غیرملکی سربراہوں کی آمد پر اپوزیشن کو بلایا جائے
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
ترکیہ کے صدر طیب اردگان جو کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے دورہ پر تھے۔ انہوں نے پاکستان اور ترکیہ میں تجارت بڑھانے کے لیے 26 ایم او یو پر دستخط کیے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور پاکستانی فوج کی سپہ سلار سید عاصم منیر نے ان کا بھرپور استقبال کیا ترکیہ کے صدر پانچ سال کے بعد پاکستان تشریف لائے اور انہوں نے پاکستان کو معیشت کے بارے میں سہولیات فراہم کرنے کی بات کی اور معاہدات کیے اس سے امید ہے کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہونے کی راہ پر چل نکلے گا اس دورہ میں جو خاص باتیں پاکستانیوں کو نظر آئیں ان میں خصوصی طور پر ایک موقع پر وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی بیگم اور بہو نے ترکیہ کی خاتون اول کا استقبال کرنا تھا کہ اچانک استقبال کرنے والوں میں ان کا نام کاٹ کر وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کا نام آگیا اس کے بعد محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے ترکیہ کے صدر اور ان کی بیگم کا استقبال کیا جب کہ دیکھنے میں ترکی کے صدر طیب اردغان اور ان کی اہلیہ پاکستان کی مختلف حکومتوں کے ادوار میں نواز شریف یوسف رضا گیلانی شوکت عزیزاورعمران خان کے دور میں بھی تشریف لا چکے ہیں اور ان کا تعلق پاکستان سے ہے کسی بھی حکمران یا خاندان سے نہ ہے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں جب سیلاب آیا تو بیگم طیب اردگان نے اپنا ہیروں کا نیکلس سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دیا تو یوسف گیلانی وہ قیمتی نیکلس سیلاب زدگان کی امداد کی بجاے اپنی بیگم کے گلے میں ڈال دیا۔ دوسری طرف ترکیہ کے صدر طیب اردگان کا بھی فوج نے تختہ الٹا تھا لیکن عوام نے طیب اردگان کو فوج سے اقتدار واپس لے کردیا تھا اور طیب اردگان نے سینکڑوں فوجی افسران کو برطرف اور جیلوں میں بند کیا اس طرح وہ فوجی آمریت سے آگاہ ہیں اور وہ پاکستان میں بھی ہونے والے جبر کوجانتے ہیں۔
ترکیہ کے طیب اردگان پاکستان تشریف لائے تو ان کو دو دن تک سرکاری محلات، دفاتر اور اسلام آباد کہ ایوانوں تک گھمایا گیا اور کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوئی دی طیب اردگان کو اپوزیشن کے ارکان اسمبلی سے بھی نہیں ملنے دیا گیا گزشتہ ادوار میں جب بھی کوئی معزز مہمان پاکستان تشریف لائے توان کو کراچی لاہور میں بھی عوام کو ملنے کا موقع فراہم کیا جاتا جبکہ پارلیمان سے خطاب کروائے جاتے رہے ہونا تو یہ چاہیے جب بھی کوئی غیر ملکی سربراہ پاکستان میں تشریف لائیں تو حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ان کا استقبال کرنا چاہیے کیونکہ کوئی بھی غیر ملکی سربراہ کسی بھی حکمران کا دوست نہیں ہوتا وہ پاکستان کا مہمان ہوتا ہے اس لیے جب وزیراعلیٰ پنجاب محترم مریم نواز شریف صاحبہ کو استقبال کے لیے بلایا گیا تو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی بلایا جا سکتا تھا لیکن خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو بھی مدعو نہیں کیا گیا تو اس طرح وزیراعظم میاں شہباز شریف اور صدر پاکستان کی اکائیوں میں دراڑ ڈال رہے ہیں اور چھوٹے دل کا ثبوت دے رہے ہیں اگر اپوزیشن کے ارکان بھی استقبالیہ تقریب میں مدعو ہوں اس سے حکومت کے قد میں اضافہ ہوتا ہے اور آنے والے مہمان یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اپوزیشن اور حکومت دو پہیے ہیں جو آپس میں مل کر چلتے ہیں اور ملک کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن ان حکمرانوں کا عالم ہی نرالا ہے یہ ہر چیز چھپا کے کرتے ہیں۔ عمران خان نے حکمرانوں کے طرزعمل کی وجہ سے مذاکرات کی ٹیبل سے اپنے نمائندوں کو بلا لیا ہے اور اب خیبر پختونخوا میں پارٹی کے نئے صدر جنید اکبر کے ذریعے جارحانہ پولیٹکس کا آغاز کر دیا ہے اور عالیہ حمزہ کو پنجاب کا چیف آرگنائزر بنایا ہے اور وہ بڑے احسن طریقے سے تنظیم سازی کر رہی ہیں اور دوسری طرف پارٹی کے مرکز اور صوبوں میں بھی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے اور شیر افضل مروت کو بھی پارٹی سے نکال باہر کیا گیا حکمران تو تحریک انصاف کسی عمل کو بھی کمزوری قرار دیتے ہیں جب کہ شاہد خاقان عباسی مفتاح اسماعیل اور بڑے بڑے سٹار الٹ چکے ہیں اور جب ان سے بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں جلد واپس آ جائیں گے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ترکیہ کے صدر طیب اردگان نواز شریف ہیں اور میں بھی کے لیے ہے اور اور ان کو بھی
پڑھیں:
پاکستان اور فلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون کا اہم معاہدہ
اسلام آباد میں پاکستان اور فلسطین کے درمیان صحت کے میدان میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
اس مفاہمتی یادداشت پر پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال جبکہ فلسطین کی جانب سے پاکستان میں تعینات فلسطینی سفیر نے دستخط کیے۔ تقریب میں وفاقی سیکرٹری صحت حامد یعقوب، ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ اور ڈی جی ہیلتھ بھی شریک تھے۔
وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے اس موقع پر کہا کہ معاہدے پر مؤثر عمل درآمد کے لیے آئندہ 30 روز میں ’’پاکستان-فلسطین ہیلتھ ورکنگ گروپ‘‘ قائم کیا جائے گا، جو اس تعاون کو عملی شکل دینے کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے تحت جدید طبی شعبہ جات میں استعداد کار بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
دونوں ممالک انٹروینشنل کارڈیالوجی، آرگن ٹرانسپلانٹ، آرتھوپیڈک سرجری، اینڈوسکوپک الٹراساؤنڈ، برن اینڈ پلاسٹک سرجری جیسے اہم شعبوں میں مل کر کام کریں گے۔ اس کے علاوہ متعدی امراض، آنکھوں کے امراض اور دواسازی کے شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ وزیر صحت نے یہ بھی بتایا کہ مشترکہ تحقیق کے مواقع تلاش کرنے پر بھی توجہ دی جائے گی تاکہ صحت عامہ کے مسائل کا بہتر حل نکالا جا سکے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اس معاہدے کا مقصد دونوں برادر ممالک کے عوام کے لیے بہتر صحت کی سہولیات کو یقینی بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستانی عوام کے دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم ان کی فلاح کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
فلسطین کے سفیر نے وزیر صحت اور پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور پاکستان دونوں برادر ممالک ہیں اور وہ اپنے عوام کی صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔