Jasarat News:
2025-09-18@13:11:01 GMT

پاکستان کی بحرانی مثلث

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

پاکستان کی بحرانی مثلث

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی ان سے ملاقات کے لیے جانے والے چوتھے عالمی راہنما ہیں۔ نریندر مودی نے اس دورے میں امریکا کے ساتھ کئی معاہدے اور دفاعی سودے کیے بلکہ دونوں کے درمیان ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا اور یہ اعلامیہ پاکستان کے لیے مستقبل کے خطرات کی گھنٹی ہے۔ اعلامیے میں ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی جیل میں مقید ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ایک پاکستانی نژاد باشندے کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے روایتی انداز میں اس اعلامیہ کو گمراہ کن، یک طرفہ اور سفارتی آداب کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس استرداد سے پاکستان کو درپیش چیلنج کم ہو سکتے ہیں نہ امریکا اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے۔ نریندر مودی کے ایک اور اہم ملاقات امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر تلسی گبارڈ کے ساتھ ہوئی۔ تلسی گبارڈ امریکا کی اٹھارہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کریں گی اور یہ عہدہ نائن الیون کے بعد تخلیق کیا گیا ہے۔ 43 سالہ تلسی گبارڈ اور بھارت کا تعلق نظریاتی رنگ سے بھرپور ہے۔ تلسی گبارڈ کا بھارت سے کوئی خاص تعلق نہیں مگر ان کے والد نے امریکا میں ہندو مذہب قبول کیا تھا۔

تلسی گبارڈ ہندو توا نظریات سے متاثر ہیں اور انہیں ’’کرما یوگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ تلسی گبارڈ نے اپنے عہدے کا حلف بھگوت گیتا پر اُٹھا کر اپنے نظریات کا واضح طور پر اظہار کیا تھا۔ وہ 2014 میں مودی کی دعوت پر پہلی بار بھارت کا پندرہ دن کا دورہ کرچکی ہیں۔ 2019 میں بھی وہ بھارت کی ایونٹ مہمان خصوصی بنیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات یہ رہے ہیں کہ انہوں نے اُسامہ بن لادن کو پاکستان میں پناہ دینے کا الزام عائد کیا اور حافظ سعید کی رہائی پر تنقید کی۔ اس لیے اب کی بار نریندر مودی کے لیے امریکی انتظامیہ میں چہار سو ہرا ہی ہرا ہے۔ کچھ بھارت نژاد اور کچھ بھارت دوست افراد اہم عہدوں پر براجمان ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں ان کے خیالات تلخ اور تُند رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے بارے میں امریکا کا تعلق دو مختلف انداز لیے ہوئے ہے۔ پاکستان امریکا کے لیے ایڈہاک ازم پر مبنی ایک عارضی جنگی پروجیکٹ ہے اور بھارت ایک طویل المیعاد مستقل دوستانہ اور دفاعی پروجیکٹ۔ جب بھی امریکا کو خطے میں دہشت گردی کا ڈھول پیٹنے کی ضرورت ہوگی وہ پاکستانی مقتدرہ کی کلائی مروڑ کر اسے جنگ میں دھکیلتا ہے اور بھارت کو وہ ہر قسم کی جنگ سے بچا کر ترقی اور امن کے راستوں پر اپنا شراکت دار بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا کے اسلام آباد میں سابق سفیر رچرڈ اولسن نے ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اسرائیل کے ایک اخبار میں لکھے گئے مضمون میں اس تعلق کی بہت دلچسپ منظر کشی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ امریکا پاکستان کو بھی بھارت کی طرح جنگوں کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے مستقل نوعیت کے تعلقات قائم کرے مگر امریکا ایسا کیوں کرے؟ پاکستان کے پاس امریکا کو دینے کے لیے ہے ہی کیا؟ یہی کافی ہے کہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی مجبوری امریکا ہے۔ ان کا تعلیم تفریح اور کاروبار کا مرکز ہی امریکا ہے۔ وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔

رچرڈ اولسن کا یہ تجزیہ ہوائی نہیں تھا بلکہ اسلام آبا د میں سفارتی ذمے داریوں کے دوران انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا تھا کہ پاکستان کی فیصلہ ساز اشرافیہ امریکا کے بغیر سانس لینے کا تصور نہیں کر سکتی اور خود امریکا بھی پاکستانی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی جانے والی دولت کو اپنے ہاں بصد خوشی قبول کرتا ہے اور پھر اس دولت کو تحفظ دیتا ہے۔ یہ پاکستان کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امریکا بھارت کو ہر صورت میں چین کے مدمقابل تہذیب کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ایشیا سے اگر اسے کنفیوشس تہذیب کے مقابلے سے متعلق اپنے تزویراتی پروجیکٹ چھوڑ کر رخصت ہونا بھی پڑے تو وہ اس خلا کو ہندو تہذیب اور شناخت کے حامل بھارت کے ذریعے پر کرے۔ اسی لیے اب امریکا کو بھارت کی سیکولر شناخت کی ہندو راشٹریہ بننے پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہا۔ یہاں تک کہ امریکا نے اسرائیل کے بعد اگر کسی ملک کو اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر کا حقدار جانا تو ملک صرف بھارت ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ایلیٹ کلاس جسے رچرڈ اولسن نے دوسرے لفظوں میں امریکا کی ’’پیراسائٹ‘‘ قرار دیا ہے امریکا کے دبائو کا سامنا نہیں کرسکتی۔ چند برس قبل امریکا سے ایک سائفر آنے پر جس بحران کا آغاز ہوا تھا وہ اب امریکی حکام کے ٹویٹس کے ذریعے مزید سنگین اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ایک مراسلہ بھیج کر پاکستان کو حالات کی دلدل میں دھکیلا گیا اور اب ٹویٹس کے ذریعے اس دلدلی سفر کو مزید طویل، پیچیدہ اور گہرا بنایا جا رہا ہے۔ ماضی میں امریکا اور پاکستان کے درمیان ایسے مشکل مقامات آتے تھے تو پاکستانی رائے عامہ اینٹی امریکن ازم کا چولا پہن کر اپنی مقتدرہ کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی۔ اسی کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک بار اسلام آباد میں کہا تھا کہ پاکستان اپنی رائے عامہ میں اینٹی امریکن ازم پیدا کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرے مگر سائفر بحران نے پاکستانی مقتدرہ اور رائے عامہ میں ایسی خلیج پیدا کردی ہے کہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ماضی میں جب بھی پاکستان کی مقتدرہ اور امریکا میں ٹھن جاتی تھی تو امریکا سول حکمرانوں کے ساتھ راہ ورسم پیدا کرتا تھا۔ میموگیٹ اور ڈان لیکس اسی حکمت عملی کا مظہر تھے۔ اس بار سارے اسٹرٹیجک اثاثے اقتدار کی ٹوکری میں ہیں اور رائے عامہ اور ان کی پسندیدہ قیادت دوسری انتہا پر کھڑے ہیں۔ ایسے میں امریکا کو پاکستان کی کلائی مروڑنے میں زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔ پاکستانی مقتدرہ کے لیے ٹرمپ آؤٹ آف سلیبس کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

موجودہ سسٹم اس مغالطہ کا شکار رہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ کے کردار اب تاحیات امریکا پر براجمان رہیں گے۔ اسی لیے انہوںنے ٹرمپ کی سیاست اور انداز کو مختلف اوقات میں ہدف تنقید بنایا۔ بائیڈن انتظامیہ اور امریکی ڈیپ اسٹیٹ کے ارادے شاید یہی ہوئے مگر جمہوریتوں میں عوامی رائے کو راہ دیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس قدر گہرا ہوتا چلا جائے گا امریکا کے لیے پاکستان کی کلائی مروڑنا اور اپنے فیصلے منوانا آسان ہوتا چلا جائے گا۔ اس بحرانی کیفیت میں پاکستان ایک دن چین کے دروازے پر تو دوسرے دن امریکا کی دہلیز پر پنڈولم کی طرح جھولتا نظر آئے گا۔ جیسا کہ محسن نقوی نے دورہ امریکا میں کیا تھا۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلو سے اُٹھے تو چین مخالف تقریب میں جا پہنچے۔ پاکستان کا موجودہ سسٹم ایک طرف چین کو سی پیک سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر چکا ہے تو دوسری طرف امریکا کے عزائم اور تیور خطرناک اور زہرناک ہوتے جارہے ہیں جبکہ اس بحرانی مثلث کا تیسرا زاویہ اپنی رائے عامہ ہے جو واشنگٹن سے اسلام آباد اور سڈنی سے لندن تک اس بار اپنی مقتدرہ سے ایک مستقل فاصلہ بنائے بیٹھی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو پاکستان کے لیے امریکا کے اہداف کی تکمیل کو آسان بنا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے بارے میں تلسی گبارڈ پاکستان کے میں امریکا پاکستان کا پاکستان کی امریکا کے امریکا کو اور بھارت بھارت کے کے ذریعے اسلام ا کیا تھا کے ساتھ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن

گزشتہ شب دبئی کے میدان میں پاک بھارت میچ نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ ایک طرف میدان کے اندر بھارتی ٹیم کی جیت کو فوج اور پہلگام متاثرین کے نام کیا گیا، تو دوسری جانب اسٹیڈیم میں موجود پاکستانی اور بھارتی شائقین کے گلے ملنے اور ایک دوسرے کے لیے محبت بھرے نعروں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی۔

یہ منظر واضح کر رہا تھا کہ عوامی سطح پر تعلقات کی خواہش کچھ اور ہے اور کھیل کے منتظمین کے ایجنڈے کچھ اور۔ بھارت کا رویہ یہاں سب سے نمایاں ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز کھیلنے سے انکار کرتا ہے، فنکاروں اور موسیقاروں پر پابندیاں لگاتا ہے، حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے اپنے شہریوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔

دوسری طرف جب بات آئی سی سی یا ایشین کرکٹ کونسل کے ٹورنامنٹس کی آتی ہے تو اربوں ڈالر کے نشریاتی معاہدوں اور اشتہارات کی خاطر کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جسے ماہرین ’محبت اور منافقت‘ کا امتزاج قرار دیتے ہیں۔

کرکٹ کو ’جنٹلمینز گیم‘ کہا جاتا ہے، مگر جب یہ کھیل قومی وقار اور ریاستی سیاست سے جڑ جائے تو پھر ’بیٹ اور بال‘ کے بیچ طاقت، انا اور بیانیے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ کل کے پاک بھارت میچ کے بعد پیدا ہونے والا ’ہینڈ شیک تنازع‘ اس بحث کو ایک بار پھر زندہ کر گیا ہے کہ کھیل کو سیاست سے کیسے الگ رکھا جائے اور آئی سی سی اس ضمن میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟

ایشیا کپ کے دبئی میچ کے بعد بھارتی ٹیم کا پاکستان کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کھیل کی اسپرٹ سے انحراف تھا۔ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے اسے حکومتی و بورڈ پالیسی کے مطابق قرار دے کر یہ تاثر مزید پختہ کر دیا کہ یہ فیصلہ کھیل کا نہیں بلکہ سیاسی تھا۔

پاکستان نے بھی احتجاجاً اپنا کپتان پریزنٹیشن کے لیے نہ بھیج کر اس رویے پر ردعمل دیا۔ کوچ مائیک ہیسن اور سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے واضح کہا کہ کھیل کو سیاست میں گھسیٹنا ناقابل قبول ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ محض کھیل نہیں، تاہم پاکستان نے ہمیشہ اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کیا۔ 1999 کے لاہور ٹیسٹ میں کارگل کے پس منظر کے باوجود پرویز مشرف اور بھارتی ٹیم کی مسکراہٹیں یادگار ہیں مگر اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔

2019 میں بھارت نے ورلڈ کپ میں پاکستان سے میچ کھیلنے کے خلاف مہم چلائی، مگر آئی سی سی نے دباؤ قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس، پاکستان نے بارہا بھارت کے ان اقدامات پر اعتراض کیا جن سے کھیل کو سیاست میں گھسیٹا گیا، لیکن اکثر شکایات نظرانداز ہوئیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ یہ کھیل سیاست، نسلی امتیاز اور عالمی تنازعات سے بارہا متاثر ہوا ہے۔ آئی سی سی بارہا مؤقف اپناتی رہی کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھا جائے، مگر اس میں تضاد بھی نمایاں رہا ہے۔ چند اہم مثالیں:

1968: جنوبی افریقہ
نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کی پالیسی کے باعث جنوبی افریقہ کو بین الاقوامی کرکٹ سے باہر کر دیا گیا اور پروٹیز کئی دہائیوں تک عالمی کرکٹ کھیلنے سے محروم رہے۔

1996: بھارت بمقابلہ سری لنکا
ورلڈ کپ کے دوران بھارت نے تامل شورش کے باعث سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا۔ آئی سی سی نے اسے کھیل کے اصولوں کے منافی قرار دے کر میچ سری لنکا کو دے دیا۔

2003: زمبابوے
زمبابوے کے کھلاڑی اینڈی فلاور اور ہنری اولونگا نے سیاہ پٹیاں پہن کر انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کیا، جس پر آئی سی سی نے انہیں وارننگ جاری کی۔ اسی ورلڈ کپ میں انگلینڈ نے زمبابوے میں میچ کھیلنے سے انکار کیا تو آئی سی سی نے پوائنٹس کاٹ لیے۔

2009: لاہور حملہ
سری لنکن ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد پاکستان برسوں تک اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم رہا اور نیوٹرل وینیو پر کھیلنے پر مجبور ہوا۔

2019: پلوامہ واقعہ
بھارتی ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف فوجی ٹوپیاں پہن کر میچ کھیلا۔ پاکستان نے احتجاج کیا مگر آئی سی سی نے صرف تنبیہ کے ساتھ معاملہ ختم کر دیا۔

2023: عثمان خواجہ کا احتجاج
آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے نعرے درج جوتے پہننے کا ارادہ کیا، مگر آئی سی سی نے ضوابط کی خلاف ورزی قرار دے کر روک دیا۔ بعدازاں انہوں نے بازو پر سیاہ پٹی باندھی تو ان پر چارج عائد کر دیا گیا۔

اس سے قبل جنوبی افریقہ کے اسپنر کیشو مہاراج کو مذہبی نشان کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جو آئی سی سی کے متضاد رویے کو اجاگر کرتا ہے۔

2025: ایشیا کپ ہینڈ شیک تنازع
14 ستمبر کو دبئی میں بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ یہ واقعہ اسپرٹ آف کرکٹ کی خلاف ورزی کے طور پر دنیا بھر میں زیر بحث آیا، مگر تاحال آئی سی سی کا کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔

پاکستانی کوچ مائیک ہیسن نے کہا کہ ہم کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں، سیاست اس میں شامل نہیں ہونی چاہیے۔ سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے مؤقف اپنایا کہ بھارت نے کھیل کی روح کو مجروح کیا۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن سیمی نے بھی زور دیا کہ آئی سی سی کو سب کے لیے یکساں اصول اپنانے ہوں گے۔

آئی سی سی کے پاس کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے جو کھیل میں سیاسی یا مذہبی علامت کے استعمال کو روکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصول سب پر یکساں لاگو ہوں گے یا بڑے بورڈز کے اثر و رسوخ کے آگے ضابطے کمزور پڑتے رہیں گے؟

دبئی کے اسٹیڈیم میں عوام نے ثابت کر دیا کہ تعلقات اور بھائی چارے کی خواہش سیاست سے زیادہ مضبوط ہے۔ اب یہ فیصلہ آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کو کرنا ہے کہ وہ کھیل کو سیاست کے بوجھ سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

آئی سی سی کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے۔ اگر وہ کھیل کو سیاست سے بالاتر رکھنے کے اپنے اصول پر قائم ہے تو اسے بھارت سمیت سب پر یکساں ایکشن لینا ہوگا۔ بصورت دیگر کھیل بزنس اور بیانیے کی بھینٹ چڑھتا رہے گا اور اس کی اصل روح کھو جائے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

آئی سی سی ایشیا کپ بھارت بی سی سی آئی پاک بھارت میچ محسن نقوی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بھارت کیلئے سرپرائز تھا: مشاہد حسین
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بہت اہم ہے، اس کے دور رس نتائج ہوں گے: ملیحہ لودھی
  • غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • بلوچستان کے اسکواش کھلاڑی شاہد مسعود خان نے یورپ و امریکا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  • آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن
  • امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات کل نئی دہلی میں ہوں گے