مصطفی عامر قتل کیس، سماجی المیہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا ہونے والے نوجوان مصطفی عامر کی مبینہ لاش حب سے ملنے کا واقعہ معاشرے کے بگاڑ کا ایک اور بھیانک مظہر ہے۔ یہ محض ایک قتل کا واقعہ نہیں بلکہ کئی سماجی نوعیت کے سوالات اٹھا رہا ہے، ہمارا سماج کس طرف جا رہا ہے؟ کیا اب دوستی بھی خطرناک ہو گئی ہے؟ پولیس تحقیقات کے مطابق، مصطفی اپنے دوست ارمغان کے گھر گیا، جہاں جھگڑے کے بعد اسے بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش کو حب لے جا کر جلا دیا گیا۔ اس کیس میں قتل کی وجوہات میں مختلف باتیں سامنے آئی ہیں، جن میں منشیات کے پیسے پر لڑائی، نیو ائر کے دوران دونوں میں جھگڑا، اور کسی لڑکی کے معاملے کو جھگڑے کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق، ملزم شیراز نے دورانِ تفتیش بتایا کہ ملزم ارمغان نے مصطفی کو بہانے سے گھر بلوایا اور وہاں لوہے کی راڈ سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ مصطفی کو نیم بے ہوش کرنے کے بعد اس کے منہ پر ٹیپ باندھ دی گئی۔ مقتول مصطفی کی گاڑی میں شیراز اور ارمغان کیماڑی سے ہمدرد چوکی کے راستے حب پہنچے۔ حب میں دھوراجی سے دو کلومیٹر دور ایک پہاڑی کے قریب گاڑی روکی گئی۔ گاڑی کی ڈگی کھولی گئی تو مصطفی زندہ تھا، جس کے بعد ارمغان نے پٹرول چھڑک کر لائٹر سے آگ لگا دی۔ پولیس کے مطابق، مصطفی اور ارمغان دوست تھے، جبکہ شیراز بھی ان کا قریبی ساتھی تھا۔ ارمغان کی عمر 31 سال جبکہ مقتول مصطفی 23 سال کا تھا۔ اس کیس میں ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں مصطفی اپنے دوست کو بتا رہا ہے کہ وہ ارمغان کے پاس جا رہا ہے اور کہہ رہا ہے، ’’میں بھی اب اپنے حساب سے کھیلوں گا، ایسا ہی ہے تو میں بھی ایک طریقے سے کھیلوں گا اس کے ساتھ‘‘۔ اس آڈیو پیغام نے پولیس کی تفتیش پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ واردات کسی مافیا یا پیشہ ور مجرموں نے نہیں بلکہ مصطفی کے اپنے ہی دوستوں نے انجام دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بے حسی، سفاکی اور جرائم کی یہ سنگین شکل ہمارے نوجوانوں میں کیوں بڑھ رہی ہے؟ پاکستان میں نوجوانوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، میں ملک میں قتل اور پرتشدد واقعات میں 20 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا، جس میں زیادہ تر کیسز میں نوجوان مجرم یا متاثرہ فریق تھے۔ کراچی میں ہر سال اوسطاً 300 سے 400 افراد کو قتل کیا جاتا ہے، جن میں زیادہ تعداد 18 سے 30 سال کے افراد کی ہوتی ہے۔ کبھی دوستی اخلاص اور اعتماد کی علامت سمجھی جاتی تھی، لیکن حالیہ واقعات نے اس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مصطفی جیسے کئی نوجوان جنہیں اپنے دوستوں پر بھروسا تھا، وہی دوست ان کے قاتل بن گئے۔ ایسے حادثات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرتی رویے کس قدر گر چکے ہیں۔ یہ بے رحمی اور تشدد کے بڑھنے کی کئی عوامل ہیں، ہمارے یہاں بچوں کو پیسہ کیسے کمانا ہے اس کی تربیت تو دی جارہی ہے لیکن اخلاقی تربیت کا فقدان ہے والدین اور تعلیمی ادارے نوجوانوں کو کردار سازی اور برداشت سکھانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ آن لائن دنیا میں تشدد اور بے حسی کو معمول بنا دیا گیا ہے، جس سے نوجوانوں کی حساسیت ختم ہو رہی ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں نشے کی لت میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو ان میں جرم کی طرف جھکاؤ پیدا کر رہی ہے۔ ہماری یہ نوجوان نسل قوم کی امید اور مستقبل ہے مگر افسوس کہ آج یہی نوجوان بے سمتی، مایوسی اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ سماجی عدم توازن، طبقاتی فرق، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اور والدین کی عدم توجہی جیسے عوامل نے معاشرتی بگاڑ کو شدید کر دیا ہے۔ ہمارے یہاں دھوکا دہی، رشوت، اسمگلنگ، منشیات فروشی، اور قتل و غارت جیسے جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ مصطفی عامر کے اندوہناک قتل کی مثال اس معاشرتی بے حسی کی واضح علامت ہے، جہاں دوستوں کے درمیان معمولی جھگڑے کا نتیجہ بے دردی سے جان لینے پر منتج ہوتا ہے۔ اس کیس میں ملوث افراد کا پس منظر، ان کی سوچ، اور سفاکانہ طریقے سے قتل کر کے لاش کو جلانے کا عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مادیت پسندی اور بے راہ روی نے نوجوانوں کو کس حد تک سنگدل بنا دیا ہے۔ یہ محض ایک پولیس کیس نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے جس پر ہر ذی شعور فرد، خاندان، عالم دین، استاد، والدین اور حکمرانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت اور ذہنی نشوونما کی طرف توجہ نہ دی تو ہمیں مزید ایسے ہی واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سیاست سے ہٹ کر ان سنگین معاشرتی مسائل پر بھی توجہ دیں جو ہمارے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل رہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو یوں ہی بے سمت چھوڑ دیا اور ان کی اخلاقی بنیادوں کو مزید کمزور ہونے دیا، تو نہ صرف جرائم میں اضافہ ہوگا بلکہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، سماج میں تھوڑا بہت بچا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی اجتماعی ذمے داریوں کو محسوس کریں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب معاشرہ مکمل طور پر بدامنی اور بے حسی کا شکار ہو جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مطابق رہے ہیں رہا ہے رہی ہے قتل کی
پڑھیں:
صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) دنیا میں صنفی مساوات کی جانب پیشرفت سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی قیمت انسانی جانوں، حقوق، اور مواقع کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں دہائی کے آخر تک 351 ملین سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں شدید غربت کا شکار ہوں گی۔
اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کے لیے ادارے 'یو این ویمن' کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً 10 فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔
(جاری ہے)
گزشتہ سال ہی 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لیے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اب بھی دنیا بھر میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔گزشتہ سال ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو اپنے شریکِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی۔
علاوہ ازیں، ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچیوں کو جنسی اعضا کی قطع و برید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے نصف کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
2000 سے اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔
یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ 1997 میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔
تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ صرف 25 یا 30 سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔صنفی ڈیجیٹل تقسیمصنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج 70 فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح 65 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو 2050 تک مزید 34 کروڑ 35 لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور 3 کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔
اس طرح 2030 تک عالمی معیشت میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
معلومات میں کمی کا مسئلہیو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات میں 25 فیصد کمی آ گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں تو 2050 تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں 11 کروڑ کی کمی ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں 342 ٹریلین ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف 27.2 فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی 35.5 فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف 30 فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین ہفتہ شروع ہونے سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب صنفی مساوات کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔سارہ ہینڈرکس نے عالمی رہنماؤں کو 'یو این ویمن کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور نیا راستہ بھی موجود ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو گی۔
یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں سیاسی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گی۔رپورٹ میں 2030 تک تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے صنفی مساوات کی خاطر چھ ترجیحی شعبوں میں کام کی سفارش کی گئی ہے جن میں ڈیجیٹل انقلاب، غربت سے آزادی، تشدد سے مکمل تحفظ، فیصلہ سازی میں برابر شرکت، امن و سلامتی اور ماحولیاتی انصاف شامل ہیں۔