روسی یوکرینی جنگ میں بھارتی ریکروٹس کے ڈرا دینے والے تجربات
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 فروری 2025ء) کشمیر کے ضلع پلوامہ کے رہائشی 32 سالہ آزاد یوسف کمار نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دسمبر 2023 میں بیرون ملک ملازمت کے مواقع کی تلاش میں ایک یوٹیوب چینل پر روس میں منافع بخش سکیورٹی پوزیشنز کا اشتہار دیکھا۔
کمار نے کہا کہ وہ ان وعدوں کے بہکاؤے میں آ گئے اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس کمپنی کو، جو اب بند ہو چکی ہے، سفر اور پروسیسنگ فیس کے طور پر تقریباً 130,000 روپے ادا کیے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ وہ یہ رقم اس لئے ادا کیے کیونکہ گریجویشن کرنے کے باوجود مقامی سطح پر انہیں روزگار نہیں مل رہا تھا۔کمار نے وضاحت کی کہ تب انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ آخر میں روس-یوکرین سرحد پر دیگر درجنوں بھارتیوں کے ساتھ پھنس جائیں گے اور کئی مہینوں تک یوکرین میں روس کی جنگ میں حصہ لیں گے۔
(جاری ہے)
کمار نےبھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی رہائش گاہ سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’میں نے موت کو قریب سے دیکھا، عسکری تربیت کے دوران میں زخمی بھی ہوا۔
‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انہیں جنگ زدہ یوکرینی شہر لوہانسک میں تعینات کیا گیا تو انہیں جنگ کی ہولناک حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اور دیگر ساتھی توپ خانے کی گولہ باری اور لگاتار برستی شیلنگ کے دوران خندقیں کھودنے پر مجبور تھے، اور کئی بار گولے ان کی پوزیشن کے بالکل قریب آ کر گرتے تھے، جس سے ہر لمحہ موت کا خطرہ منڈلاتا رہتا تھا۔
کمار نے بتایا کہ تربیت کے چند ہفتے بعد ناتجربہ کاری کے باعث انہیں گولی لگ گئی، اور وہ دو ہفتے اسپتال میں رہے۔ ’’نو ماہ بعد گھر واپسی کسی معجزے سے کم نہیں تھی، میں بھی ایک بڑے فراڈ کا شکار ہوا، جیسے کئی اور بھارتی نوجوان ہوئے۔‘‘
بھارتی حکومت کے مطابق 126 شہری روسی فوج میں شامل ہوئے، جن میں سے 12 ہلاک، 16 لاپتہ اور 96 وطن واپس آ چکے ہیں۔
وزارت خارجہ نے باقی افراد کی فوراﹰ واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔کمار جیسے کئی نوجوان سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے پرکشش آفرز کے جھانسے میں آ کر جنگ کا حصہ بن گئے۔
زندہ بچ جانے پر شکر گزار
23 سالہ سید الیاس حسینی، جو بھارت کی جنوب مغربی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں، نے اپنے دوستوں عبدالنعیم اور محمد سمیر احمد کے ساتھ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں روس میں منافع بخش سکیورٹی گارڈ کی ملازمتوں کا جھانسہ دیا گیا تھا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں ماہانہ 70,000 سے 100,000 روپے تک تنخواہ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔حسینی نے کہا، ’’میں پہلے دبئی ایئرپورٹ پر ایک کیٹرنگ کمپنی میں ملازم تھا، لیکن پھر واپس بھارت آیا اور اپنے والد سید نواز علی کو روس میں ایک نئی نوکری کے بارے میں بتایا۔‘‘
تاہم، انہوں نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی ملازمت کے بجائے انہیں ایک نجی فوجی کمپنی میں زبردستی بھرتی کر لیا گیا اور نیپال اور کیوبا کے افراد کے ساتھ روس-یوکرین سرحد پر تعینات کر دیا گیا۔
حسینی نے کہا، ’’ہمیں یہ خوف تھا کہ شاید ہم کبھی زندہ واپس نہ آ پائیں، اور جب ہمارے ساتھی، ہیمل منگوکیا جو گجرات کے شہر سورات سے تھے، ایک ڈرون حملے میں خندق کھودتے ہوئے ہلاک ہو گئے، تو مجھے لگا کہ میری باری بھی آ چکی ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ کس طرح پچھلے سال مارچ میں ایک موبائل فون حاصل کر کے، دیگر بھارتی شہریوں کے ہمراہ ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کیا، جس میں انہوں نے اس انتہائی سنگین صورتحال کے بارے میں بتایا جس کا وہ سامنا کر رہے تھے۔
یہ ویڈیو وائرل ہو گئی اور اس کے بعد حکومت اور سیاستدانوں کو ہماری حالت کا احساس ہوا۔ اس کے بعد کئی مہینوں بعد ہمیں ماسکو واپس بھیجا گیا اور ستمبر میں ہم اپنے وطن واپس آ گئے۔جولائی میں، بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے ماسکو کے دو روزہ دورے کے دوران، روس نے وعدہ کیا کہ وہ ان بھارتی شہریوں کو واپس بھیجے گا جنہیں غلط طریقے سے اس کی فوج میں بھرتی کیا گیا تھا اور پھر یوکرین میں فعال جنگی کارروائیوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔
دھوکے سے میدان جنگ میں
بہت سے نوجوانوں نے کہا کہ انہیں جھوٹے وعدوں پر روس بلایا اور وہ محض اس لیے جنگ کے میدان میں پہنچے کیونکہ وہ روزگار کے لیے بے چین تھے اور بھارت میں کم یا بالکل بھی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث بیرون ملک جانے زیادہ بہتر محسوس ہوا۔
تلنگانہ کے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے، محمد سفیان، دسمبر 2023 میں ماسکو کے دوموڈیوو ایئرپورٹ پر پہنچے تو ان کے ساتھ وہی بدقسمتی ہوئی جو دیگر نوجوانوں کے ساتھ بھی ہوئی تھی۔
ان کے دستاویزات ضبط کر لیے گئے اور انہیں ایک نجی فوجی کمپنی میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔سفیان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جنگ کے محاذ پر یہ ایک دہشتناک تجربہ تھا، اور واپس آنے کے بعد بھی مجھے ڈرونز کے بم گراتے، گولیوں کی آوازیں اور لوگوں کی چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔‘‘
انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں یوکرین کے 50 کلومیٹر اندر روسی فوجیوں کے ساتھ ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا، جہاں احتجاج کرنے پر افسران انہیں ڈرا کر خاموش کرنے کے لیے گولی چلاتے تھے۔ ’’یہ ایک معجزہ تھا کہ میں موت سے بچ گیا۔‘‘
ادارتی نوٹ: اس مضمون کے ساتھ شائع کردہ تصاویر انٹرویو دینے والوں نے فراہم کیں۔
ش خ/ج ا (مرلی کرشنن، نئی دہلی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی ڈبلیو انہوں نے کہ انہیں کیا گیا تھا کہ کیا کہ نے کہا
پڑھیں:
جعلی فٹبال ٹیم جاپان پہنچا دینے کا معاملہ، ڈی پورٹ ہونے والے 22 ’کھلاڑی‘ گرفتار
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 22 پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا ہے جو پیشہ ور فٹبالرز کا روپ دھار کر جاپان جانے کی کوشش کر رہے تھے مگر جاپانی امیگریشن حکام نے جعلی سفری دستاویزات پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے انہیں ڈی پورٹ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: فٹ بال ٹیم ظاہر کرکے 17 نوجوانوں کو بیرون ملک بھیجنے والا انسانی اسمگلر گرفتار
یہ تمام افراد فٹبال کٹس میں ملبوس تھے اور دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کے رجسٹرڈ کھلاڑی ہیں اور جاپان میں ایک مقامی فٹبال کلب کے ساتھ میچ کھیلنے جا رہے ہیں۔
جاپانی حکام کی جانب سے تفتیش کے دوران جعلسازی کا انکشاف ہوا جس کے بعد انہیں واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔
ایف آئی اے کے مطابق مرکزی ملزم ملک وقاص کو بھی گوجرانوالہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس نے ’گولڈن فٹبال ٹرائل‘ کے نام سے ایک جعلی فٹبال کلب رجسٹر کرایا ہوا تھا۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں تیار کردہ ماحول دوست فٹبالز آئندہ چیمپئنز لیگ کا حصہ ہوں گی
ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک میں ملوث دیگر سہولت کاروں کی گرفتاری کے لیے مزید تحقیقات جاری ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ وقاص علی کی گرفتاری ملک میں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے۔
ہر ’کھلاڑی‘ نے سہولت کار کو کتنے پیسے دیے؟ایف آئی اے کے گوجرانوالہ تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ منتظم نے ہر شخص سے تقریباً 40 لاکھ روپے وصول کیے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ تمام 22 افراد کو پیشہ ور کھلاڑیوں کی طرح برتاؤ کرنے کی تربیت دی گئی تھی اور انہیں جعلی دستاویزات فراہم کی گئی تھیں۔
یہ ’کارنامہ‘ واقعہ نہیںملزم وقاص نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ اس نے جنوری 2024 میں بھی 17 افراد کو اسی طریقے سے جاپان بھیجا تھا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری، فٹبالر سمیت مزید 150 فلسطینی شہید
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر سال بڑی تعداد میں پاکستانی بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی راستوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے کچھ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے اور مہاجرت کے مؤثر نظم و نسق کے لیے اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ پاکستان میں ’پاکستان اقوام متحدہ نیٹ ورک آن مائیگریشن‘ کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔
یہ اقدام عالمی فریم ورکس بشمول ایجنڈا 2030 برائے پائیدار ترقی اور گلوبل کمپیکٹ برائے محفوظ، منظم اور باقاعدہ مہاجرت کے مطابق ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جاپانی شہر میں روزانہ صرف 2 گھنٹے اسمارٹ فون استعمال کرنے کی تجویز زیر غور
مذکورہ مشترکہ پروگرام انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی مہاجرت کے خلاف قومی کوششوں کو ایک منظم، جامع اور مربوط حکومتی و سماجی حکمتِ عملی کے تحت سپورٹ فراہم کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان کی جعلی فٹبال ٹیم جاپان جاپان سے ڈی پورٹ ڈی پورٹ ہونے والے گرفتار