آج کل پاکستان بارے روز کوئی نہ کوئی منفی خبر میڈیا کی زینت بنتی ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے دنیا بھر کے ممالک میں بدعنوانی سے متعلق ’کرپشن پرسیپشن انڈیکس‘ جاری کیا ہے جس کے مطابق کرپشن انڈیکس میں پاکستان مزید تنزلی کا شکار ہو گیا ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں یہ کوئی انہونی بات تو نہیں مگر دل کو دھچکا ضرور لگا۔ پاکستان دو درجہِ تنزلی کے بعد 180 ممالک میں سے مجموعی طور پر 135 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اس بار بھی اپنے عمل کے ذریعے دنیا کو مایوس نہیں کیا اور انہیں پیغام دیا ہے کہ معاشی ترقی ہو یا نہ ہو مگر کرپشن میں ترقی پورے خلوص سے جاری رہے گی۔ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں اب کوئی ادارہ ایسا نہیں بچا جسے اقربا پروری، سیاسی اثر و رسوخ اور بدعنوانی دیمک کی طرح چاٹ نہ رہی ہو۔ ہم نے اپنے ان اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے انتھک کوششوں سے ایگزیکٹو کے ماتحت کر دیا ہے جنہوں نے حکومت کے مالی معاملات پر کڑی نظر رکھنا تھی اور ان کا احتساب کرنا تھا۔ ٹرانسپرنسی نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص اربوں ڈالر کے فنڈز چوری یا غلط استعمال ہونے کے خطرے کی نشاندہی بھی کی ہے۔ جو ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، ان میں سے بیشتر کا سی پی آئی سکور 50 سے کم ہے۔ پاکستان بھی اس وقت شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کے دباؤ کا شکار ہے۔ پاکستان کا کرپشن انڈیکس پر نمبر 29 سے 27 پر آ گیا ہے، لہٰذا عالمی بینک نے جو پاکستان کو صحت، تعلیم اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 10 سال میں 20 ارب ڈالر کی خطیر رقم بطور قرض دینے کا وعدہ کیا، اب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی بدعنوانی سے متعلق رپورٹ میں پاکستان کی بدترین پوزیشن کے بعد یہ فنڈز جلد ریلیز ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا، جو پوری دنیا کے الیے الارمنگ کال ہے۔ اس تباہ کن سیلاب سے پاکستان کو جہاں 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا وہیں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اس سے قبل 2010 کے ہولناک سیلاب نے بھی ملک کے جغرافیائی رقبے کا پانچواں حصہ تباہ کر دیا تھا جبکہ 2 کروڑ سے زائد افراد اپنی سر چھپانے کی جگہوں سے محروم ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے جبکہ سب سے زیادہ نقصانات بھی ہمیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ غیر معمولی گرمی، شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور موسمی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کا کاربن کے اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کا کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود متاثرہ ترین ممالک میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔ تاہم 2022 کے سیلاب پر جو بیرونی امداد پاکستان کو دی گئی اس پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وفاق سندھ پر چڑھائی کر رہا ہے کہ سیلاب زدگان کا پیسہ ان پر استعمال ہونے کے بجائے کن کی جیبوں میں گیا۔ وفاق نے عالمی بینک کے 4 ارب 10 کروڑ روپے کا حساب کتاب سندھ سے مانگ لیا ہے۔ دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے وفاق پر الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت نے سیلاب متاثرین کے لیے ملنے والا امدادی فنڈ اپنی جیب میں رکھ لیا ہے۔ غریبوں اور سیلاب متاثرین کے پیسوں پر لڑائی یہ ثابت کرتی ہے کہ ضرورت مند کو اس کا حق نہیں ملا اور نہ ملے گا۔ یہ فنڈز بُری طرح کرپشن کی نذر ہو گئے۔ اب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا مستقبل میں ملنے والی امداد بھی غلط جگہ استعمال ہونے کا خدشہ بظاہر درست لگتا ہے۔ کرپشن ماحولیاتی منصوبوں کو متاثر کر رہی ہے جس سے لاکھوں افراد کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ مگر جس ملک میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہو اور ادارے زوال پذیر ہو چکے ہوں وہاں شفافیت کی امید کیونکر لگائی جا سکتی ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم نے جہاں عدلیہ کی بچی کھچی آزادی کو سلب کیا ہے وہیں پیکا جیسے متنازع قانون نے آزادی رائے کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔ کرپشن کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں اب جمہوری اقدار بھی زوال پذیر ہیں جس کے واضح اثرات نے اب ہر پاکستانی کو جکڑ لیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایگزیکٹو، عدلیہ، ملٹری اور قانون سازوں کا ذاتی مقاصد کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال کا سکور 25 سے بڑھا کر 26 کر دیا ہے جو معمولی بہتری کی علامت ہے جبکہ پببلک سیکٹر، ایگزیکٹو، عدلیہ اور لیجسلیٹو کرپشن کا سکور 20 سے کم ہو کر 14 ہو گیا ہے، جو بتاتا ہے کہ یہاں معاملات خرابی کی طرف گئے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے لیے گیا ہے دیا ہے
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اپنے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ 9 مئی کے سانحہ میں ملوث ملزمان کے خلاف شواہد موجود تھے اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے تمام ضروری معلومات اکٹھی کی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ ان واقعات میں کون ملوث تھا۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےوزیر ِاطلاعات نے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں بانی پی ٹی آئی نے اپنے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ کہنا کہ "ہم ریاست مدینہ کی بات کر رہے تھے، اس لیے سزا ہو گئی" ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کا تعلق مذہب یا ریاست مدینہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک کرپشن کا کیس ہے جس میں شواہد کے مطابق کارروائی کی گئی ہے۔عطاء اللہ تارڑ نے بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا حق ہے کہ وہ مہم چلائیں، لیکن انہیں یہ قوم کو بتانا چاہیے کہ ان کے والد کو 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں سزا ہوئی ہے۔ وہ جہاں جا رہے ہیں، وہاں لوگوں کو بتائیں کہ ہمارے والد کو 190 ملین پاونڈ کرپشن کیس میں سزا ہوئی ، وہ جس سے بھی ملیں تو یہ بتائیں کہ سیاسی نہیں بلکہ کرپشن کا کیس ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے یہ بھی کہا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس ایک سیاسی کیس ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک کرپشن کیس ہے جس میں تمام شواہد موجود ہیں۔