کانگو میں نقل مکانی اور صحت کے مسائل بحرانی کیفیت کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 فروری 2025ء) جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) کے مشرقی علاقے میں جاری لڑائی کے باعث انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد تحفظ کے لیے ایسے علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے جہاں انسانی امداد کی فراہمی ناممکن ہو گئی ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے بتایا ہے کہ ہمسایہ ملک روانڈا کے حمایت یافتہ ایم 23 باغی صوبہ شمالی کیوو کے دارالحکومت گوما پر قبضے کے بعد اب جنوبی کیوو کے شہر بوکاؤ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ادارے کی ترجمان یوجین بیون کے مطابق، لڑائی کے نتیجے میں بیشتر امدادی راستے بند ہو گئے ہیں۔ جنوبی کیوو میں جنسی تشدد کی متاثرین کو ضروری مدد پہنچائی جا رہی ہے تاہم عدم تحفظ اور متواتر نقل مکانی کے باعث تمام لوگوں تک رسائی ممکن نہیں رہی۔
(جاری ہے)
پناہ گاہوں کی تباہیشمالی کیوو میں لڑائی سے متعدد طبی مراکز اور مردہ خانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جس کے باعث ہیضہ، ملیریا اور خسرہ جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ شمالی کیوو میں گوما، مینووا اور نوبی کیوو کے متعدد علاقوں میں 70 ہزار ہنگامی پناہ گاہیں بھی تباہ کر دی گئی ہیں جہاں 350,000 لوگ مقیم تھے۔ترجمان نے بتایا ہے کہ گوما اور دیگر مقامات پر گولہ بارود کی بہت بڑی مقدار بکھری ہے جس کے باعث نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی محفوظ واپسی کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ لوگ ایک مرتبہ پھر بے گھر ہو سکتے ہیں۔
لڑائی جنوبی کیوو تک پھیلنے کے باعث امدادی سپلائی لائن کے تحفظ کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ملک میں اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار برونو لامارکیز نے کہا ہے کہ باغیوں کے جنوبی کیوو کی جانب بڑھنے سے علاقے میں مرکزی ہوائی اڈے کے لیے خطرہ بھی بڑھ گیا ہے جو اب تک امدادی اہلکاروں کی آمدورفت اور سازوسامان کی نقل و حرکت کا واحد ذریعہ ہے۔
ایم پاکس کا دوبارہ پھیلاؤعالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ترجمان کرسٹین لنڈمیر نے کہا ہے کہ لڑائی کے باعث ایم پاکس کی وبا کے خلاف اقدامات بھی متاثر ہو رہے ہیں جبکہ گوما اور ملحقہ علاقوں میں اس حوالے سے صورت حال کہیں زیادہ خراب ہے۔ 'ڈبلیو ایچ او' نے گزشتہ سال اگست میں دوسری مرتبہ اس بیماری کو عالمگیر صحت عامہ کے لیے تشویشناک خطرہ قرار دیا تھا۔
ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس بتا چکے ہیں کہ ملک کے مشرقی حصے میں لڑائی شروع ہونے سے قبل ایم پاکس کے پھیلاؤ پر بڑی حد تک قابو پایا جا چکا تھا لیکن اب یہ کامیابی غارت ہونے کا خدشہ ہے۔ گوما اور گردونواح میں 143 افراد میں اس بیماری کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں 128 کو جان بچانے کے لیے نقل مکانی کرنا پڑی اور ان حالات میں سبھی لوگوں کو خطرہ ہے۔
کرسٹین لنڈمیئر نے بتایا ہے کہ علاقے میں متعدد طبی مراکز کو لوٹ لیا گیا ہے، طبی کارکن جان بچانے کے لیے علاقہ چھوڑ گئے ہیں اور لوگوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں رہی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نقل مکانی کے باعث گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
کیا صرف چند معیاری سوالات آپ کو دوسروں کے قریب لا سکتے ہیں؟ نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم کے ماہرین نفسیات نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا جس نے حیران کن نتائج دیے۔
یہ بھی پڑھیں: اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر نفسیات ایڈی برومیل مین اور ان کی ٹیم نے 8 سے 13 سال کی عمر کے بچوں اور ان کے والدین پر ایک تجربہ کیا جس میں والدین نے اپنے بچوں سے صرف 14 سوالات پوچھے۔ یہ سوالات عام گفتگو سے ہٹ کر، ذاتی تجربات اور جذبات سے متعلق تھے۔
مثال کے طور پر اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتے تو کہاں جاتے اور کیوں؟ اب تک کا سب سے عجیب تجربہ کیا رہا؟ آپ آخری بار کب تنہا محسوس ہوئے اور کیوں؟
9 منٹ کی گفتگواس مختصر بات چیت کے بعد بچوں سے سوالنامہ پر کروایا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ وہ اپنے والدین سے کتنا پیار محسوس کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: آوازیں سننا ذہنی بیماری یا روحانی رابطہ؟
صرف 9 منٹ کی گفتگو کے بعد بچوں نے والدین کی محبت اور سپورٹ کا زیادہ احساس ظاہر کیا۔ یعنی گہرے سوالات، گہرے رشتے پیدا کرتے ہیں۔
فااسٹ فرینڈز پروسیجریہ تکنیک اصل میں ’فاسٹ فرینڈز پروسیجر‘ کہلاتی ہے جسے پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی میں ماہر نفسیات آرتھر آرن نے تیار کیا تھا۔ اس میں 2 افراد ایک دوسرے سے گہرے اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں جیسے کہ آپ کا ایک مثالی دن کیسا ہوگا؟ اگر آپ کو موت سے پہلے صرف ایک چیز بچانے کا موقع ملے تو وہ کیا ہوگی اور کیوں؟
مزید پڑھیں: اگر آپ کو بھی پڑوس کا شور بہت پریشان کرتا ہے تو یہ خبر آپ کے لیے ہے؟
تحقیق سے پتا چلا کہ ایسے سوالات خود انکشاف (سیلف ڈسکلوژر) کو فروغ دیتے ہیں جو انسانی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے خواہ وہ 2 اجنبی، دوست، ساتھی یا والدین و بچے ہوں۔
سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب ہم دل سے بات کرتے ہیں تو ہمارا دماغ قدرتی اینڈورفنز خارج کرتا ہے وہی کیمیکل جو ہمیں خوشی، تعلق اور سکون کا احساس دیتے ہیں۔
یہی ’اوپیئڈ سسٹم‘ منشیات جیسے مورفین پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے مگر یہاں بات ہے قدرتی، محفوظ اور جذباتی تعلق کی۔
ایک تجربے میں جب شرکا کو ایک دوا دے کر اینڈورفنز کے اثرات کو روکا گیا تو وہ نہ تو گفتگو میں دلچسپی لے پائے اور نہ ہی دوسرے شخص کے قریب محسوس کیا۔
مختلف معاشرتی گروہوں میں بھی مؤثراس طریقے کو مختلف گروہوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہ طریقہ آن لائن طلبہ کے درمیان تعلقات بڑھانے کے لیے، مختلف جنسی رجحانات کے افراد کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے اور نسل، عمر یا ثقافت کے فرق کے باوجود تعلق قائم کرنے کے لیے اپنایا گیا۔
سادہ اصول: سچے سوالات اور کھلا دلماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ بہادر ہونے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ ذاتی باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں لگتا ہے دوسرا شخص دلچسپی نہیں لے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ لوگ سننا چاہتے ہیں اور تعلق چاہتے ہیں۔
یہ صرف سوالات پوچھنے کا عمل نہیں بلکہ ایک سوچ کی تبدیلی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹوائلٹ میں موبائل کا استعمال کس خطرناک بیماری کا سبب بن سکتا ہے؟
والدین بھی اپنی کہانی سنائیں، بچوں کو سوالات پوچھنے دیں، اور ایک برابری کے ماحول میں گفتگو کریں — تب ہی دل سے دل جڑے گا۔
کیا حال ہے؟اگر آپ اپنے بچوں، شریک حیات، دوست یا کسی اجنبی سے تعلق مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو صرف ’کیا حال ہے‘ سے آگے بڑھیں۔
ان سے پوچھیں کہ ایسا کون سا لمحہ تھا جب آپ نے خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کیا؟ یا یہ کہ آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟ شاید یہی ایک سوال، ایک زندگی بدل دے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بامعنی سوالات بامعنی گفتگو باہمی تعلقات باہمی محبت دوستی لوگوں کو قریب لائیں