Juraat:
2025-07-26@15:02:39 GMT

سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت

حمیداللہ بھٹی

معاشی بحالی کی جدوجہدمیں کامیابی کے لیے لازم ہے کہ برآمدات میں اضافہ اوردرآمدات میں کمی لائے اِس حوالے سے حکومتی کاوشیں جزوی حدتک کامیابی سے ہمکنارہوتی نظر آتی ہیں لیکن فوری توجہ کے متقاضی کئی ایسے پہلو ہیں جوہنوزنظراندازہورہے ہیں اگر ہم نے معاشی بحالی کا سنگِ میل طے کرنا ہے تو جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی وگرنہ جزوی طورپر حاصل ہونے والی کامیابیاں بھی بے ثمر اوروقتی ثابت ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں معاشی بحالی کی جدوجہد طویل اور مشکل ہوسکتی ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے ممالک جن کا شمارہمارے قریبی دوست ممالک میں ہوتا ہے اُن سے بھی تجارتی توازن ہمارے حق میں نہیں بلکہ خسارہ ہے مثال کے طورپر ترکیہ جسے ہم اپنا قریبی اور بااعتماد دوست ملک تصورکرتے ہیں اُس کے ساتھ بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں ظاہرہے انفرادی کی بجائے حکومتی سطح پرہی مراعات کے حوالے سے گفتگوثمربارثابت ہوسکتی ہے آج بارہ فروری کو صدر رجب طیب اردوان اسلام آباد کے دوروزہ دورے پر ہیں تو حکومت کوچاہیے کہ دو طرفہ تعلقات سمیت باہمی تجارت جیسے پہلوئوں پربھی سنجیدہ بات چیت کرے تاکہ اہم منصوبوں کے زریعے تعاون کا فروغ اور مشترکہ اقدامات سے تجارت کو وسعت حاصل ہو دونوں ممالک کے موجودہ تجارتی تعلقات پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ترکیہ نفع میں ہے شاید وہ پاکستان کودوست ملک کی بجائے محض اپنی تجارتی منڈی تصور کرتاہے اگر ایسا نہ ہوتا تو دوست ملک کی معاشی مشکلات کا احساس کرتااور پاکستان کوصرف برآمدات کی نظر سے ہی نہ دیکھتا بلکہ درآمدات میں حائل رکاوٹیں بھی دورکرتا عملی اقدامات نہ کرنے اور دوستی کو باتوں تک محدودرکھنے سے ہی تجارتی توازن مسلسل ترکیہ کے حق میں ہے۔
پاکستانی قیادت کچھ زیادہ ہی چین پر فریفتہ ہے تجارت سمیت ہر حوالے سے چین فائدے میں نظرآتا ہے وہ دنیا کے مہنگے ترین قرضے دیکر پاکستان کو جکڑنے میں مصروف ہے نیز مہنگا اور غیر معیاری سامان بھی پاکستان کوفروخت کررہا ہے اِس کے لیے چینی کمپنیوں کوہمارے بدعنوان عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے لیکن چین کو پاکستانی مال کی فروخت میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے طرفہ تماشہ یہ کہ چینی قرضہ ستائیس ارب ڈالر کے ہندے کو چھونے لگا ہے جوکہ نہایت تشویشناک امرہے کیونکہ آمدن کومدِ نظر رکھیں تو ادائیگی کی سکت کم ہوتی جارہی ہے اِس مشکل ترین صورتحال میں چینی کردارنظرانداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ چین کو برآمدات بڑھائے بغیر ہمارے پاس ایسے زرائع نہیں کہ ستائیس ارب ڈالرجیسی بڑی رقم کی ادائیگی کر سکیں لیکن وہ ہمارے سامان کابہت کم خریدارہے پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ چین سے مزید مہنگے قرضے لینے سے گریزکرے اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دے تاکہ قرضوں کا انبار کم ہو اور معاشی وتجارتی سرگرمیوں میں بہتری آئے۔
وسطی ایشیائی ریاستیں سنجیدہ کوششوں سے پاکستانی مال کی بہترین منڈی ثابت ہو سکتی ہیں افسوسناک امرتو یہ ہے کہ یہاں بھی تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ خسارہ بڑھتا جارہا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں مگر اِس حقیقت کو مکمل طورپر جھٹلانا بھی ممکن نہیں کہ پاکستانی مال کومحصولات سمیت پچیدہ راہداری جیسی رکاٹوں کا سامنا ہے جنھیں دورکرنا کچھ زیادہ مشکل نہیںحکومتی توجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں کو برآمدات میں اضافہ ممکن ہے مگر شرط یہ ہے کہ حکومت دعوئوں پر انحصار چھوڑ کر عملی اقدامات پر توجہ دے اورمحصولات کم کرانے کے ساتھ محفوظ و آسان راہداری یقینی بنائے ۔
امریکہ ایسا ملک ہے جوپاکستانی مال کی بڑی منڈی اور تجارتی توازن بھی پاکستان کے حق میں ہے جو گیارہ ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے مگر ٹرمپ انتطامیہ درآمدات پر محصولات بڑھانے کی روش پر گامزن ہے اب جبکہ امریکہ کو پاکستان کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں رہی اور دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کا شکارہیںتو اندیشہ ہے کہ کسی وقت بھی یہ تجارتی منافع بخش منڈی چھن سکتی ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ حکومت ایسی نوبت آنے سے قبل ہی ایسے اقدامات اُٹھائے تاکہ پاکستانی مال محصولات کی زَد میں آنے سے محفوظ رہے اِس کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ سے دوطرفہ روابط بڑھائے جائیں چین ہماری دفاعی اور مالی ضرورت سہی لیکن ایک بڑی عالمی اور دفاعی طاقت امریکہ سے بھی بہتر تعلقات ہماری ضرورت ہیں ۔
پورپی یونین بھی پاکستان کی ایک ایسی اہم تجارتی شراکت دار ہے جہاں پاکستانی مصنوعات پر عائد محصولات میں نرمی ہے کیونکہ پاکستان کو Generalized Scheme of Preference )جی ایس پی پلس )کا درجہ حاصل ہے یہ درجہ تبھی بحال رہ سکتا ہے جب پاکستان بنیادی انسانی حقوق،ماحولیاتی تحفظ اور گُڈ گورننس سے متعلق ستائیس بین الا قوامی کنونشنز کی پاسداری کرے جن ممالک کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دے رکھاہے ُن کی مسلسل نگرانی بھی کرتی ہے ویسے تو اکتوبر2023 میں پاکستان کو اِس حوالے سے حاصل مراعات کی 31 دسمبر2027 تک توسیع کردی گئی تھی جس کے نتیجے میں یورپی یونین کو ٹیکسٹائل برآمدات میں 108 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا مگریورپی یونین کے وفدکا حالیہ دورہ پاکستان کچھ زیادہ خوشگوار نہیںرہاوفدنے فوجی عدالتوں اور انسانی حقوق سمیت کچھ دیگر کنونشنز پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناپر تحفظات کا اظہار کیا اِس صورتحال کے زمہ دارپی ٹی آئی کے مغربی ممالک میں متحرک عہدیدار بھی ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کاشورمچایا ہماری زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ اور یورپی یونین میں شامل ممالک کوبرآمد کی جا تی ہیں یورپی یونین کی طرف سے تحفظات کا اظہاراب صنعتی شعبے کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے جرمن ٹیکسٹائل میلے میں پاکستانی برآمدکنندگان کو غیر معمولی آرڈر بھی ملے لیکن اگر حاصل ترجیحی درجہ ختم ہو تا ہے تو پاکستانی مصنوعات بھی محصولات کی زَد میں آجائیں گی ایسی صورتحال تجارتی حوالے سے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے یورپی یونین کے تحفظات بروقت دور کرنے سے ترجیحی درجہ برقراررکھا جا سکتا ہے وگرنہ فائدہ مند تجارتی منڈیاں کھونے سے معاشی بحالی کی جدوجہد رائگاں جا سکتی ہے مہنگی بجلی سے پہلے ہی پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے یورپی یونین کی حاصل منڈی چھن جانے کا جھٹکامعاشی بحالی کی حکومتی جدوجہد کوبُری طرح متاثر کر سکتاہے۔
پاکستان کاچاول کی عالمی برآمد میںاہم حصہ ہے لیکن باسمتی چاول کی شناخت کے حوالے سے پاکستان کا بھارت سے مقابلہ ہے حکومتی
کاوشوں سے یورپ میں بھارت باسمتی چاول کوصرف اپنی شناخت ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا لیکن اب بھی بھارتی لابی سرگرم ِعمل ہے اِس میں کچھ ہمارے منافع خور تاجراُس کاکام آسان کررہے ہیںجو وعدے کے مطابق معیاری جنس برآمد کرنے کا وعدہ پورا نہیں کرتے ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارتی چالوں کو بروقت ناکام بنانے کے ساتھ نئی منڈیاں بھی تلاش کی جائیں اورجو تاجرملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کو سزا دینے کے لیے مناسب قانون سازی سے ہی تجارتی مقابلہ کیاجاسکتا ہے خوش قسمتی سے بنگلہ دیش جو چاول کا ایک اہم خریدار ہے اُس کی منڈی تک پاکستان کو رسائی حاصل ہو چکی جوکسی حدتک خوش آئندہے معاشی بحالی کے خواب کوپوراکرناہے تو برآمدی پیداوار بڑھانے کے ساتھ نئی تجارتی منڈیوں کی طرف پیش قدمی جاری رکھنا ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: معاشی بحالی کی پاکستانی مال تجارتی توازن برآمدات میں یورپی یونین پاکستان کو کچھ زیادہ کے حق میں حوالے سے یہ ہے کہ ثابت ہو کے ساتھ سکتی ہے کے لیے

پڑھیں:

ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے،سعید غنی

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جولائی2025ء)پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر و صوبائی وزیر سعید غنی اور پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری سینیٹر سید وقار مہدی نے کہا ہے کہ اس ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے وہ تب آئے گی جب تمام ادارے اپنے دائرے میں راہ کر کام کریں۔ صدر آصف علی زرداری کی مرہون منت اس ملک میں 1973 کا آئین اپنے حقیقی روح کے مطابق رائج ہوا ہے۔

صوبوں کو اور پارلیمنٹ کو اختیار آصف علی زرداری کی ہی مرہون منت ہے اور ان کی دانش اور سیاسی بصیرت کے باعث اس وقت ملک میں جمہوریت مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 2007 میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مشکلات سے دوچار ہوگئی تھی لیکن آصف علی زرداری ہی تھے، جنہوں نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے منشور اور ان کے وژن کو لے کر اس ملک میں پیپلز پارٹی اور سیاست کو مستحکم کیا۔

(جاری ہے)

ایدھی سینٹر کے بچوں کے ساتھ آج صدر پاکستان آصف علی زرداری کی سالگرہ کی تقریب منا کر جو خوشی ہوئی ہے وہ دیگر تقریبات کے مقابلے بہت ہی زیادہ خوش آئند ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز صدر پاکستان و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ایدھی سینٹر میٹھادر میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ہمراہ سالگرہ کے کیک کاٹنے کی تقریب کے موقع پر کیا۔

صوبائی وزیر سعید غنی، سید وقار مہدی، جاوید ناگوری، فیصل ایدھی، تیمور سیال، اقبال کشمیری، سید اشرف شاہ و دیگر نے بچوں اور بچیوں کے ساتھ سالگرہ کا کیک کاٹا اور بچوں میں تحائف بھی تقسیم کئے۔ اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ آج ہم نے صدر مملکت کی سالگرہ ایدھی ہوم میں منائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کی سالگرہ کی آج شہر میں بہت تقریبات ہو رہی ہیں، لیکن یہ تقریب سب سے اچھی تقریب ہے۔

یہ معصوم بچے جن کو ایدھی صاحب نے پالا ہے، ان بچوں کی دعاوں کی بہت تاثیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں اس طرح کے بچے ہیں ان کے ساتھ مل کر خوشیاں منائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فیصل ایدھی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں آج یہ موقع فراہم کیا کہ ہم اس شخص کی سالگرہ یہاں ان بچوں کے ساتھ منائیں جس نے اس ملک میں بحالی جمہوریت اور اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کے وقار کو بلند کیا ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی اس ملک کے لئے گراں قدر خدمات ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 2007 میں شہادت کے بعد لوگ کہتے تھے پیپلز پارٹی ختم ہے۔ آصف علی زرداری کی حکمت عملی اور جس انداز میں انہوں نے اپنا سیاسی کردار ادا کیا جس سے پیپلز پارٹی کا اس ملک میں سیاسی کردار مزید بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کی سیاست اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جو بنیادی تبدیلیاں درکار تھی وہ آصف علی زرداری کی سیاسی دانش کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے وقت ہمارے پاس پارلیمان میں سادہ اکثریت بھی نہیں تھی، اس کے باوجود تمام جماعتوں کو ملا کر اٹھارویں ترمیم لانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری نے 73 کے آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کروایا، این ایف سی ایوارڈ صدر آصف علی زرداری نے دیا۔ اس کے بعد آج تک این ایف سی ایوارڈ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ کئی برسوں سے نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں مل رہا۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ بہت ساری مشکلات کے باوجود آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو متحد رکھا اور آصف علی زرداری ہی ہیں جو مسائل اور مشکلات سے اس ملک کو نکال سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ اس وقت بھی ملک میں آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے۔

ہم اس وقت دستیاب وسائل میں راہ کر ہی اپنے منشور اور سیاسی مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اصل معاملات جنرل ضیا کے دور سے خراب ہوئے اور اس کے بعد سے سیاسی جماعتوں کو کھل کر سانس لینا کا موقع آج تک نہیں مل سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز کرکے اس میں مداخلت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مداخلت میں صرف فوج نہیں بلکہ عدلیہ کا بھی بڑا کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک سیاسی ورکر ہوں اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور جس طرح کی آئیڈیل جمہوریت اس ملک میں ہونی چاہیے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ادارے جن میں ایگزیکٹو، پارلیمنٹ، میڈیا، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سب کو اپنے اپنے دائرے میں راہ کر آئین کے تحت کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایسے عدالتی فیصلے بھی آئے ہیں جس سے پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے تو پارلیمنٹ اس سے نمٹنے کے لئے کوئی اور راستہ نکالتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ آئین میں جو دائرہ ان کے لئے مختص ہے اس میں راہ کر ہی وہ کام کریں گے تو ہی اس ملک میں حقیقی اور آئیڈیل جمہوریت آسکتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ تمام معاملات کے راستے بات چیت کے ذریعے نکلیں گے۔ ہر ادارے کو آئین کا پابند رہنا ہوگا۔ لیاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ لیاری میں پیپلز پارٹی نے بہت کچھ کیا ہے۔

پیپلز پارٹی نے بہت تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔ ابھی ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے لئے اچھا ماحول دیا جائے، امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنایا جائے اور وہ اقدام کئے جائیں کہ وہاں کے لوگ اپنے آپ کو پرسکون تصور کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سندھ حکومت کی جانب سے قیام امن کے لئے ہر سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ سیف سٹی پروگرام کی مدد سے اسٹریٹ کرائم پر قابو پایا جارہا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجلی کے حوالے سے صرف کراچی یا سندھ نہیں بلکہ ملک میں مسائل ہیں اور اس ہی وجہ بجلی مہنگی ہونا ہے اور اس وجہ سے ہی لوگ بل ادا نہیں کرسکتے اور لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بھی سندھ حکومت نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایات پر صوبے بھر میں مفت سولر کی فراہمی کا منصوبہ شروع کیا ہے اور لاکھوں افراد میں جو مہنگے بجلی کے بل ادا نہیں کرسکتے انہیں سولر سسٹم کی فراہمی کی جارہی ہے تاکہ وہ اپنا معیار زندگی بہتر بنا سکیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ صوبوں کا شیئر تبدیل نہیں ہوگا۔ صرف سندھ نہیں کوئی بھی صوبہ اپنے وسائل میں کمی کو قبول نہیں کرے گا۔ ایسی صورتحال میں نیا این ایف سی نہیں لایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب سمیت کوئی بھی صوبہ اپنے وسائل میں کمی نہیں چاہتا۔ اصل مسئلہ ایف بی آر کی کوتاہی ہے، جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں ان پر ٹیکس لگائے جا رہے۔

اگر وفاقی حکومت اور ایف بی آر اپنے ٹیکس وصولی کا سسٹم بہتر بنائے تو صوبوں کے حصہ میں کمی کی بات ہی ختم ہوجائے گی۔ حب کینال سے پانی کی فراہمی کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ موجودہ سندھ حکومت نے حب کینال کی مرمت کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ ایک نئی کینال بھی 10 ارب سے زائد کی لاگت سے بنانا شروع کی ہے اور یہ اسی سال اگست کے میں مکمل ہوجائے گی، اس کے بعد پرانی کینال کی مرمت کریں گے، اس وقت ہمارے پاس حب کینال سے 100 ملین گیلن پانی کا کوٹہ منظور ہے لیکن کئی برسوں سے کینال کی خستہ حالی کی وجہ سے وہاں سے بمشکل 60 سے 65 ایم جی ڈی یومیہ پانی کی ہم لے سکتے تھے، اب نئی کینال کی تعمیر کے بعد 100 ایم جی ڈی اور ساتھ میں پرانی کینال کی مرمت کو مکمل کرکے کراچی کو 200 ایم جی ڈی پانی حب کینال سے ملے گا۔

اس سلسلے میں ہم نے وفاقی وزیر سے اضافی پانی مانگا ہے۔ حب ڈیم سے جو پانی آئے گا اس سے ڈسٹرکٹ ویسٹ اور سینٹرل کا فائدہ ہوگا۔ تجاوزات کے خاتمہ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تجاوزات کا ایک بہت بڑا ایشو ہے۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے اس میں سب کو ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ ہم نے بہت سے ایسے اقدامات کئے ہیں جس سے کراچی میں ٹریفک کے مسائل میں قدرے بہتری آئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ فیصل ایدھی نے کبھی بھی حکومتوں سے کوئی مدد طلب نہیں کی۔ یہ فیصل ایدھی کا بڑا پن ہے۔ اگر ایدھی کو ہماری ضرورت ہو ہم حاضر ہیں۔ ان کی مدد کرکے ہمیں بہت بڑی خوشی ہوگی۔اس موقع پر ایدھی سینٹر کے سربراہ فیصل ایدھی نے کہا کہ آج زرداری صاحب کی سالگرہ ہے۔ سب لوگوں کو زرداری صاحب کی سالگرہ مبارک ہو انہوں نے اپنی خوشیوں کا موقعہ ہمارے ساتھ منایا ہم سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے،سعید غنی
  • پااکستان امداد نہیں تجارت چاہتا ہے، امریکا سے تجارتی معاہدہ چند ہفتوں میں ہوجائیگا: اسحاق ڈار
  • چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا
  • حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور غافل نہیں: وزیراعظم
  • بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظام شدید متاثر ہے، چینی وزیراعظم
  • سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکے، فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا، پاکستان
  • ٹی 20 سیریز، تیسرے میچ میں بنگلہ دیش کا پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • پاکستان بھارت کو سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے: ترجمان دفتر خارجہ
  • چین اور یورپی یونین کے درمیان سفارتی تعلقات میں وافر ثمرات حاصل ہوئے ہیں، چینی صدر
  • چین اور یورپی یونین نے نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے ہیں، چینی صدر