غزہ: ٹرمپ خاندان کے مشرق وسطیٰ میں کاروباری مفادات
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خاندان مشرق وسطیٰ کو اپنی کاروباری امنگوں کی تکمیل کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ چار فروری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق بیانات نے کچھ پرانی یادوں کو تازہ کر دیا۔ نہ صرف ٹرمپ بلکہ ان کے داماد جیرڈ کُشنر ماضی میں بھی ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔
ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے اس خطے کو محض ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کے حوالے سے اہم سمجھتے ہیں۔
یہ خیالات جیرڈ کُشنر کے فروری سن 2024 ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں دیے گئے ایک انٹرویو کی بازگشت محسوس ہوتے ہیں، تب انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کا ساحلی علاقہ بہت اہم ہو سکتا ہے اگر وہاں روزگار کے مواقع بڑھانے پر توجہ دی جائے تو۔
(جاری ہے)
کُشنر نے مزید کہا تھا کہ اگر وہ اسرائیل کے نقطہ نظر سے سوچیں تو وہ غزہ کے لوگوں کو ''منتقل کر کے پھر اس علاقے میں امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
ٹرمپ نے اس موقف پر زور دیتے ہوئے دس فروری کو فوکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ انہیں کہیں اور بہتر رہائش فراہم کی جائے گی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے خاندان کے لیے مشرق وسطیٰ محض ایک کاروباری دلچسپی کا معاملہ ہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کے کاروباری مفادات کیا ہیں؟
مشرق وسطیٰ کا خطہ 'دی ٹرمپ آرگنائزیشن‘ کے لیے ایک اہم مقام بنتا جا رہا ہے۔ ریئل اسٹیٹ اور ہوٹلنگ کے اس بڑے ادارے کو چلانے والے امریکی صدر ٹرمپ کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر ہیں۔
حالیہ برسوں میں 'دی ٹرمپ آرگنائزیشن‘ نے سعودی عرب کی ریئل اسٹیٹ کمپنی دار گلوبال کے ساتھ کئی معاہدے کیے ہیں، جو دراصل سعودی عرب کی دار الارکان ریئل اسٹیٹ ڈویلمپنٹ کمپنی کی ہی ملکیت ہے۔
عمان میں ایک ٹرمپ برانڈڈ لگژری ہوٹل اور ایک گولف ریزورٹ کی تعمیر جاری ہے جبکہ جدہ اور دبئی میں ٹرمپ ٹاورز کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
اس سے قبل سن 2005 میں دبئی میں ایک ٹرمپ ٹاور تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، جو ہوٹل اور اپارٹمنٹس پر مشتمل ہونا تھا لیکن عالمی مالیاتی بحران کے باعث سن 2011 میں اس منصوبے کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ تاہم ٹرمپ دبئی میں ایک گولف کلب کے مالک ہیں۔
سعودی عرب کے ساتھ تعلقاتامریکہ کے اہم اتحادی ملک سعودی عرب کے ساتھ ٹرمپ خاندان کے کاروباری مفادات دن بہ دن زیادہ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔
دار گلوبال کے علاوہ ٹرمپ آرگنائزیشن نے ایل آئی وی گولف کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کیے ہیں، جو کہ سعودی عرب کا ایک متنازعہ اسپورٹس انویسٹمنٹ پراجیکٹ ہے۔دوسری طرف جیرڈ کُشنر کی نجی ایکویٹی فرم 'افینیٹی پارٹنرز‘، جو ٹرمپ آرگنائزیشن سے الگ ہے، سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے ساتھ قریبی روابط رکھتی ہے۔
پی آئی ایف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ اس فنڈ نے افینیٹی پارٹنرز میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اس کے علاوہ گلف ممالک کے متعدد اہم سرمایہ کاروں نے بھی جیرڈ کُشنر کے پراجیکٹ میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہے، ان میں قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی اور ابوظہبی کی لونیت نامی فرم بھی نمایاں ہیں۔
کُشنر نے اسرائیل میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ان میں شالمو انشورنس کمپنی اور فینکس ہولڈنگز سرفہرست ہیں۔ کیا یہ مفادات تنازعے کا باعث بن سکتے ہیں؟صدر ٹرمپ اور ان کے خاندان کے ان وسیع کاروباری مفادات کی وجہ سے ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے معاملات میں غیر جانبداری سے فیصلہ نہیں لے سکتے۔
اگرچہ سن 2016 میں صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے اپنے کاروبار کے انتظامی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن ان کے خاندان کے افراد اب بھی ان کی سیاسی مہمات میں فعال ہیں۔
جیرڈ کُشنر پر خاص طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے مشاورتی کردار کو مشرق وسطیٰ میں اپنی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ تاہم وہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
کیا ٹرمپ غزہ کو ایک ریئل اسٹیٹ منصوبہ سمجھتے ہیں؟ٹرمپ اور جیرڈ کُشنر دونوں ہی غزہ پٹی کو ایک ممکنہ ریئل اسٹیٹ ڈیل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ علاقہ دو ملین فلسطینیوں کا گھر ہے۔ٹرمپ کے بقول، ’’دنیا بھر کے لوگ یہاں رہیں گے، جو اس جگہ کو ایک بین الاقوامی اور ناقابل یقین مقام میں تبدیل کر دیں گے۔ غزہ پٹی میں امکانات بے حد زیادہ ہیں۔‘‘
ٹرمپ کے اس منصوبے پر فلسطینی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے جبکہ کئی ممالک کی حکومتوں نے بھی ٹرمپ کے اس منصوبے کی شدید مذمت کی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منصوبہ کئی حوالوں سے غیر حقیقی اور ناقابل عمل ہے۔تاہم مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ آرگنائزیشن کے بڑھتے ہوئے ریئل اسٹیٹ منصوبوں اور خود ٹرمپ اور کُشنر کے واضح بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم ان کے لیے یہ منصوبہ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
آرتھر سلیوان (ع ب/ ک م، م م)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کاروباری مفادات ریئل اسٹیٹ خاندان کے ٹرمپ اور کے ساتھ ٹرمپ کے کے لیے
پڑھیں:
وسطی ایشیا میں بھارتی موجودگی کا خاتمہ، تاجکستان نے بھارت سے اپنا ایئربیس واپس لے لیا
تاجکستان نے آینی ایئر بیس کا مکمل کنٹرول انڈیا سے واپس لے لیا ہے، جس کے ساتھ ہی بھارت کی تاجکستان میں تقریباً 20 سالہ عسکری موجودگی کا اختتام ہوگیا۔
یہ فیصلہ خطے میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، بھارتی کانگریس نے اسے ملک کے لیے اسٹریٹجک دھچکا قرار دے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بھارتی فوج سیاست اور سیاسی قیادت عسکریت میں مشغول ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا
بھارت کے لیے آینی ایئر بیس کا نقصان صرف ایک لاجسٹک معاملہ نہیں بلکہ اس کی علاقائی اسٹریٹجک رسائی میں نمایاں کمی کی علامت ہے۔ یہ اڈہ افغانستان اور وسطی ایشیائی خطے میں نگرانی کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا تھا۔
آینی ایئر بیس کی تاریخی اہمیتدوشنبے کے مغرب میں تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع آینی ایئر بیس (جسے فارخور-آینی کمپلیکس بھی کہا جاتا ہے) سوویت دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ اڈہ افغانستان میں سوویت کارروائیوں کا مرکزی مرکز تھا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 میں تاجکستان نے یہ اڈہ سنبھالا مگر خانہ جنگی کے باعث وہ اسے فعال نہیں رکھ سکا۔
بھارت نے 2002 میں تاجکستان کے ساتھ معاہدہ کر کے اڈے کی تزئین و آرائش اور مشترکہ آپریشن شروع کیا۔
بھارت نے اس منصوبے پر 7 سے 10 کروڑ امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی، جس کے تحت رن وے کو 3,200 میٹر تک بڑھایا گیا، نئے ہینگرز، کنٹرول ٹاورز، ریڈار اور سیکیورٹی انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا۔
یہ اڈہ بھارتی فضائیہ کے Su-30MKI لڑاکا طیاروں اور Mi-17 ہیلی کاپٹروں کے لیے موزوں بنایا گیا جبکہ تقریباً 200 بھارتی فوجی اور ٹیکنیکل عملہ یہاں تعینات تھا۔
خطے میں بھارت کا اثرورسوخآینی بیس وسطی ایشیا میں بھارت کا پہلا اور واحد فوجی اڈہ تھا، جو پاکستان کی شمالی سرحد سے 1000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اڈہ افغانستان کے واخان کوریڈور اور پاکستان کے دفاعی ڈھانچے پر بھارتی نگرانی کے لیے مثالی مقام سمجھا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان اور تاجکستان باہمی اسٹریٹجک تعاون کو نئی سطح تک بڑھانے کے لیے پرعزم
یہ اڈہ بھارت کی ‘کنیکٹ سینٹرل ایشیا’ پالیسی کا مرکزی حصہ تھا، جس کا مقصد خطے میں توانائی، تجارت اور سیکیورٹی روابط کو فروغ دینا تھا۔
روس اور چین کا دباؤمیڈیا رپورٹس کے مطابق، بھارت کی آینی سے واپسی محض معاہدے کے خاتمے کا نتیجہ نہیں بلکہ روس اور چین کے دباؤ کا نتیجہ تھی۔ دونوں ممالک نے تاجکستان پر زور دیا کہ وہ وسطی ایشیائی سیکیورٹی ڈھانچے میں بھارت کی فوجی موجودگی ختم کرے۔
روس، جو تاجکستان میں اپنی 201 ویں فوجی ڈویژن رکھتا ہے، بھارتی موجودگی کو اپنے علاقائی مفادات سے متصادم سمجھتا تھا، جبکہ چین نے بھی تاجکستان میں اپنے سیکیورٹی منصوبوں کو وسعت دینا شروع کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
آینی ایئر بیس سے بھارت کا انخلا نئی جیوپولیٹیکل حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں وسطی ایشیائی ریاستیں روس اور چین کے دباؤ میں اپنی پالیسیوں کو ازسرنو تشکیل دے رہی ہیں۔
بھارت کے لیے یہ اقدام نہ صرف عسکری نقصان ہے بلکہ وسطی ایشیا میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خاتمے کی علامت بھی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایئربیس بھارت تاجکستان فوج وسطی ایشیا