Islam Times:
2025-11-04@04:53:48 GMT

ہفتہ بارہ بجے کے بعد

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

ہفتہ بارہ بجے کے بعد

اسلام ٹائمز: خوش گمانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جن کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ برسر اقتدار آ کر جنگوں کو ختم کریں گے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ ان کا مقصد محض ان جنگوں کا خاتمہ تھا جنہیں وہ امریکہ کے لیے غیر ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن وہ ایسی جنگ کو امریکہ کے لیے لازم و ملزوم گردانتے ہیں جس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو سکے۔ لہذاء اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپنی اس دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ کام شروع کر دیے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ تحریر: سید تنویر حیدر

فرعون کے مقابلے میں اگر موسٰی اپنے عصا کے ساتھ کھڑے تھے تو فرعون کو خدا ماننے والے بھی کچھ کم نہ تھے۔ جہاں ایک طرف فرعون نوزائیدہ بچوں کا قاتل تھا وہاں دوسری جانب لوگ اسے اپنے بچوں کا خالق بھی سمجھتے تھے۔ اسی طرح آج کی دنیا میں بعض لوگ جسے شیطان بزرگ کہتے ہیں وہ کچھ لوگوں کے لیے ان کا مسیحا بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دوراقتدار میں جس طرح فلسطینیوں کے بعض مقبوضہ علاقوں کو غاصب صیہونی حکومت میں باقاعدہ طور پر مدغم کرنے میں اس ناجائز حکومت کی معاونت کی اور بیت المقدس کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا، اس سے یہ بات ظاہر تھی کہ ٹرمپ کس طرح غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ خوش گمانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جن کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ برسر اقتدار آ کر جنگوں کو ختم کریں گے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ ان کا مقصد محض ان جنگوں کا خاتمہ تھا جنہیں وہ امریکہ کے لیے غیر ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن وہ ایسی جنگ کو امریکہ کے لیے لازم و ملزوم گردانتے ہیں جس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو سکے۔ لہذاء اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپنی اس دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ کام شروع کر دیے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

جوبائیڈن نے اپنے دور اقتدار میں غزہ کو کھنڈر بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن ٹرمپ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر فلسطینیوں سے وہ کھنڈر بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ ”اوسلو امن معاہدہ“ کرکے بعض عرب حکمران سمجھ رہے تھے ہم اسرائیل کے مقابلے میں اپنے ہتھیاروں کی جگہ زیتون کی شاخ پکڑ کر اسرائیل کو رام کر لیں گے اور اس طرح اپنے اقتدار اور اپنی حکومتوں کو دوام دینے کا سامان کر لیں گے اور پھر ہمیشہ کے لیے اپنے عشرت کدوں میں چین کی بانسری بجاتے رہیں گے لیکن ”طوفان اقصیٰ“ نے جہاں اسرائیل کی سلامتی کے لیے کھڑی کی گئی دیوار کو گرا دیا ہے وہاں بعض حکمرانوں کے تعمیر کردہ خوابوں کے محل کو بھی زمیں بوس کردیا ہے اور ان کی سہانی راتوں کو ڈراونی راتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ عرب شیوخ اسلامی جمہوری ایران کو اسرائیل سے زیادہ اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ ایران اسرائیل کے ساتھ لڑ کر تباہ ہو جائے۔ یہ صاحبان اقتدار غاصب صیہونی حکومت کا دامن پکڑنے کے لیے اپنی آخری حدوں کو چھو چکے تھے۔

”ابراھیم اکورڈ“ کے تحت وقت کے نمرود کے پہلو میں بیٹھنے والوں کو خبر نہیں تھی کہ اس جھوٹے خدا نے اولاد ابراھیم کے لیے جو آگ دہکائی ہے وہ اس میں ان حکمرانوں کو بھی جھونکنے کے لیے تیار ہو جائے گا جو خود کو اس ستم کار کے سایہء عاطفت میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ وہ مسلم حکمران ہیں جو اسرائیل کی ناراضی سے بچنے کے لیے اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کا تماشا دیکھتے رہے۔ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے وقت جنہوں نے یزید کے عتاب سے بچنے کے لیے امام کا ساتھ نہیں دیا آخرکار ”واقعہ حرہ“ میں اس یزید کے ہاتھوں ہی اپنے جان و مال اور اپنی عزت و ناموس سے ہاتھ دھو بیٹھے اور تاریخ میں نشان عبرت بن گئے۔ غزہ میں جو آگ بڑھکائی گئی تھی اب اس کی اگلی منزل ”غرب اردن“ ہے۔ فطری طور پر اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی اردن اور مصر اس آگ کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک شاہی فرمان میں اردن اور مصر کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو اپنے ممالک میں بسا لیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ان کی ذہنی حالت کے حوالے سے ان کی میڈیکل رپورٹس جو کہتی ہیں ان میں مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اردن اور مصر کی امریکہ کے سامنے جو حیثیت ہے اس کے تناظر میں ان حکومتوں کے لیے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی اس فرمائش کو آسانی سے رد کریں۔

”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات “ صدر ٹرمپ نے اپنے اس منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے اردن کے شاہ عبداللہ کو مختصر نوٹس پر اپنے دربار عالیہ میں طلب بھی کر لیا ہے۔ شاہ عبداللہ نے اپنے سر سے وقتی طور پر اس بلا کو ٹالنے کے لیے دو ہزار بیمار اور معذور فلسطینیوں کو اپنے ملک میں آباد کرنے کی پیش کش کی ہے لیکن اس طرح کے حیلوں سے اسرائیل اور امریکہ کے آئندہ کے منصوبوں کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ امریکی صدر نے شاہ عبداللہ کو بتایا ہے کہ ہم غزہ کو خریدنے نہیں جا رہے بلکہ اسے اپنے ماتحت کرنے جا رہے ہیں گویا وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس علاقے کی حیثیت کسی خریدے ہوئے غلام کی طرح کی نہیں ہوگی بلکہ اس کا اسٹیٹس مفت کے غلام کا سا ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز حماس کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئندہ آنے والے ہفتے کو 12 بجے دن تک تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ اردن اور مصر نے اسرائیل کے ممکنہ حملوں کے بعد کی صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ جڑی ہوئی اپنی سرحدوں پر اپنی افواج کی تعیناتی شروع کردی ہے۔ ”آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا“۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکہ کے لیے اردن اور مصر اسرائیل کے نے اپنے کے ساتھ

پڑھیں:

ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی

یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔

آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔

یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔

انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔

یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔

گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔

بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔

امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔

ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔

مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔

گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔

یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔

اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔

آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • نتن یاہو کے ساتھ اسرائیل میں اچھا برتاؤ نہیں ہو رہا وہاں مداخلت کرونگا، ٹرمپ
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • اسٹاک مارکیٹ ہفتہ بھار دباؤ میں رہی، سرمایہ کاروں پر خدشات کے سائے گہرے
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں رواں ہفتہ کیسا رہا؟
  • امریکا اپنے نئے نیوکلئیر دھماکے کہاں کرے گا؟