پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ صدق دل سے مذاکرات کر رہے تھے، پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے بنی ہی نہیں، ان کے خمیر اور ڈی این اے میں منفی سیاست ہی رچی بسی ہے۔

ہفتہ کے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں مسلم لیگ ن کے رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی عدم استحکام نہیں ہے، پاکستان اپنے ٹریک، حکمت عملی اور منصوبے کے ساتھ طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سال بھر پہلے کا پاکستان آج بہت اچھا ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی بات کریں تو ایوب خان کے خلاف بھی تحریک اٹھی تھی، جس سے انہیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا، اس وقت ایک بحران بھی تھا، تحریک بھی تھی اور سخت احتجاج بھی تھا۔ اس کے بعد سقوط ڈھاکہ ہوا، مشرقی پاکستان میں ایک طوفان اٹھا اور اس کا ایک حصہ الگ ہو گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی ایک بحران پیدا ہوا اور یہ بحران ہمیں مارشل کی جانب لے گیا، ان تحریکوں کا اپنا اپنا پس منظر، پیش منظر اور نتائج ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  آج ایسی کوئی تحریک نہیں ہے، بار بار مطالبوں، بار بار لوگوں کو آواز دینے کے باوجود لوگ نہیں نکل رہے ہیں، صوابی کا جلسہ آپ اپنا ’نوحہ‘ بن کر رہ گیا ہے، بار بار کوشش کر لی، 9 مئی کر لیا، اڑھائی سو جگہوں پر حملے کر لیے، فائنل کال دے دی، خطوط لکھ دیے، جی ایس ٹی رکوانے کے لیے یورپ پر دباؤ بھی ڈال دیا، کیا اب بھی کچھ باقی بچا ہے؟

عرفان صدیقی نے پھر کہا کہ عدم استحکام کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، چاروں صوبوں میں حکومتیں چل رہی ہیں، معیشت بہتر ہو رہی ہے، پی ٹی آئی والے پھر کوئی شوق پورا کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں، سڑکیں کھلی ہیں۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ اس وقت جس دہشتگردی کا ملک کو سامنا ہے وہ پی ٹی آئی کے دور میں ملک میں لا کر بسائے گئے 5 سو دہشتگرد ہیں، جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ جہاں تک پی ٹی آئی کے ساتھ کسی سیاسی الائنس کی بات کا سوال ہے تو مجھے یقین ہے کہ جہاں تک ہم مولانا فضل الرحمان اور ان کے والد مرحوم کی سیاست کو جانتے ہیں تو وہ کبھی بھی تخریب کاری کی سیاست نہیں کریں گے، کسی 9 مئی کا حصہ نہیں بنیں گے، ملک کے اداروں کے خلاف نہیں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کسی کو ڈوزیئر لکھنے کا حصہ نہیں بنیں گے، اپنی گندی سیاست کے کپڑے کسی اور جگہ دھونے کا حصہ نہیں بنیں گے تاہم اگر جمہوری انداز میں کوئی الائنس بنتا ہے تو وہ ٹھیک ہے۔

ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم صدق دل سے چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی مثبت سیاست کی جانب بڑھے اور ملک میں افراتفری والا ماحول ختم ہو۔

پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے بعد اس بات  کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ جماعت مذاکرات کے لیے نہیں بنی، اس کے جوہر اور خمیر کے اندر، اس کے ڈی این اے کے اندر مذاکرات کرنا، بات چیت کرنا، مکالمہ کرنا، افہام و تفہیم کرنا، لے دے کرنا، پارلیمان کے اندر کردار ادا کرنا ہی شامل نہیں ہے، پی ٹی آئی کے ڈی این اے میں وہی ہے جس کا انہوں رمضان کے بعد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ہم آج بھی دروازے کھول کر بیٹھے ہیں تاہم ہم کسی کو پکار نہیں رہے ہیں، آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا، ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا، وزیر اعظم کو بھیج دوں گا، اس کا یہی مطلب ہے کہ آرمی چیف سیاستدانوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی خمیر دروازے دہشتگردی ڈی این اے سیاسی استحکام سیاسی الائنس سینیٹر عدم استحکام عرفان صدیقی عمران خان۔ گندی سیاست مرحوم مسلم لیگ ن مولانا فضل الرحمان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی دروازے دہشتگردی ڈی این اے سیاسی استحکام سیاسی الائنس سینیٹر عدم استحکام عرفان صدیقی گندی سیاست مسلم لیگ ن مولانا فضل الرحمان عرفان صدیقی نے کہا پی ٹی ا ئی کے عدم استحکام مذاکرات کے ڈی این اے نے کہا کہ کے ساتھ رہے ہیں نہیں ہے کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے

سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔

رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔

دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں تو اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ ایک یہ ہے کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ ان کی تاریخ کی جڑیں مشترکہ ہیں اور ان کے 80 اور 90 کی دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے۔اسی لئے پاکستان نے مزاکرات میں یہ بھی مطالبہ رکھا تھا کہ آفغان طالبان کے امیر پاکستان میں حملوں کے خلاف فتویٰ دیں۔دوسری طرف یہ بھی رائے ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک پریشر tool کے طور پر استعمال کر کے بین الاقوامی منظر نامے پر زیر بحث رہ کر پاکستان اسلامی ممالک چین اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اسکا موقف یہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کاروائیاں روکنے کے لئے اس کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں لہذا ان کی اس سلسلے میں مطلوبہ امداد فراہم کی جائے اس طرح سے چین جس کی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہے اور اس کا ایک صوبہ بھی افغان علاقے سے دراندازوں کی کاروائیوں کا شکار ہے اور اسلامی ممالک امریکہ اور یورپ سے معاشی فوائد حاصل کئے جائیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغان طالبان انڈیا سے معاشی فوائد حاصل کرکے اس کی پراکسی کے طور پر یا کھلی جھڑپوں کے ذریعے انڈیا کو دفاعی سطح پر فائدہ پہنچا رہا ہے۔

کیونکہ اس وقت انڈیا نے پاکستان کی سرحد کے قریب سرکریک میں فوجی مشقیں شروع کی ہوئی ہیں اور انکے چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر فوجی و سیاسی ذمہ داراں پاکستان کو سبق سکھانے اور آپریشن سیندور کے جاری رہنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لہذا اس طرح سے دو سرحدی محاذوں اور اندرونی محاذ پر دہشت گردی کیذریعے پاکستان کو الجھا کر بھارت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا چاہے گا۔اور تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت اس کے مطابق مناسب وقت پر کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی افغان پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی افغان طالبان وارئیر گروہ کی ہر طرح کی حمایت کرنے اور انہیں پناہ دینے کی طویل مدتی پالیسی کے متوقع نتائج یہی نکلنے تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی سلامتی کو گزشتہ چار سالوں سے ان کی طرف سے مسلح شدت پسندی کا سامنا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ’ویندا فلباب براؤن‘ کی رائے ہے کہ طالبان حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل تعلقات رہے ہیں، جو ختم کرنا مشکل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو خدشہ ہے کہ کریک ڈاؤن کی صورت میں ٹی ٹی پی نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔ قندھار میں طالبان کی جنوب میں موجود قیادت پاکستان کے ماضی کے اقدامات پر ناخوش رہے ہیں جن میں ملا برادر کو قید کیا جانا اور امریکی حملے میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت شامل ہیں۔ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے اور یہ اپنے لیے کوئی دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے برعکس ٹی ٹی پی نے کبھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک ٹی ٹی پی طالبان حکومت کے لئے نظریاتی یا عسکری خطرہ نہیں تب تک افغان طالبان کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں ہو گا۔ اسی لیے افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرے۔

دوسری طرف سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان کی طرف سے پاکستان میں موجود مقیم غیر قانونی افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور اٹھارہ روز سے جاری تجارتی بندش کو دباوء برھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور طالبان رجیم کو کھلم کھلا غیر جمہوری قرار دے کر اس کے مخالفین کو تھپکی دی جا رہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات اور سفارتی و فوجی دباو اسلامی ممالک کی ناراضگی کا خطرہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر پاتے ہیں یا نہیں۔بہر صورت پاکستان کو اس پیچیدہ صورت حال سے احسن طریقے سے نمٹنے کیلئے امریکہ'چین 'سعودی عرب ایران' ترکیہ قطر سمیت اپنے تمام دوست اور برادر اسلامی ممالک سے مشاورت اور تعاون کے ساتھ ایسی متوازن حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور دشمن ممالک کے ناپاک عزائم بھی ناکامی سے دوچار ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی کے ویژن کے مطابق تعلیم ہی ترقی کی ضمانت ہے، نسرین جلیل
  • ٹی ایل پی ٹکٹ ہولڈرز کا جماعت سے دستبرداری کا اعلان
  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • NLFوفد کا PTCLوائرلیس کالونی کا دورہ
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی