Express News:
2025-08-04@23:20:56 GMT

خیرِ کثیر کی چار علامات

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

حق تعالیٰ جسے خیرِ کثیر یعنی دین کی سمجھ سے نوازتا ہے، تو علمائِ محققین نے اس کی چار علامتیں بیان فرمائی ہیں، وہ جس میں پائی جائیں تو سمجھ لیجیے کہ اسے دین کی سمجھ نصیب ہوگئی۔

٭ پہلی علامت: دنیا میں زہد و قناعت یعنی حلال اور جائز کوشش سے بہ قدرِ ضرورت جو کچھ مل جائے اس پر راضی رہے، مزید دنیا کی رغبت نہ رکھے، یا دنیا کو ضرورت کے درجے میں رکھے، مقصد نہ بنائے ، کہ دنیا ہاتھ میں تو ہو، دل میں نہ ہو، اور دنیا میں ایسے رہے جیسے کشتی پانی میں، خود دنیا میں ر ہے، لیکن دنیا کو اپنے دل میں ہرگز نہ رکھے، یہ حال تھا حضرات صحابہؓ اور صلحاءؒ کا، حتیٰ کہ ان میں بعض کا حال تو یہ تھا کہ دنیا اپنی ساری دولت و زینت سمیت ان کے قدموں میں آئی، مگر وہ اس کی طرف دل سے متوجہ نہ ہوئے ، ان کی شان بڑی نرالی تھی۔

ایک حیرت انگیز واقعہ :

حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت سعید بن عامرؓ کو حمص کا امیر (گورنر) بنایا۔ ایک عرصے کے بعد اہلِ حمص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان سے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ’’اپنے علاقے کے فقراء اور ضرورت مندوں کے نام لکھ کر دو، تاکہ ہم ان کی مدد کر سکیں۔‘‘

انہوں نے فقرائِ حمص کی فہرست پیش کی، تو ان میں ایک نام حضرت سعید بن عامرؓ کا بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے ازراہِ تعجب دریافت کیا: ’’یہ سعید بن عامرؓ کون ہیں؟‘‘ انہوں نے بتایا: ہمارا امیر۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ’’تمہارا امیر فقیر ہے؟‘‘ انہیں بتایا گیا: جی ہاں، اﷲ کی قسم ! کئی کئی دن گزر جاتے ہیں، مگر ان کے گھر میں آگ تک نہیں جلتی۔

حضرت عمر ؓ یہ سن کر رونے لگے اور وفد کے ساتھ ایک ہزار دینار سعید بن عامرؓ کے لیے بھیجے، جب وہ دینار سعید بن عامرؓ کو ملے، تو ایک دم اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھنے لگے۔ بیوی نے کہا: کیا بات ہے ؟ کیا امیر المومنین انتقال کر گئے ؟ سعید بن عامرؓ نے کہا: معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ دنیا میرے پاس آنے لگی، فتنہ میرے پاس آنے لگا۔ بیوی نے کہا: اس کا حل موجود ہے کہ راہِ الٰہی میں تقسیم کر دیجیے۔ چناں چہ اسی وقت ساری رقم مستحقین میں تقسیم کر دی گئی۔ (اسد الغابۃ)

مولانا انعام الحسن ؒ فرماتے تھے: ’’ضروریاتِ زندگی میں کم از کم پر گزر کرنا زہد فی الدنیا ہے اور ضروریات کو بالکل ترک کر دینا رہبانیت ہے۔ (اسلام میں اس کی ممانعت ہے ) اور اسی میں پورا مشغول ہو جانا حبِ دنیا ہے۔‘‘

زہد فی الدنیا مطلوب ہے، ترکِ دنیا ممنوع ہے۔

٭ دوسری علامت: دین کی سمجھ ملنے کے بعد جب دنیا کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ، تو پھر ساری خواہشیں اور رغبتیں آخرت کے لیے ہو جاتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ اپنی امت کی رغبت آخرت کی طرف کرنے کے لیے فرماتے، مفہوم:

’’حقیقی عیش تو آخرت کا ہی ہے۔‘‘

آپ ﷺ چاہتے تھے کہ امت کی ساری رغبت آخرت کی طرف ہو جائے ، تاکہ دنیا کے فتنے سے بچ جائے اور جسے دین کی سمجھ ملتی ہے اس کی دوسری علامت یہی ہے کہ اس کی رغبت آخرت کی طرف ہو جاتی ہیں، دنیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رہتی۔

٭ تیسری علامت: حق تعالیٰ جسے دین کی سمجھ دیتے ہیں اسے دینی امور کی بصیرت و مہارت عطا فرماتے ہیں، سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اسے دین کا علم عطا فرماتے ہیں اور جسے دین کا علم مل گیا اسے بہت بڑی دولت مل گئی۔

ایک سبق آموز واقعہ:

امام شافعیؒ امام مالکؒ کے مایۂ ناز شاگرد ہیں۔ ایک مرتبہ جب مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تو استادِ محترم نے ان کی دعوت کی۔ امام مالکؒ نے گھر والوں سے کہا کہ آج بہت بڑے عالم اور فقیہ کی دعوت ہمارے یہاں ہے، لہٰذا خصوصی طور پر اہتمام کیا جائے۔ چناں چہ گھر میں کھانے کا بڑا اہتمام کیا گیا، ان کے آرام کے لیے بستر لگایا، نماز کے لیے وضو کے پانی کا لوٹا بھر کر رکھا، مصلیٰ بچھایا۔ جب امام شافعیؒ دعوت کے لیے تشریف لائے تو خوب کھایا، حتیٰ کہ جتنا تھا سب ختم کردیا، پھر رات بھر لیٹے رہے، وضو کیا، نہ نماز پڑھی۔ صبح گھر والوں نے امام مالک ؒ سے کہا: آپ تو کہہ رہے تھے کہ آنے والے مہمان بڑے عالم، امام اور فقیہ ہیں، لیکن ہمیں تو ان کے طرزِ عمل سے ایسا نہیں لگا، بل کہ اشکال واقع ہُوا، اوّل تو ہم نے جتنا کھانا بھیجا تھا وہ ایک سے زیادہ افراد کے لیے کافی تھا، آپ کے مہمان اور شاگرد نے تو اتنا کھایا کہ برتن بالکل صاف ہو کر واپس آئے، ہمیں تو دھونے کی بھی ضرورت پیش نہ آئی، دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے لیے پانی کا برتن اور مصلیٰ بچھا کر رکھا تھا کہ علم والے اور اﷲ والے تہجد گزار ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں تہجد کے وقت کوئی دقت پیش نہ آئے، لیکن جیسا مصلیٰ بچھایا تھا صبح کو ویسا ہی رکھا ملا، اور پانی بھی جوں کا توں تھا، لگتا ہے کہ تہجد کی نماز بھی نہیں پڑھی، اور پھر مسجد میں تو وضو کا انتظام بھی نہیں، لوگ گھروں سے وضو کرکے جاتے ہیں اور یہ آپ کے مہمان اور شاگرد اسی طرح آپ کے ساتھ اٹھ کر مسجد چلے گئے، پتا نہیں انہوں نے نماز کیسے پڑھی؟ امام مالک ؒ کی بیٹیاں اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگیں: ابو! مہمان کا معاملہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔

امام مالک ؒ نے اپنے شاگردِ رشید حضرت امام شافعی ؒ سے بچیوں کا اعتراض نقل کرکے فرمایا: ’’محمد بن ادریس ! کیا واقعی تمہارا حال ایسا ہی ہوگیا جیسے سمجھا گیا؟ ‘‘ اس پر امام شافعی ؒ نے بڑے ادب سے عرض کیا: ’’حضرت! بات یہ ہے کہ جب آپ نے کھانا پیش کیا تو اس پاکیزہ اور بابرکت کھانے میں میں نے بہت ہی زیادہ نُور کے اثرات محسوس کیے، تو سوچا کہ ممکن ہے اتنا حلال مال اور پُرنور کھانا زندگی میں پھر میسر ہو نہ ہو، آج موقع ہے کہ سارا کھانا کھاکر اسے جزوِ بدن بنالوں! اس لیے میں نے سارا کھا نا ختم کر دیا، پھر میں لیٹ گیا، لیکن اس کھانے کا اتنا اثر ہُوا کہ نیند غائب ہوگئی، کیوں کہ نورانی اور پاکیزہ کھانا تھا، اس کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ میں لیٹے لیٹے احادیث ِنبویؐ میں سے ایک حدیث شریف میں غور کرتا رہا، جس میں حضورؐنے ایک چھوٹے بچے حضرت انسؓ کے بھائی کو جس کا پرندہ مرگیا تھا پیار سے فرمایا تھا کہ یَا أَبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ النُّغَیْر! (متفق علیہ) حضرت! حدیث کے ان چند الفاظ میں آج کی رات غور کرتا رہا، تو الحمدﷲ! فقہ کے چالیس مسائل اخذ کر لیے کہ کنیت کیسی ہونی چاہیے ؟ بچوں سے اندازِ تخاطب کیسا ہونا چاہیے؟ بچے کے دل کی ملاطفت کے لیے کیسے بات کرنی چاہیے۔ چوں کہ حدیث پاک میں غور و فکر اور مسائل کا اخذ کرنے سے سونے کی نوبت ہی نہیں آئی، لہٰذا میرا وضو باقی تھا، اس لیے نئے وضو کی ضرورت نہ پڑی، الحمدﷲ! میں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔‘‘

حق تعالیٰ جب کسی کو دین کی سمجھ دیتے ہیں تو اس کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اسے من جانب اﷲ دینی امور میں بصیرت اور مہارت نصیب ہوتی ہے اور وہ دین کے اہم احکام و مسائل لمحوں میں حل کر لیتا اور سمجھ لیتا ہے ، اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی۔

٭ چوتھی علامت: اﷲ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی کامل پابند رہنا ہے، بلاشبہ! عبادت و اطاعت بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے، لیکن کمال یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کی پابندی اور عبادت پر استقامت نصیب ہو جائے، حق تعالیٰ کو وہی عبادت اور عمل پسند ہے جس پر مداومت اور پابندی کی جائے، یہ عظیم نعمت ہے۔

اﷲ تعالیٰ یہ نعمت ہم سب کو نصیب فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دین کی سمجھ امام شافعی امام مالک حق تعالی کہ دنیا میں تو کی طرف

پڑھیں:

پاک بھارت جنگ میں کامیابی اور بہترین سفارتکاری سے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر!!

 پاکستان نے بدلتی ہوئی عالمی سیاسی تبدیلیوں میں اپنی سفارتکاری سے خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ عسکری، اقتصادی اور پبلک ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان نہ صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ بلکہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’’ بدلتی دنیا میں پاکستان کی سفارتکاری اور اس کے اثرات‘‘ کے موضوع ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور کارجہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ریئر ایڈمرل (ر)سید فیصل علی شاہ

( دفاعی تجزیہ نگار)

پاکستان کہ لیے یہ اہم اور موزوں وقت ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے اور ملکی کی عالمی ساکھ کو مزید بہتر کیا جائے۔ روس، یوکرین جنگ ، غزہ تنازعہ، ایران، اسرائیل جنگ اور اب پاک بھارت جنگ، ان سب میں ایک چیز واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ طاقت کے بلبوتے پر من مانی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔

اسی سوچ کے ساتھ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسے منہ توڑ جواب ملا جس سے اس کا طاقت کا نشہ ہرن ہوگیا اور پاکستان عالمی افق پر ایک بار بھر طاقتور ملک کے طور پر سامنے آیا۔ اس کامیابی کے بعد اب دنیا نہ صرف ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے بلکہ تجارت بھی چاہتی ہے۔ مختلف ممالک اب ملٹری ڈپلومیسی میں بھی ہاتھ آگے بڑھا رہے ہیں اور ہماری اہم شخصیات سے مل رہے ہیں۔ بدلتی دنیا میں مجموعی طور پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہوئی ہے اور یہ سفارتکاری اور سفارتکاروں کیلئے نادر موقع ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں دنیا سے وہ سب حاصل کرنا چاہیے جس سے پاکستان اور پاکستانی عوام، دونوں کو فائدہ پہنچے۔

جمیل احمد خان

(سینئر سفارتکار)

دور حاضر کے سیاسی منظر نامے ہر روز نئے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ہی خارجہ پالیسی کو استوار کیا جاتا ہے، اس میں تبدیلی لائی جاتی ہے یا نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ پاکستان ن ے گزشتہ دنوں انتہائی موثر، کامیاب اور متحرک سفارتکاری کی ہے جس میں سول ملٹری قیادت کی سفارتکاری کا کردار قابل تعریف ہے۔ یہ اسی سفارتکاری کا ثمر ہے کہ ہمارے امریکا کے ساتھ دوبارہ سے تعلقات استوار ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی چین بھی ہماری سفارتی کاوشوں سے مطمئن نظر آتا ہے ۔

اس وقت ہماری عالمی ساکھ کی وجہ سے سفارتکاری کے لیے سازگار ماحول ہے لہٰذا اس سے دیرپا کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سول ملٹری سفارتکاری اور رابطوں میں ٹریڈ ڈپلومیسی کو بھی شامل کیا جائے۔ ہر سفارتخانے اور سفیر کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ اپنے میزبان ممالک میں ارباب اختیار، بزنس کمیونٹی و دیگر اہم حلقوں اور عوام کو انگیج کریں۔ وہاں خصوصی سمینارز اور سمپوزیمز کا انعقاد کیا جائے جن میں پاکستان کا موقف ان تک پہنچایا جائے، اس سے پاکستان کی ساکھ مزید بہتر ہوگی اور اگر آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا کسی بھی کونسل میں پاکستان متعلق کوئی قرار دادآتی ہے تو اس میں زیادہ حمایت مل سکے گی۔

 ڈاکٹر سلمی ملک

(ایسوسی ایٹ پروفیسر،ڈیفنس اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد)

بدلتی دنیا میں جب ہم پاکستان کی سفارتکاری کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی مختلف جہتیں ہیں۔ ایک پہلے سے باضابطہ ٹریک ون ڈپلومیسی ہے جو ابھی تک موثر ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پھر پبلک ڈپلومیسی سمیت مختلف ٹریکس ہیں،فوڈ سکیورٹی و دیگر چیزیں اس کا حصہ بنتی ہیں اور کسی بھی ملک کی سافٹ پاور کو پروجیکٹ کرتی ہیں۔ ہم نے دیکھاکہ چین نے دنیا میں اپنا سافٹ امیج بنایا اور ایک طاقت کے طور پر ابھرا لیکن اب چین ایک فوجی طاقت کے طور پر بھی سامنے آیا ہے حالانکہ یہ طاقت اس کے پاس پہلے سے موجود ہے۔

پاک بھارت جنگ 2025ء کے بعد چین کا ملٹری امیج کھل کر سامنے آیا ہے کہ اس کے پاس جدید انفراسٹرکچر موجود ہے۔ پاکستان نے اس جنگ میں جو کمال مہارت دکھائی اور چینی ٹیکنالوجی کا جو بہترین استعمال کیا ہے، اس سے دنیا میں چین کی دھوم مچ گئی ہے۔ میرے نزدیک سافٹ پاور پروجیکشن، سفارتکاری کی ایک مضبوط جہت ہے، اس کے بغیر دنیا میں لوہا نہیں منوایا جاسکتا لہٰذا بدلتی دنیا میں پاکستان کو ہارڈ اینڈ سافٹ پاور پر مبنی ایک بہترین امتزاج کی ضرورت ہے جو سٹیٹک نہیں بلکہ ڈائنامک ہو۔ موقع کی مناسبت سے سفارتکاری میں اتاڑ چڑھاؤ آتے رہیں گے لیکن اہم یہ ہے کہ دور سمارٹ پاور کا ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔

 اس کے لیے ملک کے اندرونی حالات اور بہترین معاشی پروفائل ناگزیر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے اداروں کی مضبوطی بھی انتہائی اہم ہے۔ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پاکستان نے یہ سیکھا ہے کہ کس طرح ڈیجیٹل ورلڈ مین ڈیجیٹل ڈپلومیسی کو استعمال کرنا ہے اور اپنا موقف دنیا تک پہنچانا ہے۔ یہ سبق ہم نے اپنے مخالف ملک سے سیکھا ہے جس نے ہمیشہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہم درست انفارمیشن کے ذریعے اپنا اور کشمیریوں کا موقف دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں اس وقت ایک جارحانہ پالیسی کی ضرورت ہے لہٰذااس پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں مستقبل کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کے رہنما اصول تیار کرنا ہوں گے۔ ہمیں اس وقت ڈپلومیٹک فرنٹ پر جہاں فوجی برتری حاصل ہوئی ہے ہواں ہمیں اپنی معاشی، معاشرتی، ثقافتی، داخلی معاملات اور اندرونی اتحاد سمیت میڈیا کی طاقت کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے جب یہ تمام چیزیں ایک دوسرے کو سپورٹ کریں لہٰذا ہمیں ایک بہترین امتزاج بنانا ہے اور سمارٹ ڈپلومیسی کے ذریعے سمارٹ پاور کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔

 ڈاکٹر خرم عباس

(ڈائریکٹر انڈیا سٹڈی سینٹر، انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز اسلام آباد)

 بدلتی دنیا میں پاکستان کی سفارت کاری اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا بدل کیسے رہی ہے۔ دنیا میں اس وقت ٹرینڈز تبدیل ہورہے ہیں جن میں سب سے بڑا ٹرینڈ سپر پاور کا نظریہ اور unipolartity ہے۔ امریکا کی طاقت آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے اور نئے پاور ہاؤسز ابھر رہے ہیں جن میں روس اہم ہے۔ چین نے بھی خود کو دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر منوایا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ مزید طاقتیں ہیں جو علاقائی سطح پر ہیں، ان کی معاشی حالت بھی بہتر ہوئی ہے۔ اس سب کی وجہ سے اب گلوبل آرڈر تبدیل ہو رہا ہے جس میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کا چیمپئن کون ہے تاہم نئے گلوبل آرڈر کے تناظر میں عالمی سطح پر امریکا اور چین کا شدید مقابلہ ہوگا۔ گلوبل آرڈر کی تبدیلی میں بڑے چیلنجز بھی سامنے آتے ہیں۔ جب کسی طاقت کی رٹ کم ہوتی ہے، نئی طاقتیں ابھر رہی ہوتی ہیں تو پھر دنیا میں تنازعات جنم لیتے ہیں۔

اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال ہے، ممالک کی پالیسی جارحانہ ہو گئی ہے اور ہر طرف تنازعات نظر آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل نے غزہ، فلسطین، شام، لبنان اور ایران پر حملے کیے۔ اسی طرح بھارت نے میانمار میں ڈرون سٹرائک کی اور پھر پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ روس اور یوکرین کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسی صورتحال میں ممالک کیلئے سفارتکاری بڑا چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ معیشت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا معاشی ماحول بھی بدل گیا ہے، اب عالمی اداروں کے قوانین اور ضوابط بھی چیلنج کیے جا رہے ہیں، اب ممالک اپنے قوانین دنیا پر عائد کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں جس کی واضح مثال امریکا ہے۔ ان چیلنجز میں سب سے ضروری اپنے ملکی مفادات کا تحفظ ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی، معاشی، سکیورٹی اور سٹرٹیجک معاملات کو بائی لیٹریل اور ملٹی لیٹرل فورمز، سب پر لے کر چلنا ہے۔

میرے نزدیک پاکستان کیلئے امریکا اور چین کا ٹکراؤ بڑا چیلنج ہوگا جس کے براہ راست اثرات ہم پر پڑیں گے۔ تاریخی اعتبار سے سکیورٹی اور معاشی حوالے سے پاکستان کا انحصار امریکہ پر رہا ہے لیکن گزشتہ تین، چار دہائیوں میں اس میںشفٹ آیا ہے جس کے بعد ہمارا انحصار اب چین پر بھی ہے۔ پاک چین تعلقات معاشی بھی ہیں اور سکیورٹی کے حوالے سے بھی۔ پاکستان کیلئے امریکا اور چین دونوں ممالک اہم ہیں لہٰذا پاکستان یہ کوشش کر رہا ہے کہ دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرے۔ پاکستان کو سفارتی حوالے سے ایک اور بڑے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کے امریکا، چین، روس، عرب و دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اس کے باوجود پاکستان کیلئے ان ممالک کے ساتھ اسرائیل اور بھارت کے تناظر میں سفارتی تعلقات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا دوٹوک اور واضح موقف ہے۔

پاکستان فلسطین کا حمایتی ہے لہٰذا جب مشرق وسطیٰ میں جب کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کا نہ صرف معاشی بوجھ پڑتا ہے بلکہ ہمیں سفارتی محاذ پر بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عالمی سطح سے بھی پریشر آتا ہے۔ ان تمام چیلنجز میں ہمیں پاکستان کی سفارتکاری کو بہترین آنداز میں آگے لے کر جانا ہے۔ بدلتی دنیا میں پاکستان کی سفارتکاری اور اس کے اثرات کا موضوع عالمی سیاست میں تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات، طاقت کے مراکز کی ازسرنو ترتیب اور ابھرتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی چیلنجز کے تناظر میں پاکستان کی سفارتکاری کو نئی حکمت عملی، وژن اور فعالیت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا پڑا ہے۔ جہاں سرد جنگ کے بعد یک قطبی دنیا کا تصور غالب رہا، وہیں آج دنیا ایک بار پھر کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں چین، روس، یورپی یونین اور ابھرتی ہوئی معیشتیں اپنا کردار بڑھا رہی ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بڑا ستون علاقائی و عالمی طاقتوں کے ساتھ توازن قائم رکھنا رہا ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات، جو کبھی اسٹرٹیجک الائنس کی سطح پر تھے، اب ایک زیادہ پریگمیٹک اور محدود تعاون کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس کے برعکس چین کے ساتھ تعلقات ’’آل ویدر فرینڈ شپ‘‘ سے بڑھ کر اکنامک، ٹیکنالوجیکل، اور اسٹرٹیجک تعاون میں گہرائی اختیار کر چکے ہیں، جس کی بڑی مثال چین،پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔

پاکستان نے مسلم دنیا میں اتحاد و ہم آہنگی کے لیے بھی کوششیں کیں، چاہے وہ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا ہو یا افغانستان کے استحکام کے لیے سفارتی کوششیں ۔ سعودی عرب، ترکی، ایران اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوششیں پاکستان کی سفارتکاری کی کامیابیوں میں شامل ہیں۔ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔ بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد پاکستان نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو جارحانہ انداز میں اٹھایا جس سے اقوام متحدہ، یورپی پارلیمنٹ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں اس معاملے پر بحث ہوئی تاہم، بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کشیدگی بدستور قائم ہے، جس سے علاقائی استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔

سلمان جاوید

(ڈائریکٹر، ساؤتھ ایشاء ٹائمز)

 بھارت نے گزشتہ 25 برسوں میں یہ کوشش کی کہ بھارت کو ایک الگ حیثیت میں بڑی طاقت کے طور پر دیکھا جائے، پاک بھارت تناظر میں نہیں لیکن حالیہ جنگ کے بعد اس کی تمام کوششیں بیکار گئی ہیں اورآپریشن معرکہ حق کے بعد پاکستان کی عالمی ساکھ سب کے سامنے ہے۔ چین اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات زیادہ بہتر ہوگئے ہیں۔ پاکستان بھارت کے ایک بڑے مدمقابل کے طور پر سامنے آیا ہے خاص طور پر دفاعی لحاظ سے ہم نے بھارت کو شکست دی ہے جو ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔ یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ خود بھارت کے اپنے لوگ، چینی، روسی اور یورپی مبصرین بھی یہی بات کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان عالم اسلام میں ایک مرتبہ پھر طاقتور مسلم ملک کے طور پر ابھرا ہے۔

اس کے بعد سے غزہ کے مسلمانوں جو بدترین مظالم کا شکار ہیں اور مایوس ہوچکے تھے، ان میں امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کی صورت میں ایک ایسا ملک موجود ہے جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کو زبردست جواب دینے اور اس کے مزموم عزائم خاک میں ملانے کے بعد ہمارے معاشی حالات بہتر ہوئے اوریہاں سرمایہ کاری بھی آنا شروع ہوگئی ہے۔دنیا میں ہمارا سفارتی امیج بہتر ہوا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ، وزراء اور دیگر اہم شخصیات بیرون ممالک کے دورے کر رہی ہیں۔

یہ ایک سرپرائزنگ فیکٹر ہے کہ اہم شخصیات اور سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کی جا رہی ہیں جس کا بہت فائدہ ہوا ہے، سابق ادوار میں اس طرح کی سفارتکاتی نہیں ہوسکی، اب اسے مزید فروغ دینا چاہیے۔ ہمارا پبلک ڈپلومیسی کا شعبہ ابھی کمزور ہے۔ پاکستان کو ٹریک ٹو اور تھری کے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں عالمی سطح پر عوامی رائے سازی پر کام کرنا ہے اور جو پاکستانی دنیا میں رہتے ہیں، ان کے ذریعے سفارتکاری کرنا ہوگی۔ 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کھجور پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا
  • زائرین کیلئے زمینی راستوں کی بندش، ایم ڈبلیو ایم نے 6 اگست کو مارچ کا اعلان کر دیا
  • چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل
  • اہل بلوچستان زائرین کا استقبال کرینگے، حب بار ایسوسی ایشن
  • پاک بھارت جنگ میں کامیابی اور بہترین سفارتکاری سے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر!!
  • آرٹیفشل انٹیلی جنس میں ترقی،دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
  • ترکیہ کا جنگی’’ کتا‘‘ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا
  • کیا غزہ میں جاری جرائم کی مذمت کافی ہے؟
  • فواد خان کی گلوکاری کی دنیا میں شاندار واپسی
  • صلیبی جنگوںکا تسلسل