Express News:
2025-09-19@02:17:20 GMT

نوجوانوں کا آئی ٹی میں بڑھتا رجحان

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین مولانا بشیر فاروقی قادری کے مطابق سیلانی ٹرسٹ ملک بھر میں ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ٹرسٹ نے میگا آئی ٹی ٹیسٹ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے دوران ہاکی اسٹیڈیم کراچی میں حال ہی میں ایک اور میگا آئی ٹی ٹیسٹ اور ایس ایم آئی ٹی پروگرام کے تحت انتظامات کے لیے منعقدہ تقریب میں سندھ کے گورنر نے بھی شرکت کی۔

جس میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی قادری نے کہا کہ ملک کی ترقی کا انحصار آئی ٹی کی تعلیم کے حصول میں ہے اور سیلانی ٹرسٹ اس سلسلے میں مصروف عمل ہے اور ٹرسٹ 2035 تک پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سرگرداں ہے جس کے تحت ہی ملک بھر میں آئی ٹی ٹیسٹ ہو رہے ہیں جہاں بلامعاوضہ ٹرسٹ آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے اور حالیہ ٹیسٹ میں بھی دس ہزارنوجوانوں کے ٹیسٹ لیے گئے ہیں۔

موجودہ دور آئی ٹی کا دور ہے جس کی اہمیت کو پاکستان سے پہلے بھارت نے تسلیم کیا تھا جس کے تحت انٹرنیٹ کے سلسلے میں دنیا بھر میں ایک عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے جس کے مقابلے میں آئی ٹی کی اہمیت کو دیر سے تسلیم کیا گیا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے اور حکومتوں کی طرف سے آئی ٹی کی تعلیم پر دیر سے توجہ دی گئی۔ اب حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کی تعلیم دینے کے لیے جو اقدامات ہوئے وہاں ملک کے نجی اداروں نے بھی ملک کے بچوں کو آئی ٹی کی تعلیم کے حصول پر راغب کیا جن میں ملک میں ایک بہت بڑا فلاحی ادارہ سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ ہے جہاں بلا معاوضہ آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرکے نوجوان میدان میں آنا شروع ہوگئے ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ کمانے لگے ہیں، جو کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

آئی ٹی میں نوجوانوں کا رجحان جس طرح تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لحاظ سے کمرشل ادارے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور من مانی فیسوں پر نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے لگے ہیں مگر سیلانی ٹرسٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو مفت میں آئی ٹی کی تعلیم دے رہا ہے بلکہ اس کی ترجیح ہی آئی ٹی کی تعلیم زیادہ سے زیادہ نئی نسل کو فراہم کرنا ہے۔ ملک بھر میں طلبا اور طالبات کو آئی ٹی کی جدید تعلیم دینے کے لیے سیلانی ٹرسٹ نے مختلف انتظامات کر رکھے ہیں جہاں آئی ٹی کی تعلیم کے حصول کے خواہش مند تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

آئی ٹی کے تعلیم کا بڑھتا رجحان اب نئی نسل کی مجبوری بن چکا ہے اور لوگ آئی ٹی کی تعلیم کے سینٹروں کا رخ کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر نوجوانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمرشل اداروں نے منہ مانگی فیسوں پر آئی ٹی کی تعلیم دینا شروع کر دی ہے جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے اور ان کا اس سلسلے میں طریقہ معیاری نہیں۔سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ جو گزشتہ 20 سالوں سے زندگی کے 63 شعبوں پیدائش سے موت تک سہولیات فراہم کر رہا ہے جس کے تحت ملک بھر میں سیلانی کے ایک ہزار دسترخوانوں پر تین لاکھ غریبوں کو 3 وقت مفت کھانا کھلا رہا ہے۔

سوا لاکھ غریبوں کا مفت علاج 700 غریب بچیوں کو جہیز کی فراہمی اور ملک کے چار لاکھ غریب بچوں کو تعلیمی سہولیات کی فراہمی۔ سیلاب میں بے گھر ہو جانے والے متاثرین کے لیے دو سو گھروں کی تعمیر سیلانی ٹرسٹ کی خدمات کا حصہ ہیں۔سیلانی ٹرسٹ نے سب سے پہلے آئی ٹی کی اہمیت بڑھتے دیکھ کر نوجوانوں کو آئی ٹی کی مفت تعلیم فراہم کرنے کا آغاز کیا تھا جو کامیابی سے جاری ہے۔ سیلانی کے اس اقدام سے نوجوانوں کو مفت میں سہولیات حاصل ہوئیں اور آئی ٹی کی طرف اب ان کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آئی ٹی کی تعلیم کے کو آئی ٹی کی سیلانی ٹرسٹ نوجوانوں کو ملک بھر میں ہے جس کے میں ایک رہا ہے کے لیے ہے اور کے تحت

پڑھیں:

جامعات کی خود مختاری پر سیاسی کنٹرول

پاکستان کے ریاستی و حکومتی نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اداروں اور آئین و قانون کی بالادستی کے مقابلے میں افراد اور خاندان کی بالادستی کے حامی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری پالیسیوں اور قانون سازی یا اس پر عملدرآمد کے نظام میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہاں ہم اداروں کی مضبوطی اورخودمختاری پر سیاسی سمجھوتے کرنے کے عادی بن گئے ، اور افراد کی بنیاد پر نظام چلانے کی خواہش کو لے کر اداروں کی مضبوطی کی نفی کرتے ہیں ۔

18ویں ترمیم کے باوجود ہم اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہیں اور عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت کے نظام کے حامی ہیں۔کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ادارے مضبوط ہوتے ہیں تو پھر ان کی سیاسی طاقت اور سیاسی مداخلت کا کھیل کمزور ہوگا ۔ان کے بقول ہمیں اداروں کے سامنے خود کو جوابدہ بنانا ہوگا اور ہماری طاقت کمزور ہوگی جو ہمیں قبول نہیں ۔

پاکستان میں اعلی تعلیم یعنی ہائر ایجوکیشن اور جامعات کی خود مختاری کو بھی مختلف طور طریقوں سے وفاقی اور بالخصوص صوبائی حکومتیں چیلنج کررہی ہیں۔صوبائی حکومتوں کی جانب سے یونیورسٹیوں میں اسی تجاویز پر غور ہورہا ہے یا ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس سے جامعات اور وائس چانسلرز کے اختیارات کم سے کم کرکے صوبائی حکومتیںان تعلیمی اداروں پر اپنے سیاسی کنٹرول کو بڑھا سکیں ، جامعات اور وائس چانسلرز ان کے ماتحت ہوں اور وہ آزادانہ بنیادوں پر اپنے اداروں اور اعلی تعلیم سے متعلقہ فیصلوں سے محروم ہوں ۔

پہلے ہی صوبائی حکومتوں نے جامعات کے لیے حکومتی مالی وسائل کو محدود یا کم کردیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جامعات خود اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔لیکن حکومت اور بیوروکریسی انتظامی یا قانونی بنیاد پر مداخلت کرکے معاملات کو سدھارنے کی بجائے انھیں مزید بگاڑ رہی ہے اس پر حکومتی سطح پر کوئی غوروفکر نہیں ہورہا جو تشویش کا پہلو ہے۔

پہلے ہی وفاقی اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری کو چیلنج کیا جاچکا ہے اور بالخصوص صوبائی سطح پر قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک بے بس ادارہ بنا دیا گیا ہے اور اختیارات کی کمی کے باعث صوبائی کمیشن ہو یا جامعات کے سربراہ وہ سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کے سامنے بے بس ہی نظر آتے ہیں اور ان کا انتظامی کنٹرول اتنا بڑھ گیا ہے کہ جامعات کی خود مختاری ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔

یعنی وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی وفاقی کمیشن صوبائی کمیشن کو اور نہ صوبائی حکومتیں صوبائی کمیشن اور جامعات کو خود مختاری دینے میں سنجیدہ ہیں ۔ یہ ہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے تعلیمی معیارات سمیت جامعات کی گورننس کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس حد تک اعلی تعلیم کے نظام میں سنجیدہ ہیں۔اس ایکٹ کے تحت صوبائی حکومت جامعات کا مکمل کنٹرول اپنا پاس رکھنا چاہتی ہے اور اس سے جامعات میں پہلے سے موجود حکومتی سیاسی مداخلتوں کو اور زیادہ بڑھانے اور فیصلوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز ایک اعلی تعلیم یافتہ مرد اور عورت ہوتے ہیں اور کئی دہائیوں تک تعلیم اور علمی و فکری میدان کا ان کا وسیع تجربہ بھی ہوتا ہے ۔وہ جامعات کی سطح پر سینڈیکیٹ کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور اسی کی سربراہی میں سینڈیکیٹ کا اجلاس ہوتا ہے ۔مگر اب سینڈیکیٹ کی سربراہی صوبائی وزیر تعلیم ہائر ایجوکیشن کو دی جا رہی ہے جو وائس چانسلرز بلکہ جامعات کی خود مختاری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہوگا جس سے جامعات میں سیاسی مداخلت بڑھے گی۔

اسی طرح اب جامعات کی سینڈیکیٹ میں ایک سرکاری ایم پی اے کی جگہ تین ایم پی اے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اسی سینڈیکیٹ میں سیکریٹری ہائر ایجوکیشن، سیکریٹری قانون ، سیکریٹری فنانس،چیرپرسن ہائر ایجوکیشن کمیشن،دو ڈین کی تقرری کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا۔سب سے اہم بات اس ایکٹ میں چانسلر کا اختیار گورنر کی بجائے وزیر اعلی اور صوبائی وزیر پرو چانسلر ہوگا جو ظاہر کرتا ہے کہ اس سینڈیکیٹ میں جہاں وائس چانسلرز کے مقابلے میں وزیر اعلی ،وزیر تعلیم اور بیوروکریسی کو اس حد تک مضبوط بنادیا گیا ہے کہ اصل فیصلوں کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا اور وائس چانسلرز کی حیثیت نمائشی ہوگی اور وہ سینڈیکیٹ میں صوبائی وزیر تعلیم کے عملا ماتحت ہوگا جو غیر دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔

اسی سینڈیکیٹ میں چار اہم پوزیشن جامعات کے پروفیسرز کی نمائندگی کی تھیں جن میں پروفیسرکے علاوہ ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرارز جو منتخب نمائندے تھے، کو ختم کردیا گیا ہے جو جامعات میں موجود اساتذہ کی آواز کو بھی دبانے کی ایک کوشش ہے ۔اسی سینڈیکیٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی نمائندگی کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ حکومت اپنی من مرضی کی بنیاد پر اپنے سیاسی فیصلے کرسکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل ضلعی سطح پر نئی جامعات کی تشکیل بھی کی جا رہی ہے ۔اس وقت اگر ہم دیکھیں تو پنجاب ہی میں 34پبلک جامعات ہیں لیکن ان نئی جامعات کو چلانے کے لیے پہلے سے موجود بڑی جامعات کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی اور جب کہ پرانی جامعات کے لیے مالی وسائل نہیں تو نئی جامعات کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔

ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ حکومت سرکاری جامعات کو خود پر انتظامی اور مالی بوجھ قرار دے کر ان سرکاری جامعات کو حکومت پبلک پارٹنر شپ کے تحت چلانا چاہتی ہے جس سے اعلی تعلیم عام اور غریب لوگوں کے لیے اور زیادہ مشکل کردیا جائے گا جو سرکاری جامعات میں کم فیسوں کی وجہ سے پڑھ لیتے تھے۔اس وقت مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ بیس سے اکیس ارب تک کا ہے اور اس میں سے حکومتی مدد محض78سے 80 کروڑ ہے ۔اس لیے حکومت کی جانب سے سرکاری جامعات میں مالی وسائل میں اضافہ کرنے کی بجائے جامعات کے خلاف ایک مخالفانہ مہم اور اس کو حکومتی کنٹرول میں لینے کا کھیل واضح طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔

پہلے ہی ہم جی ڈی پی میں تعلیم پر سب سے کم وسائل کو مختص کررہے ہیں اور پھر توقع کی جاتی ہے کہ جامعات بہتر تنائج کیوں نہیں دے رہیں۔ اس وقت تعلیم و تحقیق پر کسی بھی قسم کی کوئی بڑی مالی سرمایہ کاری جامعات کی سطح پر نہیں کی جارہی اور جامعات کو ایک ایڈ ہاک پالیسی یا سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر جس انداز سے چلایا جارہا ہے وہ کافی غور طلب پہلو ہے ۔ہمیں دنیا کی جدید جامعات اور ان کی ہائر ایجوکیشن کی پالیسیوں اور اقدامات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے اپنے ملکوں میں جامعات کے نظام کو چلاتے ہیں اور وہاں سینیٹ سمیت سینڈیکیٹ کا نظام کیسے چلایا جارہا ہے اور کیا وہاں وائس چانسلرز حکومت کی سیاسی مداخلت کا شکار ہے یا وہ اور جامعات کی سینیٹ اور سینڈیکیٹ آزادانہ بنیادوں پر بغیر کسی سیاسی مداخلت کے اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں ۔

ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں جامعات کی سطح پر سب اچھا ہے یقیناً اس میں بھی بڑی اصلاحات درکار ہیں ۔لیکن ایک اچھی حکومت جب بھی جامعات کے بارے میں کچھ پالیسیاں یا قانون سازی کو ممکن بناتی ہے تو وہ جامعات اور اعلی تعلیم کے ماہرین، سابق اور موجودہ وائس چانسلرز سے مشاورت کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے تاکہ سب کے اتفاق رائے سے آگے بڑھاجاسکے ۔لیکن حکومت ایک طرف اپنی سیاسی مداخلت اور دوسری طرف بیوروکریسی کی طاقت کے ساتھ جامعات کے نظام کو چلانے پر بضد ہے تو اس سے حکومت ،بیوروکریسی اور جامعات کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوگا جو اعلی تعلیم میں پہلے سے موجود مسائل میں اور زیادہ اضافہ کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جامعات کی خود مختاری پر سیاسی کنٹرول
  • کریڈٹ کارڈز کے ذریعے خریداری کے رجحان میں نمایاں اضافہ ریکارڈ
  • نوجوانوں کیلئے سنہری موقع، پنجاب پولیس میں سب انسپکٹرز کی بھرتی
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 200 پوائنٹس سے زائد اضافہ
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان
  • نوجوانوں کیلئے خوشخبری، پنجاب پولیس میں سب انسپکٹرز کی نوکریاں آ گئیں
  • کاروباری ہفتے کے دوسرے دن بھی تیزی کا رجحان
  • فٹ بال ٹیم ظاہر کرکے 17 نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجنے والا انسانی اسمگلر گرفتار
  • وزیراعظم یوتھ پروگرام اور موبی لنک کے درمیان معاہدہ
  • بھارتی ریاست کیرالہ میں 2 نوجوانوں پر بہیمانہ تشدد، ملزم محبوبہ نکلی