Express News:
2025-06-18@11:34:51 GMT

خیرِ کثیر کی چار علامات

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

حق تعالیٰ جسے خیرِ کثیر یعنی دین کی سمجھ سے نوازتا ہے، تو علمائِ محققین نے اس کی چار علامتیں بیان فرمائی ہیں، وہ جس میں پائی جائیں تو سمجھ لیجیے کہ اسے دین کی سمجھ نصیب ہوگئی۔

٭ پہلی علامت: دنیا میں زہد و قناعت یعنی حلال اور جائز کوشش سے بہ قدرِ ضرورت جو کچھ مل جائے اس پر راضی رہے، مزید دنیا کی رغبت نہ رکھے، یا دنیا کو ضرورت کے درجے میں رکھے، مقصد نہ بنائے ، کہ دنیا ہاتھ میں تو ہو، دل میں نہ ہو، اور دنیا میں ایسے رہے جیسے کشتی پانی میں، خود دنیا میں ر ہے، لیکن دنیا کو اپنے دل میں ہرگز نہ رکھے، یہ حال تھا حضرات صحابہؓ اور صلحاءؒ کا، حتیٰ کہ ان میں بعض کا حال تو یہ تھا کہ دنیا اپنی ساری دولت و زینت سمیت ان کے قدموں میں آئی، مگر وہ اس کی طرف دل سے متوجہ نہ ہوئے ، ان کی شان بڑی نرالی تھی۔

ایک حیرت انگیز واقعہ :

حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت سعید بن عامرؓ کو حمص کا امیر (گورنر) بنایا۔ ایک عرصے کے بعد اہلِ حمص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان سے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ’’اپنے علاقے کے فقراء اور ضرورت مندوں کے نام لکھ کر دو، تاکہ ہم ان کی مدد کر سکیں۔‘‘

انہوں نے فقرائِ حمص کی فہرست پیش کی، تو ان میں ایک نام حضرت سعید بن عامرؓ کا بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے ازراہِ تعجب دریافت کیا: ’’یہ سعید بن عامرؓ کون ہیں؟‘‘ انہوں نے بتایا: ہمارا امیر۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ’’تمہارا امیر فقیر ہے؟‘‘ انہیں بتایا گیا: جی ہاں، اﷲ کی قسم ! کئی کئی دن گزر جاتے ہیں، مگر ان کے گھر میں آگ تک نہیں جلتی۔

حضرت عمر ؓ یہ سن کر رونے لگے اور وفد کے ساتھ ایک ہزار دینار سعید بن عامرؓ کے لیے بھیجے، جب وہ دینار سعید بن عامرؓ کو ملے، تو ایک دم اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھنے لگے۔ بیوی نے کہا: کیا بات ہے ؟ کیا امیر المومنین انتقال کر گئے ؟ سعید بن عامرؓ نے کہا: معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ دنیا میرے پاس آنے لگی، فتنہ میرے پاس آنے لگا۔ بیوی نے کہا: اس کا حل موجود ہے کہ راہِ الٰہی میں تقسیم کر دیجیے۔ چناں چہ اسی وقت ساری رقم مستحقین میں تقسیم کر دی گئی۔ (اسد الغابۃ)

مولانا انعام الحسن ؒ فرماتے تھے: ’’ضروریاتِ زندگی میں کم از کم پر گزر کرنا زہد فی الدنیا ہے اور ضروریات کو بالکل ترک کر دینا رہبانیت ہے۔ (اسلام میں اس کی ممانعت ہے ) اور اسی میں پورا مشغول ہو جانا حبِ دنیا ہے۔‘‘

زہد فی الدنیا مطلوب ہے، ترکِ دنیا ممنوع ہے۔

٭ دوسری علامت: دین کی سمجھ ملنے کے بعد جب دنیا کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ، تو پھر ساری خواہشیں اور رغبتیں آخرت کے لیے ہو جاتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ اپنی امت کی رغبت آخرت کی طرف کرنے کے لیے فرماتے، مفہوم:

’’حقیقی عیش تو آخرت کا ہی ہے۔‘‘

آپ ﷺ چاہتے تھے کہ امت کی ساری رغبت آخرت کی طرف ہو جائے ، تاکہ دنیا کے فتنے سے بچ جائے اور جسے دین کی سمجھ ملتی ہے اس کی دوسری علامت یہی ہے کہ اس کی رغبت آخرت کی طرف ہو جاتی ہیں، دنیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رہتی۔

٭ تیسری علامت: حق تعالیٰ جسے دین کی سمجھ دیتے ہیں اسے دینی امور کی بصیرت و مہارت عطا فرماتے ہیں، سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اسے دین کا علم عطا فرماتے ہیں اور جسے دین کا علم مل گیا اسے بہت بڑی دولت مل گئی۔

ایک سبق آموز واقعہ:

امام شافعیؒ امام مالکؒ کے مایۂ ناز شاگرد ہیں۔ ایک مرتبہ جب مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تو استادِ محترم نے ان کی دعوت کی۔ امام مالکؒ نے گھر والوں سے کہا کہ آج بہت بڑے عالم اور فقیہ کی دعوت ہمارے یہاں ہے، لہٰذا خصوصی طور پر اہتمام کیا جائے۔ چناں چہ گھر میں کھانے کا بڑا اہتمام کیا گیا، ان کے آرام کے لیے بستر لگایا، نماز کے لیے وضو کے پانی کا لوٹا بھر کر رکھا، مصلیٰ بچھایا۔ جب امام شافعیؒ دعوت کے لیے تشریف لائے تو خوب کھایا، حتیٰ کہ جتنا تھا سب ختم کردیا، پھر رات بھر لیٹے رہے، وضو کیا، نہ نماز پڑھی۔ صبح گھر والوں نے امام مالک ؒ سے کہا: آپ تو کہہ رہے تھے کہ آنے والے مہمان بڑے عالم، امام اور فقیہ ہیں، لیکن ہمیں تو ان کے طرزِ عمل سے ایسا نہیں لگا، بل کہ اشکال واقع ہُوا، اوّل تو ہم نے جتنا کھانا بھیجا تھا وہ ایک سے زیادہ افراد کے لیے کافی تھا، آپ کے مہمان اور شاگرد نے تو اتنا کھایا کہ برتن بالکل صاف ہو کر واپس آئے، ہمیں تو دھونے کی بھی ضرورت پیش نہ آئی، دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے لیے پانی کا برتن اور مصلیٰ بچھا کر رکھا تھا کہ علم والے اور اﷲ والے تہجد گزار ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں تہجد کے وقت کوئی دقت پیش نہ آئے، لیکن جیسا مصلیٰ بچھایا تھا صبح کو ویسا ہی رکھا ملا، اور پانی بھی جوں کا توں تھا، لگتا ہے کہ تہجد کی نماز بھی نہیں پڑھی، اور پھر مسجد میں تو وضو کا انتظام بھی نہیں، لوگ گھروں سے وضو کرکے جاتے ہیں اور یہ آپ کے مہمان اور شاگرد اسی طرح آپ کے ساتھ اٹھ کر مسجد چلے گئے، پتا نہیں انہوں نے نماز کیسے پڑھی؟ امام مالک ؒ کی بیٹیاں اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگیں: ابو! مہمان کا معاملہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔

امام مالک ؒ نے اپنے شاگردِ رشید حضرت امام شافعی ؒ سے بچیوں کا اعتراض نقل کرکے فرمایا: ’’محمد بن ادریس ! کیا واقعی تمہارا حال ایسا ہی ہوگیا جیسے سمجھا گیا؟ ‘‘ اس پر امام شافعی ؒ نے بڑے ادب سے عرض کیا: ’’حضرت! بات یہ ہے کہ جب آپ نے کھانا پیش کیا تو اس پاکیزہ اور بابرکت کھانے میں میں نے بہت ہی زیادہ نُور کے اثرات محسوس کیے، تو سوچا کہ ممکن ہے اتنا حلال مال اور پُرنور کھانا زندگی میں پھر میسر ہو نہ ہو، آج موقع ہے کہ سارا کھانا کھاکر اسے جزوِ بدن بنالوں! اس لیے میں نے سارا کھا نا ختم کر دیا، پھر میں لیٹ گیا، لیکن اس کھانے کا اتنا اثر ہُوا کہ نیند غائب ہوگئی، کیوں کہ نورانی اور پاکیزہ کھانا تھا، اس کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ میں لیٹے لیٹے احادیث ِنبویؐ میں سے ایک حدیث شریف میں غور کرتا رہا، جس میں حضورؐنے ایک چھوٹے بچے حضرت انسؓ کے بھائی کو جس کا پرندہ مرگیا تھا پیار سے فرمایا تھا کہ یَا أَبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ النُّغَیْر! (متفق علیہ) حضرت! حدیث کے ان چند الفاظ میں آج کی رات غور کرتا رہا، تو الحمدﷲ! فقہ کے چالیس مسائل اخذ کر لیے کہ کنیت کیسی ہونی چاہیے ؟ بچوں سے اندازِ تخاطب کیسا ہونا چاہیے؟ بچے کے دل کی ملاطفت کے لیے کیسے بات کرنی چاہیے۔ چوں کہ حدیث پاک میں غور و فکر اور مسائل کا اخذ کرنے سے سونے کی نوبت ہی نہیں آئی، لہٰذا میرا وضو باقی تھا، اس لیے نئے وضو کی ضرورت نہ پڑی، الحمدﷲ! میں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔‘‘

حق تعالیٰ جب کسی کو دین کی سمجھ دیتے ہیں تو اس کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اسے من جانب اﷲ دینی امور میں بصیرت اور مہارت نصیب ہوتی ہے اور وہ دین کے اہم احکام و مسائل لمحوں میں حل کر لیتا اور سمجھ لیتا ہے ، اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی۔

٭ چوتھی علامت: اﷲ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی کامل پابند رہنا ہے، بلاشبہ! عبادت و اطاعت بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے، لیکن کمال یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کی پابندی اور عبادت پر استقامت نصیب ہو جائے، حق تعالیٰ کو وہی عبادت اور عمل پسند ہے جس پر مداومت اور پابندی کی جائے، یہ عظیم نعمت ہے۔

اﷲ تعالیٰ یہ نعمت ہم سب کو نصیب فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دین کی سمجھ امام شافعی امام مالک حق تعالی کہ دنیا میں تو کی طرف

پڑھیں:

حضرت عثمان غنی  ؓپیکرِ ایثار و سخاوت

حضرت عثمان غنیؓ کے حق میں قرآن مجید کی آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں۔ جنگ تبوک کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب مدینہ منورہ میں سخت قحط تھا اور عام مسلمان بہت زیادہ تنگی میں تھے، یہاں تک کہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ اسی لیے اس جنگ کے لشکر کو جیش عُسرہ یعنی تنگ دستی کا لشکر کہا جاتا ہے۔

ترمذی شریف میں حضرت عبد الرحمٰن بن خباّبؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا، جب آپؐ جیش عسُرہ کی مد د کے لیے لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ آپ ﷺ کا پُرجوش خطاب سن کر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں سو اونٹ سامان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں پیش کروں گا۔

اس کے بعد پھر حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سامان لشکر کے بارے میں ترغیب دی اور امداد کے لیے متوجہ فرمایا تو پھر حضرت عثمان غنیؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں دو سو اونٹ مع ساز و سامان اﷲ کی راہ میں نذر کروں گا۔

اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ نے سامان جنگ کی فراہمی کی طرف مسلمانوں کو رغبت دلائی، پھر حضرت عثمان غنی ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں تین سو اونٹ سامان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں حاضر کروں گا۔ حدیث کے راوی حضرت عبد الرحمٰن بن خبابؓ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ منبر سے اُترتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے یعنی ایک ہی جملے کو حضور سید عالم ﷺ نے دو بار فرمایا۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے: ’’اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے۔‘‘

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ آپؓ نے ساز و سامان کے ساتھ ایک ہزار اونٹ اس موقع پر پیش کیے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ بن سمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی ؓ جیش عُسرہ کی تیاری کے زمانے میں ایک ہزار دینار اپنے کُرتے کی آستین میں بھر کر لائے (دینا ر ساڑھے چار ماشے سونے کا سکہ ہوتا ہے) ان دیناروں کو آپؓ نے رسول مقبول ﷺ کی گود میں ڈال دیا۔

راوی حدیث حضرت عبدالرحمٰنؓ بن سمرہ فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ان دیناروں کو اپنی گود میں اُلٹ پلٹ کر دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ’’آج کے بعد عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ سرکار اقدس ﷺ نے ان کے بارے میں اس جملے کو دوبارہ فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ فرض کرلیا جائے کہ اگر حضرت عثمان غنیؓ سے کوئی خطا واقع ہوتو آج کا ان کا یہ عمل ان کی خطا کے لیے کفارہ بن جائے گا۔(مشکوٰۃ شریف)

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ جب حضرت عثمان غنیؓ نے جیش عُسرہ کی اس طرح مد د فرمائی کہ ایک ہزار اونٹ ساز و سامان کے ساتھ پیش فرمائے اور ایک ہزار دینار بھی چندہ دیا۔ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے صدقہ کے چار ہزار درہم بارگاہ رسالت ﷺ میں پیش کیے تو ان دونوں حضرات کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، مفہوم:

’’جو لوگ کہ اپنے مال کو اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پھر دینے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں، تو ان کا اجر و ثواب ان کے رب کے پاس ہے، اور نہ ان پر کو ئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں کانگو وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ
  • اسرائیل کا تہران میں امام حسین یونیورسٹی پر حملہ، سینٹری فیوج پروڈکشن سائٹ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
  • امام رضاؑ کا حرم مُبارک امت مسلمہ کیلئے مقدس اور ہماری ریڈ لائن ہے، آئی ایس او
  • کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر کی غیرقانونی اجازت پر ایس بی سی اے افسران سمیت 18ملزمان کے وارنٹ گرفتاری
  • ویلنشیاء ٹاون لاہور میں سربمہر کی گئی امام بارگاہ کھول دی گئی
  • حضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ
  • کوئٹہ، شیعہ علماء کونسل کیجانب سے "امام حسین (ع) امن کانفرنس" منعقد
  • مشہد مقدس پر اسرائیل کا حملہ ناکام، حرم امام رضا علیہ السلام مکمل محفوظ
  • حضرت عثمان غنی  ؓپیکرِ ایثار و سخاوت
  • پاراچنار میں دستر خوان غدیر کا اہتمام