کراچی: 6 جنوری سے لاپتہ نوجوان مصطفیٰ کی لاش پولیس کو مل گئی، تفتیشی حکام
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے 6 جنوری کو لاپتہ ہونے والے نوجوان مصطفیٰ کی لاش پولیس کو مل گئی ہے۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کی لاش پولیس کو حب چوکی سے ملی ہے، مصطفیٰ کو گاڑی سمیت 6 جنوری کو حب چوکی لے جایا گیا، ملزم ارمغان نے ساتھی کے ساتھ مل کر گاڑی کو آگ لگا دی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نے مصطفیٰ کو گاڑی میں بٹھا کر آگ لگائی، مصطفیٰ کی جلی ہوئی لاش گاڑی سے ملی ہے۔
اس سے قبل ڈیفنس فیز 5 میں واقع ملزم ارمغان کے گھر پر پولیس نے کارروائی کی تھی تو تلاشی کے دوران خفیہ کمرے میں گولیوں کے نشانات اور قالین پر خون کے دھبے پائے گئے تھے۔
مغوی مصطفیٰ کا موبائل فون بھی ملزم ارمغان کے گھر سے ملا، موبائل فون کا بھی فارنزک کروایا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ مغوی مصطفیٰ کی والدہ کے ڈی این اے میچ کیلئے لیب بھیجوائے گئے تھے، ڈی این اے کو ملزم ارمغان کے گھر سے ملنے والے خون سے میچ کیا جائے گا، کرائم سین یونٹ نے ارمغان کے گھر سے خون کے نمونے لیے تھے۔
گزشتہ دنوں پولیس نے مصطفیٰ کی تلاش میں اس گھر پر چھاپا مارا تو ملزم ارمغان نے بھاری اسلحے سے فائرنگ کردی تھی جس سے ڈی ایس پی اور ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ چھاپا اغوا ہوئے نوجوان کے کیس میں مارا گیا تھا۔
گرفتاری کے بعد ملزم ارمغان سے تفتیش ہوئی تو اس نے مصطفیٰ کو قتل کرکے لاش ملیر ندی میں پھینکنے کا انکشاف کیا مگر مصطفیٰ کی لاش نہیں مل سکی، جس کے بعد ملزم اپنے ابتدائی بیان سے بھی مکر گیا تھا۔
ملزم کے گھر سے بڑی تعداد میں کمپیوٹرز بھی برآمد ہوئے، جس سے پتا چلا کہ وہ غیر قانونی کال سینٹر بھی چلاتا ہے۔
اس سے قبل ملزم کے گھر سے بڑی تعداد میں ممنوعہ بور کا اسلحہ اور مغوی مصطفی کا موبائل فون بھی مل چکا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ارمغان کے گھر کے گھر سے پولیس کو کا کہنا کی لاش
پڑھیں:
لاپتہ طالبہ کی لاش ایک ماہ بعد ملی، اسکول ٹیچر گرفتار
بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ضلع بیربھوم میں ایک دل خراش واقعے نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک مقامی اسکول کی طالبہ، جو گزشتہ ایک ماہ سے لاپتہ تھی، کی لاش ایک ویران علاقے سے بوری میں بند حالت میں ملی ہے۔ پولیس نے طالبہ کے ایک استاد کو گرفتار کرلیا ہے، جس پر اغوا اور قتل کا الزام ہے۔
طالبہ 22 اگست کو حسب معمول اسکول کے لیے نکلی تھی لیکن واپس گھر نہ پہنچی۔ اہل خانہ اور مقامی افراد نے کئی دنوں تک اس کی تلاش جاری رکھی، مگر کامیابی نہ ملی۔ بالآخر منگل کی شب کالی ڈانگا گاؤں کے مضافات میں واقع ایک سنسان مقام سے ایک بوری برآمد ہوئی، جس میں طالبہ کی لاش موجود تھی۔
متاثرہ لڑکی کے والدین نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ استاد اس سے قبل بھی نازیبا رویہ اختیار کرتا رہا تھا، اور طالبہ نے اس حوالے سے اپنی والدہ کو آگاہ بھی کیا تھا۔ اسی بنیاد پر پولیس نے استاد کو حراست میں لیا، جس نے تفتیش کے دوران جرم کا اعتراف کرلیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی مزید چھان بین جاری ہے، اور یہ بھی جانچ کی جا رہی ہے کہ قتل سے قبل کسی قسم کی زیادتی تو نہیں کی گئی۔ لاش کو فارنزک تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔
یہ واقعہ معاشرے میں بچوں کے تحفظ، تعلیمی اداروں کی نگرانی، اور متاثرہ خاندانوں کی فوری داد رسی کے حوالے سے کئی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔