جھوٹے الزامات کی سیاست کب تک؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
سربراہ تحریک تحفظ آئین پاکستان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اگر آج کہہ دے کہ شہباز شریف میرا بھائی، میرا یار اور اسپیکر قومی اسمبلی میرا کلاس فیلو اور میں تین سال انھیں نہیں چھیڑوں گا تو ان پر موجودہ مقدمات اور سزائیں نہیں رہیں گی اور وہ اور ان کی اہلیہ شہزادے کی طرح باہر نکل آئیں گے۔
بلوچستان میں صرف ایک نشست کے حامل محمود خان کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ ماضی میں جن سیاستدانوں پر بھرے جلسوں میں جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے وہ عدالتوں میں ثابت نہیں ہوئے، اس لیے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو پہلے وہ الزامات واپس لینے اور معافی مانگنی چاہیے۔
سیاستدان تو ویسے بھی آپس میں بھائی اور یار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ذاتی دشمن نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاست میں ایک دوسرے سے ذاتی دشمنی ہوتی ہے اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے ملک میں ایک دوسرے پر تنقید، الزامات اور جھوٹے بیانات معمول رہے ہیں۔
1990 کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین ایک دوسرے پر تنقید کے علاوہ کرپشن کے الزامات لگاتے رہے جس کی وجہ سے دونوں کی حکومتیں برطرف ہوئیں اور دونوں نے ہی ایک دوسرے کی حکومت ختم کرانے کی تحریکیں چلائیں اور سیاسی مخالفت میں آمروں کا ساتھ دیتے رہے مگرگیارہ سال جب ان جھوٹے الزامات میں دونوں اقتدار سے نکالے گئے اور جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا اور دونوں پر سنگین الزامات لگا کر دونوں کی سیاست ختم کرنے کی کوشش کی تھی تو دونوں کو اپنی سیاسی غلطیوں اور حکومتوں میں رہ کر انھیں گرفتار کرانے اور غلط مقدمات بنوانے کا احساس ہوا تھا تو دونوں نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا اور 2008 اور 2013 میں اقتدار میں آ کر دونوں بڑی اور دو دو بار اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں نے میثاق جمہوریت پر عمل کر کے پہلی بار اپنی مدت اقتدار مکمل کی تھی اور 2008 میں دونوں نے مل کر جنرل پرویز کو صدارت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور دونوں پارٹیاں اپنی مخالف حکومتوں پر سیاسی تنقید بھی کرتی رہیں جو دونوں کی سیاسی مجبوری تھی،کیونکہ دونوں پارٹیوں کے منشور اور نظریات بھی مختلف تھے اور دونوں نے جنرل پرویزکے اقتدار میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا تھا اور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ بہن بھائی جیسا رہا تھا اور صدر آصف زرداری جب رائیونڈ نواز شریف کی دعوت پر آئے تھے تو دونوں نے ہی ملکی مفاد کے لیے سیاسی مخالفت کو ایک حد تک محدود رکھنے بلکہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف نے دونوں رہنماؤں کی اولادوں مریم نواز اور بلاول بھٹو کی مستقبل کی سیاست سے متعلق اچھے خیالات کا خیال کیا اور دونوں پارٹیوں نے دس سالہ حکومتوں میں تعمیری سیاست جاری رکھ کر مثبت پیغام دیا تھا۔
لیگی رہنماؤں نے حکومتوں میں رہتے ہوئے، صدر زرداری کے خلاف سخت زبان بھی استعمال کی تھی جس پر معذرت بھی کی گئی تھی۔ صدر زرداری کی سیاست زیادہ تر تعمیری اور مخالفت ایک حد تک رہی اور آصف زرداری اور نواز شریف نے ایک دوسرے کے لیے کبھی ملک لوٹنے کے مبینہ الزامات لگائے نہ مقدمات میں گرفتاریاں کرائیں۔ ان دونوں کے برعکس سیاست میں نو وارد نے تحریک انصاف بنائی جو 15 سال قابل ذکر نہیں تھی۔ میاں نواز شریف بے نظیر بھٹو کی تعزیت کے لیے نوڈیرو بھی گئے اور جب ایک انتخابی مہم میں بانی تحریک انصاف اسٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تھے تو نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم منسوخ کردی تھی اور ملاقات کے لیے وہ ان کے پاس بھی گئے تھے۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان بے نظیر کے بعد بھی اچھے تعلقات رہے دونوں نے ایک حد تک ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت بھی کی مگر اپنی سیاست کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیا تھا۔ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کی حکومتوں کو برداشت کیا اور پی ڈی ایم کے ذریعے 2022 میں انھیں مل کر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئینی طور منظورکرانا پڑی جس کی ذمے داری اس وقت کے وزیر اعظم پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے پی پی اور (ن) لیگ کی سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی میں بدل کر دونوں پارٹیوں کی قیادت گرفتار کرائی تھی۔ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں نہ صرف گرفتارکرایا اور دونوں کے رہنماؤں سے اسیری میں غیر انسانی سلوک کیا تھا اور برسوں سے اب تک دونوں پارٹیوں کی قیادت کو کرپٹ قرار دیتے آ رہے ہیں جن پر عدالتوں میں کرپشن کے الزامات ثابت ہوئے نہ انھیں عدالتوں سے سزا ہوئی تھی۔
پی ٹی آئی وزیر اعظم نے اپنے اقتدار میں مولانا فضل الرحمن جیسے قومی رہنما کو بخشا نہ بلوچستان کی محدود سیاست کرنے والے محمود خان اچکزئی کو، اور پھر سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی پر یہ وقت بھی آیا کہ انھوں نے مفاہمت کے لیے دونوں رہنماؤں کے پاس اپنے رہنما بھیجے لیکن اخلاقی طور پر اپنے سابقہ رویے پر کوئی معذرت نہیں کی۔
محمود اچکزئی نے بانی پی ٹی آئی کی حمایت اس لیے شروع کر رکھی ہے کہ موجودہ حکومتی پارٹیوں نے انھیں اہمیت نہیں دی جس پر وہ آج جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ غلط ہے، انھیں پتا ہے کہ بانی کیوں جیل میں ہیں اور انھوں نے مذاکراتی کمیٹی میں محمود خان کو شامل نہیں کیا تھا۔
محمود خان کو پتا ہے کہ بانی نے طے کر رکھا ہے کہ حکومت کو چلنے نہیں دینا، احتجاج جاری رکھنا ہے تاکہ انھیں رہائی مل سکے۔ بانی نے اپنے الزامات واپس نہیں لینے، اس طرح ان کی سیاست متاثر ہوگی کیونکہ جھوٹے الزامات لگا کر انھوں نے اپنی سیاست چمکائی اور جھوٹے الزامات لگائے تھے جو اب تک الزامات ہی ہیں۔ محمود خان کو بانی سے مل کر انھیں کہنا چاہیے کہ وہ شہباز شریف کو بلا شک بھائی نہ کہیں مگر اپنے عائد کردہ جھوٹے الزامات پر اپنے تمام مخالفین سے معذرت کریں اور ان سمیت سب کو ملکی مفاد کے لیے مفاہمتی سیاست شروع کرنی چاہیے، جھوٹے الزامات کی سیاست کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں پارٹیوں سیاسی مخالفت محمود خان کو پارٹیوں نے ایک دوسرے اور دونوں نواز شریف پی ٹی آئی کی سیاست تھا اور کیا تھا کے لیے
پڑھیں:
رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں
صدیاں گزرگئیں ہزاروں موسم بیت چکے،کئی سماجی،تہذہبی اور سیاسی انقلابات آئے لیکن شاعر انسانیت حضرت عبدالرحمان بابا کے فکر کا جو سوتا سماجی حقیقت نگاری،تاریخی وتہذیبی شعور،ادراک،جذبات اور احساسات سے پھوٹا تھا وہ آج بھی اسی طرح صاف وشفاف شکل میں بہہ رہا ہے۔
اگر چہ اس طویل عرصے میں ہزارہا تاریخی،معاشرتی،سیاسی،ادبی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوئیں زمانے نے کئی کروٹیں بدلیں اور دنیا کیا سے کیا ہوگئی لیکن کوئی انقلاب کوئی بھی تہذیب و سیاست رحمان بابا کے کلام کی اپنی جو خاصیت،انفرادیت،اہمیت اور ضرورت ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکی بلکہ یہ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے تو وقت و حالات کے ساتھ رحمان بابا ایک حقیقی اور سچے کلاسیک شاعر کے طور پر نئے نئے رنگ اور نئی نئی شکل میں سامنے مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔
ان کے افکار ہمیں محبت،امن،دوستی بھائی چارے،رواداری اور انصاف کی شاہراہوں پر برابر آگے کی طرف بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور مسلسل جدوجہد کی تحریک دیتے ہیں۔ رحمان بابا کی شاعری میں جو دل موہ لینے والی شاعرانہ کشش اور کیفیت پائی جاتی ہے اس نے آج ایک دنیا کو اپنا اسیر اور گرویدہ بنایا ہوا ہے۔اور یہی ان کے کلام کا سب سے بڑا اعجاز ہے جیسا کہ وہ خود اپنی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
چہ منکر پرے اعتراض کولے نہ شی
دا دے شعر رحمانہ کہ اعجاز
مفہوم۔جب کوئی منکر بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا، اے رحمان! آپ کا شعر ہے یا کہ اعجاز(معجزہ)۔اور یہ معجزہ وہ جو خون جگر سے نمود پاتا ہے جس کا ذکر علامہ اقبال نے بھی کیا ہے کہ’’معجزہ فن کی ہے، خون جگر سے نمود‘‘۔رحمان بابا جنہیں شاعر انسانیت اور پشتو کا حافظ شیرازی کہا جاتا ہ، اپنے مخلصانہ، عارفانہ اور عشقیہ کلام کی بدولت عام و خاص بچوں بوڑھوں اور خواتین میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے ہیں۔
جو عقیدت و حترام اور ادبی اعتبار کا رشتہ پختونوں کا رحمن بابا سے قائم ہے وہ رشتہ اور اعتماد اپنے کسی دوسرے شاعر سے نہیں رکھتے۔ رحمان بابا کے ساتھ پختونوں کی عقیدت ،دل و دماغ اور جذبات کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ جہاں بھی کوئی سبق آموز اور مقصدیت سے بھرا ہوا شعر انہیں کسی دوسرے نامعلوم شاعر کا ملتا ہے بالعموم اسے بھی رحمان بابا کا سمجھ لیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں رحمان بابا سے بڑھ کر کوئی دوسرا شاعر اتنی سچائی اور حقیقت بیان نہیں کرسکتا جتنی سچائی اور حقیقت نگاری رحمان بابا کی شاعری میں موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عورتیں گھروں ،تندوروںکے کنارے کسان کھیتوں کلیانوں،صوفیا و درویش مزاروں اور خانقاہوں میں سیات دان اسٹیج پر مولوی، واعظ مسجد کے منبر سے اور گوئیے موسیقی اور محفل سماع میں رحمان بابا کے اشعار سے خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لطف پہنچاتے ہیں۔ان کی شاعرانہ عظمت،تخلیقیت،صداقت بیانی اور سبق آموزی کے حوالے سے سوات کے مشہور ولی اللہ اخون کہا کرتے تھے کہ قرآن و حدیث کے بعد پختونوں میں کوئی دوسری کتاب اتنی مقبول و معتبر نہیں جتنی مقبولیت،شہرت،قبولیت اور اعتبار رحمان بابا کے دیوان کو حاصل ہے۔ وہ خود بھی اپنے ایک شعر میں اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ
دا چہ زہ ئے درتہ وایمہ کہ خدائے کڑہ
پہ قرآن او پہ حدیث کے بہ سرگند وی
یعنی میں جو کچھ کہتا ہوں اگر خدا نے چاہا تو قرآن اور حدیث میں بھی یہی باتیں آپ ملیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی پختونوں کے بیشتر گھرانوں میں رحمان بابا کا دیوان تبرک اور ایک مقدس کتاب کے طور پر رکھا جاتا ہے کوئی بھی ایسا پختون جوان ، بوڑھا یا عورت نہیں ہوگی جو اپنے محبوب شاعر انسانیت کے نام اور کام سے واقفیت نہ رکھتا ہو،یا انہیں رحمان بابا کے کچھ اشعار ازبر نہ ہوں۔بات بات پر رحمان بابا کے اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ رحمان بابا وائی(رحمان بابا فرماتے ہیں)،رحمان بابا سہ خہ وئیلی دی(رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے)۔ان کے اشعار اس قدر سادہ،برجستہ،برمحل،تکلف اور پیچدگی سے پاک ہیں کہ پختون انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں ضرب المثل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
رحمان بابا کو پشتو کا حافط شیرازی اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ دونوں کے فکر و فن اور پیغام میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔رحمان بابا نے بھی حافظ شیرازی ہی کی طرح زیادہ تر طبع آزمائی صنف غزل میں کی ہے۔ وہ بھی حافظ شیرازی کی طرح ایک باکمال فنکار،مصورانہ مزاج،غنائی انداز اور بلند تخئیل کے مالک ہیں۔ان کے کلام میں بھی ان کا اپنا ایک مخصوص لب ولہجہ(ڈکشن) ایک منفرد جداگانہ اسلوب،سادہ بیانی،لطافت اور شیرینی بدرجہ اتم موجود ہے۔ میر عبدالصمد خان اپنی کتاب’’رحمان بابا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ رحمان بابا اور حافظ میں ایک اور بات بھی مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں ریاکاری اور منافقت کے سخت خلاف ہیں۔ زاہدان خشک کو دونوں ناپسند کرتے ہیں، حرص و ہوس،بخل ،حسد و بغض وکینہ بے غیرتی بے حیائی اور بے حمیتی کو دونوں ناپسند کرتے اور زندگی کے لیے مہلک گردانتے ہیں۔ زندگی کی اعلیٰ قدریں بھی دونوں نے یکساں لطافت کے ساتھ پیش کی ہیں۔ نکتہ آفرینی کا رنگ ڈھنگ بھی دونوں کا ایک سا ہے۔ خوشحال و اقبال کی طرح تندی وتیزی اور پرشور فعالیت دونوں کے ہاں زیادہ نمایاں نہیں، دونوں عاشق مزاج ہیں۔دونوں کے نزدیک حسن لاینفک اور ناقابل تقسیم ہے۔‘‘
اسی طرح انصار ناصری رحمان بابا کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’صدیاں گزرگئیں سینکڑوں انقلاب آئے پشتو کے صاحب دل صوفی رحمان بابا کی لگائی پھلواری آج تک ویسی کی ویسی سرسبز وشاداب اورا س کے بہار پھولوں کی تازگی اور مہک اسی طرح برقرار ہے جیسے اول تھی، بڑے آرٹ کو کبھی فنا نہیں، اس کی سادگی اور سچائی ہی بقاء کی ضامن ہے‘‘۔رحمان بابا کا کلام اس قدر صاف،سیدھا ،ا ٓسان اور ان کا پیام اس قدر سچا پرخلوص اور دل پزیر ہے کہ آرٹ کی تمام تصنع آمیز بلند وبانگ تعریفیں اور اس کے ادلتے بدلتے پُر پیچ معیارات بمشکل اس کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ یہی اس کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ہے۔
رحمان بابا کے کلام کی مقبولیت اور ان کے سچے پیغام کا یہ عالم ہے کہ پشتو کے علاوہ اسے دیگر زبانوں اردو،فارسی اور انگریزی زبان کے ہزاروں لوگ پڑھنا پسند کرتے ہیں،جس کے لیے ان کے مکمل دیوان کے ان زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں ۔ان کی شاعری کا اصل پیغام جملہ انسانیت سے پیار،امن و اشتی،قومی اور مذہبی رواداری اور باہمی اتفاق و یکجہتی پر مبنی ہے۔اس کے علاوہ ناانصافی،غیرمساوی تقسیم اور ظلم و جبر کے سخت ناقد ہیں اور ان قوتوں کے شیدید مخالف ہیں۔لہذا بغیر کسی تردید کے کہا جاسکتا ہے کہ رحمان بابا ہمارے ماضی کا امین اور مستقبل کے ایک سچے رہبر و رہنما ہیں۔ذیل میں ان کے چند اشعار کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے
۔آدمی سے تمام تر مدعا آدمیت ہے نہ یہ کہ اس کے سر پر طرہ ہو۔آدم زاد معنوی طور پر سب ایک صورت کی مانند ہیں جو دوسرے کو آزار پہنچاتا ہے وہ خود بھی آزار ہوجاتا ہے۔
۔تم جن لوگوں کے برابر زور اور قوت نہیں رکھتے ان کے پہلو میں دلیر ہوکر نہ بیٹھ۔زورآور لوگ آگ اور پانی کی مانند ہوا کرتے ہیں یہ بات سمجھ لیں اور دھیان رکھیں کہ کہیں ڈوب یا جل بھن کر کباب نہ ہو جائیں۔
۔میری قناعت میرے خرقے کے اندر پنہاں اطلس ہے۔ میں باطن میں سارے جہاں کا بادشاہ لیکن بظاہر گدا نظر آرہا ہوں۔
۔وہ دل طوفان اور بادوباران سے محفوط رہے گا جو کشتی کی طرح لوگوں کا بار اٹھائے گا۔اپنا پیٹ رسی سے مضبوط باندھ لے مگر فلک سے روٹی کی امید اور توقع نہ رکھ۔
۔اپنی زندہ جان بیچ کی طرح زمین میں دفن کردے اگر تو عظمت چاہتا ہو تو خاکساری اختیار کر۔
۔ سارے وسوسے اور واہمے اختیاط سے پیدا ہوتے ہیں، میں بہت زیادہ ہوشیاری کے سبب دیوانہ ہوگیا ہوں۔
۔ظالم حاکموں کے سبب شہر پشاور آگ اور گورستان تینوں ایک جیسے ہیں۔
۔جو پرندہ صیاد کے پنجرے میں اسیر ہو اس میں اچھے اچھے کھانے پینے سے خون کب بنتا ہے۔
۔سارا وجود ایک ناخن کے درد سے درمند ہوجاتا ہے۔پورا شہر ایک آدمی کے الزام میں ویران ہوجاتا ہے۔