بھارت میں مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، رکن پارلیمنٹ اقراء حسن
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
درخواست میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقراء حسن نے کہا کہ مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنا کر بار بار مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کیرانہ سے سماج وادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقراء حسن نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے جس میں عبادت گاہوں کے قانون (پلیسز آف ورشپ ایکٹ) 1991 کے مؤثر طریقہ سے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ معاملہ 14 فروری کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کرول کی بنچ کے سامنے رکھا۔ عدالت نے ان کی درخواست کو عبادت گاہوں کے قانون سے متعلق دیگر زیر التوا عرضیوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ہفتے نئی درخواستیں دائر ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے معاملہ الجھتا جا رہا ہے۔
سینیئر وکیل کپل سبل نے رکن پارلیمنٹ اقراء حسن کی طرف سے دلیل دی۔ درخواست میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقراء حسن نے کہا کہ مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنا کر بار بار مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغیر کسی ٹھوس تحقیقات اور قانونی بنیادوں کے سروے کے احکامات جاری کرنے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ ملتا ہے، اس سے ہم آہنگی اور رواداری جیسی آئینی اقدار کو خطرہ لاحق ہے۔ اقراء حسن نے اپنی درخواست میں کہا کہ عبادت گاہوں سے متعلق (پلیسز آف ورشپ ایکٹ) 1991 کی دفعات کو نظرانداز کرنا ناانصافی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قدیم یادگاروں اور آثار قدیمہ کے مقامات ایکٹ 1958 کے تحت کسی بھی عبادت گاہ کو قدیم یادگار کی تعریف میں شامل کرنا آرٹیکل 25، 26 اور 29 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
سنبھل میں تشدد کا ذکر کرتے ہوئے اقراء حسن نے کہا کہ یہ واقعہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے 16ویں صدی کی مسجد کے سروے کے حکم کے بعد پیش آیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ٹرائل کورٹ نے قانونی پہلوؤں کو درست طریقے سے جانچے بغیر یکطرفہ عبوری احکامات جاری کئے۔ غور طلب ہے کہ 12 دسمبر 2024ء کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی بنچ نے مذہبی مقامات کے خلاف نئے مقدمات اور سروے کے احکامات پر روک لگا دی تھی۔ یہ حکم گیانواپی مسجد، متھرا شاہی عیدگاہ اور سنبھل جامع مسجد جیسے معاملات میں بھی نافذ ہوا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقراء حسن نے نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد کے متاثرین کو معاوضہ دینے کی جمعیۃ علماء ہند کی عرضی کو خارج کردی
جمعیت علماء ہند اور دیگر کیطرف سے دائر درخواست میں تحسین پونا والا کیس میں سپریم کورٹ کے رہنما خطوط پر عمل آوری سے متعلق جامع ہدایات مانگی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے جمعیت علماء ہند کی جانب سے دائر درخواست پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ جسٹس جے کے پر مشتمل بنچ کے سامنے سماعت کے لئے آیا۔ مہیشوری اور وجے بشنوئی بنچ نے واضح کیا کہ وہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم میں مداخلت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، جس نے درخواست گزار کو ریاستی حکومت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جمعیت علماء ہند اور دیگر کی طرف سے دائر درخواست میں تحسین پونا والا کیس میں سپریم کورٹ کے رہنما خطوط پر عمل آوری سے متعلق جامع ہدایات مانگی گئی ہیں۔ پٹیشن نے پونا والا کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے تجویز کردہ احتیاطی، تدارکاتی اور تعزیری اقدامات کو نافذ کرنے میں ریاستی حکومت کی مبینہ ناکامی کو اجاگر کیا۔
اس سال جولائی میں الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی عرضی کو نمٹا دیا، جس میں تحسین ایس پونا والا بمقابلہ یونین آف انڈیا (2018) کیس میں موب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے واقعات کو روکنے اور ان سے نمٹنے کے لئے سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کی تعمیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے مسلم تنظیم کی عرضی کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ ہر واقعہ الگ تھلگ ہوتا ہے اور مفاد عامہ کی عرضی میں اس کی جانچ نہیں کی جاسکتی۔ تاہم ہائی کورٹ نے کہا کہ متاثرہ فریقوں کو سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل درآمد کے لیے متعلقہ حکومتی اتھارٹی سے رجوع کرنے کی آزادی ہے۔
پی آئی ایل میں ہائی کورٹ کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ریاستی حکومت کو ہر ضلع میں نوڈل افسران کی تقرری سے متعلق نوٹیفکیشن اور سرکلر جاری کرنا چاہیئے تاکہ ہجوم تشدد کے معاملات سے نمٹا جاسکے اور اس طرح کے معاملات میں اسٹیٹس کی رپورٹ دینا چاہیئے۔ اس کے ساتھ ہی ایک مطالبہ کیا گیا کہ ڈی جی پی کو ہدایت کی جانی چاہیئے کہ وہ گذشتہ 5 سالوں میں ہجومی تشدد کے واقعات میں مجرمانہ تحقیقات کی اسٹیٹس رپورٹ درج کریں۔ نیز علی گڑھ واقعے کے متاثرین کو معاوضے کے طور پر 15 لاکھ روپے فراہم کرنے کی ہدایت دی جانی چاہیئے۔