Express News:
2025-11-04@05:03:00 GMT

ملزم مقتول اور بے گناہ قاتل کی روداد

اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT

گزشتہ مضمون سے آپ کو اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ امریکی شہریوں کی ہلاکت سمیت اسرائیل پر ہر خون معاف ہے۔آٹھ جون انیس سو سڑسٹھ کو یو ایس ایس لبرٹی پر بمباری کے نتیجے میں امریکی بحریہ کے چونتیس فوجیوں کی ہلاکت سے واشنگٹن کے درگزر کے سبب جو خون اسرائیل کے منہ کو لگ گیا اس نے آگے چل کے اور گل کھلائے۔

فاسٹ فارورڈ ہم سن دو ہزار میں داخل ہوتے ہیں جب فلسطینیوں کا دوسرا انتفادہ شروع ہوا اور اسرائیل نے اگلے پانچ برس تک سول نافرمانی اور مزاحمت کچلنے کے لیے طاقت کا ننگا استعمال کیا۔اسی انتفادہ کے بیچ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جو ہر فلسطینی کو ازبر ہے۔

ریچل کوری واشنگٹن میں پلی بڑھی۔اس کے والد کریگ کوری جنگِ ویتنام میں شریک رہے۔البتہ ریچل کا میلان شہری حقوق کی جدوجہد کی جانب تھا۔وہ عین انتفادہ کے عروج پر مقبوضہ فلسطین پہنچی تاکہ اپنے یونیورسٹی تھیسس کے لیے مواد جمع کر سکے۔غزہ کے شہر رفاہ میں ریچل نصراللہ خاندان کے گھر میں رہی۔

ایک روز فوجی بلڈوزر آ گئے اور انھوں نے محلے کے گھروں کو غیرقانونی قرار دے کر ڈھانا شروع کر دیا۔اگلے دن بلڈوزر پھر آئے اور انھوں نے نصراللہ خاندان کا گھر بھی گرانے کی کوشش کی۔ تئیس سالہ ریچل کوری مہمان ہونے کے باوجود بلڈوزر کے آگے کھڑی ہو گئی اور پھر بلڈوزر اسے کچلتا ہوا بڑھ گیا۔یہ سانحہ سولہ مارچ دو ہزار تین کو ہوا۔واشنگٹن میں ریچل کوری کی ہلاکت کی خبر پہنچی تو میڈیا میں ہنگامہ ہو گیا۔کانگریس کے ستر سے زائد ارکان نے ایک قرار داد میں بش انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی امریکا خود تحقیق کرے ۔

اسرائیلی فوج نے اپنی انکوائری میں کہا کہ یہ کوئی جانی بوجھی حرکت نہیں تھی بلکہ ریچل جہاں کھڑی تھی وہاں سے بلڈوزر کا ڈرائیور اسے نہیں دیکھ سکا۔ قصور ریچل کا ہے کہ وہ جان بوجھ کے بلڈوزر کے سامنے سے کیوں نہیں ہٹی۔

امریکی حکومت نے اسرائیلی انکوائری کے نتائج پر حسبِ معمول چپ سادھ لی۔مگر ریچل کے والدین کریگ اور سینڈی نے ہمت نہیں ہاری۔انھوں نے تل ابیب کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ پہلی سماعت ہی دو برس کی تاخیر سے ہوئی۔عدالت نے ریچل کے والدین کی غیر موجودگی میں بند کمرے میں فوجی گواہوں کے بیانات سنے۔ پانچ برس کی سماعتوں کے بعد عدالت نے بلڈوزر ڈرائیور کو سزا سنانے اور ہرجانے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔

ریچل کے والدین نے اس فیصلے کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔سپریم کورٹ نے تین برس بعد دو ہزار پندرہ میں فیصلہ سنایا کہ حالتِ جنگ میں ہلاکتوں پر کسی فوجی کو قصوروار قرار نہیں دیا جا سکتا۔نیز یہ کہ اسرائیلی قوانین بین الاقوامی قوانین کے دائرے سے باہر ہیں۔

مگر ریچل کوری کو فلسطینی کبھی نہیں بھولے۔کئی بچیوں کے نام ریچل رکھے گئے۔اس کے والدین نے ریچل کوری فاؤنڈیشن قائم کی جس نے رفاہ میں تعلیمی اور کھیل سرگرمیوں کے فروغ میں مقامی بچوں کی حوصلہ افزائی کی ( اب رفاہ ملبے کا ایک بڑا سا ڈھیر ہے )۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رملہ میں ریچل کوری اسٹریٹ ہے۔دو ہزار دس میں جو ببن الاقوامی فریڈم فلوٹیلا غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کر رہا تھا اس پر اسرائیلی حملے میں نو رضاکار جاں بحق ہوئے۔اس فلوٹیلا میں شامل ایک کشتی کا نام ایم وی ریچل کوری تھا۔

شیریں ابو عاقلہ کون تھی ؟ یوں سمجھئے جیسے بی بی سی کے نامہ نگار مارک ٹیلی کا نام لوگوں کے حافظہ میں ہے۔اسی طرح الجزیرہ کی شیریں ابو عاقلہ کا نام پچیس برس تک گونجتا رہا۔بالاخر وہ رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک اسرائیلی فوجی گولی کا نشانہ بن گئیں۔شیریں ابوعاقلہ امریکی شہری تھیں۔ان کا تعلق ایک فلسطینی مسیحی خاندان سے تھا۔وہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے چار برس بعد انیس سو اکہتر میں یروشلم میں پیدا ہوئیں۔بچپن کے کچھ برس نیو جرسی میں گذارے ۔

پہلے انتفادہ ( انیس سو ستاسی تا نوے ) کے دوران شیریں اردن میں آرکیٹیکچر پڑھ رہی تھیں۔ پھر اردن کی یرموک یونیورسٹی میں صحافت کا مضمون اختیار کر لیا۔موت سے کچھ عرصہ پہلے ایک انٹرویو میں شیریں نے کہا کہ میں نے سوچا کہ میں زمینی حقائق تو شاید نہ بدل سکوں مگر فلسطینیوں کی آواز ضرور بن سکتی ہوں۔یوں میں نے صحافت چنی۔گریجویشن کے بعد شیریں نے کچھ عرصہ اقوامِ متحدہ کے ادارہِ بحالیات برائے فلسطین ( انرا ) میں کام کیا۔ساتھ ساتھ مختلف ٹی وی اور ریڈیو چینلز کے لیے رپورٹنگ شروع کر دی۔یروشلم کی بیرزیت یونیورسٹی میں کئی برس صحافت کی جزوقتی تدریس بھی کرتی رہیں۔

انیس سو ستانوے میں الجزیرہ قائم ہوا اور ایک برس بعد شیریں الجزیرہ کی رپورٹر اور رفتہ رفتہ یروشلم بیورو چیف بن گئیں۔دو برس بعد فلسطین میں دوسرا انتفادہ شروع ہو گیا۔مشکل ترین حالات میں بھی شیریں رپورٹنگ میں آگے آگے رہیں اور مختصر عرصے میں ہی اتنی مشہور ہو گئیں کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کی نقالی شروع کر دی ’’ خبردار۔کرفیو لگ چکا ہے۔گھروں سے باہر نہ نکلیں۔شیریں ابو عاقلہ الجزیرہ نیوز ‘‘…

گیارہ مئی دو ہزار بائیس کو بھی شیریں جنین شہر کے فلسطینی مہاجر کیمپ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی کوریج کر رہی تھیں۔انھوں نے حسبِ معمول نیلی بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر سفید جلی حروف میں پریس لکھا ہوا تھا۔ایک اسرائیلی سنائپر کی سنگل گولی شیریں کی کنپٹی میں پیوست ہو گئی۔وہ زمین پر گر گئیں۔انھیں سہارا دینے والے صحافی علی السمودی سنائپر کی دوسری گولی سے زخمی ہو گئے۔

اسرائیلی فوج نے پہلا بیان یہ جاری کیا کہ شیریں مسلح فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان تصادم میں ایک فلسطینی کی گولی سے مریں۔ جب اسرائیل کو دوطرفہ فائرنگ کی ٹھوس شہادت نہ ملنے کا احساس ہوا تو پھر یہ اعتراف کیا گیا کہ وہ ایک فوجی کی گولی کا حادثاتی طور پر نشانہ بن گئیں۔

مگر شیریں کے جنازے میں شریک ہزاروں سوگواروں پر اسرائیلی پولیس نے جس طرح وحشیانہ لاٹھی چارج کر کے تابوت گرانے اور چھیننے کی کوشش کی اس سے اسرائیل کا سارا موقف بیچ چوراہے میں چوپٹ ہو گیا۔

چونکہ شیریں امریکی شہری بھی تھیں لہٰذا ایف بی آئی نے بادلِ نخواستہ اپنے تئیں تحقیقات شروع کیں مگر یہ کوشش حسبِ توقع کہیں بیچ میں ہی رہ گئی۔بائڈن انتظامیہ نے اسرائیل اور فلسطینی امور سے متعلق امریکی رابطہ کار لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فیزل کو چھان پھٹک پر مامور کیا۔اس بابت جو کمیٹی بنی اس کی رپورٹ کبھی شایع نہیں ہوئی۔تاہم گزشتہ ہفتے اس کمیٹی میں شامل ایک رکن کرنل ریٹائرڈ سٹیو گیباوس نے بھانڈا پھوڑ دیا۔انھوں نے کہا کہ ہم نے اسرائیلی فوج کی وائرلیس ریکارڈنگ سننے کے علاوہ بھی جو شواہد اکٹھے کیے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی گاڑی میں بیٹھے فوجیوں کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کچھ فاصلے پر صحافی کھڑے ہیں۔فائر صرف ایک جانب سے ہوا۔اگر یہ اتفاقی فائر تھا تو پھر زمین پر گری شیریں کی مدد کرنے والے ایک اور صحافی ( علی السمودی ) کیسے زخمی ہوئے۔ان پر دوسری گولی کیوں چلائی گئی ؟

کرنل سٹیو کے بقول کمیٹی کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ ٹارگٹ کلنگ تھی۔ہم نے اپنی زبانی و تحریری رائے جنرل مائیکل فیزل کو پیش کی۔مگر انھوں نے وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ کو جو رپورٹ پیش کی وہ ہماری رائے کے برعکس تھی۔چنانچہ محکمہ خارجہ نے اس ’’ ٹیمپرڈ رپورٹ ‘‘ کی بنیاد پر یہ بیان دیا کہ شیریں ابو عاقلہ کی موت اگرچہ افسوسناک ہے مگر ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ کوئی جانا بوجھا قتل تھا۔

شیریں کے بھائی ٹونی نے کرنل سٹیو کے بیان کی روشنی میں ٹرمپ انتظامیہ سے ازسرِ نو تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ( اس مطالبے پر یقیناً ٹرمپ انتظامیہ ہنس رہی ہو گی ) ۔

غزہ کی جنگ کے دوران گزشتہ دو برس میں چار مزید امریکی شہری بھی مارے گئے ہیں اور ایک فلسطینی نژاد نو عمر امریکی شہری نو ماہ سے اسرائیلی جیل میں ہے۔ٹرمپ انتظامیہ ’’ بھرپور سفارتی تگ و دو ’’ کے باوجود اب تک اپنے لڑکے کو رہائی نہیں دلوا سکی۔یہ قصہ اگلے مضمون میں…

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شیریں ابو عاقلہ اسرائیلی فوج امریکی شہری کے والدین ریچل کوری انھوں نے ہو گیا کے لیے

پڑھیں:

گھر سے خاتون کی کمبل میں لپیٹی گلا کٹّی لاش برآمد

 کراچی کے علاقے مدینہ کالونی میں واقع گھر سے ایک شخص کی گلا کٹی لاش ملی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ شخص کو کند آلہ کی مدد سے گلا کاٹ کر قتل کیا گیا ہے۔ ایس ایچ او مدینہ کالونی افتخار تنولی نے بتایا کہ پولیس کو اطلاع ملی کہ بلدیہ ٹیپو سلطان روڈ عظیمہ آ باد نزد گلیکسی گرامر اسکول کے قریب گھر میں ایک شخص کی گلا کٹی ہوئی لاش ملی ہے۔ اطلاع ملنے پر پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاش کو تحویل میں لے کر ایدھی ایمبولینس کے ذریعے سول اسپتال ٹراما سینٹر منتقل کردیا ہے۔ متوفی شخص کی شناخت 40 سالہ محمد یوسف ولد اللہ دتہ سے ہوئی۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق مقتول گھر میں اکیلا تھا۔ مقتول اور اس کارشتہ دار اسلم سائٹ میں ایک نجی لوم فیکٹری میں ملازم تھے۔ اس گھر میں ساتھ رہتے تھے۔ مقتول اور اس کے رشتے دار اسلم کا تعلق پنجاب کے علاقے گوجرہ سے ہے۔ متقول دن اور اس کا رشتہ دار نائٹ شفٹ میں فیکڑی میں کام کرتے تھے۔ متقول کا رشتہ دار صبح کام پر سے گھر واپس آیاتو اس نے دیکھا کہ یوسف کی گلہ کٹی لاش پڑی ہے۔ اس نے واقعہ کی اطلاع پولیس کو دی۔ علاوہ ازیں مقتول شادی شدہ ہے ۔ اس کی فیملی گوجرہ میں رہتی ہے۔ پولیس نے اس واقعہ کی اطلاع مقتول کے رشتہ داروں کو دے دی ہے۔ قتل کی مختلف پہلوں سے ںتفتیش شروع کردی گئی ہے۔ پولیس کی کوشش ہے کہ قتل میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • پتوکی: بیوی نے دوست کیساتھ ملکر شوہر کو قتل کر کے لاش نہر میں پھنکوا دی
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • گھر سے خاتون کی کمبل میں لپیٹی گلا کٹّی لاش برآمد
  • کراچی میں واقع گھر سے گلا کٹی لاش برآمد