نوعمر آبادی میں صحت کے مسائل کی بنیادی وجہ جنک فوڈ ہے، ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
دنیا بھر میں بچے تیزی سے جنک فوڈ کی طرف راغب ہورہے ہیں اور اپنی صحت اور تندرستی سے سمجھوتہ کر رہے ہیں۔
فاسٹ فوڈ چینز، اسٹورز اور نوجوانوں کے ذہنوں کو نشانہ بنانے والے اشتہارات کے پھیلاؤ نے بچوں میں موٹاپے، ذیابیطس اور خوراک سے متعلق دیگر عوارض میں اضافہ کردیا ہے۔
صحت کے ماہرین خوراک کی تشہیر، بہتر غذائیت کی لیبلنگ اور اسکولوں اور کمیونٹیز میں صحت مند کھانے کے اختیارات تک رسائی بڑھانے کے لیے سخت ضابطوں کی وکالت کر رہے ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق 5 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 30 فیصد بچے زیادہ وزن اور موٹاپے کا شکار ہیں اور جنک فوڈ اس کی بنیادی وجہ ہے۔
ماہرِ اطفال وسیم ملک نے کہا کہ بچپن میں مُٹاپے میں خطرناک حد تک اضافہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے لیے ایک ٹائم بم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنک فوڈ ایک بڑا ’مجرم‘ ہے کیونکہ اس میں کیلوریز، چینی اور غیر صحت بخش چکنائی زیادہ ہوتی ہے لیکن ضروری غذائی اجزا بہت کم ہوتے ہیں۔
جنک فوڈ صحت کے متعدد مسائل کا ذمہ دار ہے جس میں مُٹاپے اور ذیابیطس سے لے کر دل کی بیماری اور کینسر کی بعض اقسام شامل ہیں۔ مزید برآں جنک فوڈ باقاعدگی سے کھانے والے بچوں میں انسولین کے خلاف مزاحمت بڑھ جاتی ہے اور ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستانی ماہرین نے سالانہ 200 انڈے دینے والی مرغی تیار کرلی
فیصل آباد:پاکستانی ماہرین نے پولٹری فارمنگ کے شعبے میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیہی علاقوں کے لیے موزوں نئی مرغی کی نسل متعارف کروا دی ہے، جو سال بھر میں 200 سے زائد انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین نے اس منفرد بریڈ کو ’’یونی گولڈ‘‘ کا نام دیا ہے، جو کم فیڈ پر پلتی ہے اور شدید موسم، خاص طور پر گرمی کو بخوبی برداشت کر سکتی ہے۔
نئی نسل کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ عام دیسی مرغی کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ انڈے دیتی ہے، جبکہ خوراک کی طلب نسبتاً کم ہے، جو اسے چھوٹے فارمرز کے لیے ایک بہترین انتخاب بناتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یونی گولڈ بریڈ دیہی علاقوں میں پولٹری انڈسٹری کے فروغ کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس سے انڈوں کی پیداوار کے ساتھ ساتھ گوشت کی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی پاکستان میں گزشتہ 6 دہائیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے، جو ملکی تحقیق میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس نسل کو ملک بھر کے فارمنگ کرنے والوں تک پہنچانے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر دیسی پولٹری کی پیداوار میں اضافہ ہو اور دیہی معیشت کو فروغ ملے۔
یہ مرغی نہ صرف ماحول کے لحاظ سے ہم آہنگ ہے بلکہ دیہی خواتین کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، کیونکہ اس کی دیکھ بھال آسان اور کم لاگت ہے۔