا تھا ۔ کیونکہ تب انسان نے اتنی سائنسی اور تکنیکی ترقی نہیں کی ہوئی تھی ۔ آج کے تیز بچے پوچھتے ہیں کہ اس کو محفوظ کیوں نہیں کیا ، جس کا جواب تو نہیں ہوتا بس شرمندگی اورافسوس ہی ہوتا ہے ۔ ہم منیر نیازی کی طرح ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں ۔ بلا سوچے سمجھے جذبات کی رو یا لا علمی میں قیمتی اثاثے اور نشانات مٹا دیتے ہیں ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے ہمیں ان کی تاریخی اہمیت کا علم ہے نہ مستقبل میں اس کی ممکنہ افادیت کا کوئی تصور ہے ۔ ترقی یافتہ قومیں اور کامیاب معاشرے ماضی سے سیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں کا ازالہ اور صلاحیتوں کو مزید بہتر بناتے ہیں ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ بچوں کو ابتدائی دور طالب علمی ہی سے قومی ورثے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے ۔ تاکہ بڑے ہو کر ایک با شعور شہری بن کر ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کا جزو بنیں ۔ اگرچہ دور دراز کے دیہاتوں اور گاوں میں زمانہ قدیم کی زیادہ تر عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں ۔ بڑے شہروں اور قصبوں میں اب بھی وہ کافی تعداد میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ۔ گرے بیروں کا اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، ان کی تعمیر نو کر کے ہم اپنی شاندار ماضی کی تاریخ کو نئی روح اور رنگ بخش سکتے ہیں ۔ جس سے نہ صرف ہماری نئی نسل علمی استفادہ کرے گی بلکہ سیاحت کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہو گی ۔ آئیں مل کر اس کاوش کو متحرک اور کامیاب کر کے قومی فرض کی ادائیگی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کو محفوظ ماضی کی جاتا ہے ہوتا ہے

پڑھیں:

دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی: افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا، اقوام متحدہ رپورٹ

اسلام آباد: اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان حکومت کے زیرِ اقتدار افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشتگرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جو پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف سرگرم ہیں۔

رپورٹ کے مطابق طالبان نے دوحہ امن معاہدے کے تحت یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین دہشتگردی اور سرحد پار حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی، تاہم حالیہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ القاعدہ اور طالبان کے روابط بدستور قائم ہیں، بلکہ یہ تعلقات پہلے سے زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا کہ القاعدہ کے نیٹ ورک اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دہشتگرد تنظیمیں زابل، وردک، قندھار، پکتیا اور ہلمند کے راستوں سے بلوچستان میں داخل ہوتی ہیں۔ طالبان حکومت کی سرپرستی میں فتنہ الخوارج کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں، جبکہ اس کے سربراہ نور ولی محسود کو ہر ماہ 50 ہزار 500 امریکی ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ محسود کے قبضے میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار بھی موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جعفر ایکسپریس دھماکے اور ثوب کینٹونمنٹ حملوں میں افغانستان سے منسلک ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی طاقتیں دوحہ معاہدہ کے تحت افغان طالبان پر سخت پابندیاں عائد کریں تاکہ دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کا خاتمہ ممکن ہو۔

متعلقہ مضامین

  • دادو میں پی ایس او جدید ماڈل ولیج کا افتتاح
  • سندھ حکومت کا خواتین کیلیے پنک اسکوٹیز پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا فیصلہ
  • چینی سرمایہ کاروں اور انجینئرز کی محفوظ نقل و حرکت: محکمہ داخلہ پنجاب کو بلٹ پروف کار کا تحفہ
  • بغیر حفاظتی اقدامات مزدور کے کام کرتے ویڈیو وائرل، ’کسی مہذب ملک میں کنٹریکٹر پر پابندی لگ جاتی‘
  • دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی: افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا، اقوام متحدہ رپورٹ
  • کراچی کا انفرا اسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے‘عبدالعلیم خان
  • نئی ٹی وی سیریز ’رابن ہڈ‘ : تاریخی حقیقت اور ذاتی پہلو کے امتزاج کے ساتھ پیش
  • تاریخی خشک سالی، تہران میں پینے کے پانی کا ذخیرہ 2 ہفتوں میں ختم ہوجائے گا
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو