Islam Times:
2025-07-26@19:23:24 GMT

علم ہے رازِ حیات

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

علم ہے رازِ حیات

اسلام ٹائمز: خود شناسی ایک قیمتی تحفہ ہے، جو آپ خود کو دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور ایک کامیاب اور خوشگوار مستقبل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے تو آئیے آج ہی خود شناسی کے سفر پر گامزن ہوں اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیں۔ توجہ رہے کہ کردار سازی میں علم کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی حس سے نوازتا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

علم وہ روشنی ہے، جو جہالت کے اندھیروں کو چیر کر راستے دکھاتی ہے۔ علم کے بغیر زندگی اس ویران صحرا کی مانند ہے، جس میں بھٹکنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔علم ہی وہ طاقت ہے، جس سے انسان اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو وحی نازل فرمائی، وہ علم کے بارے میں تھی۔ علم صرف کتابوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ تجربات، مشاہدات اور غور و فکر سے بھی علم حاصل ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنے کا کوئی وقت اور عمر نہیں ہوتی۔انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے۔

علم کی بدولت انسان دنیا کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ یہ اسے مسائل کو حل کرنے اور نئے آئیڈیاز پیدا کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ علم انسان کو باشعور بناتا ہے اور اسے اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے قابل بناتا ہے۔ علم کی اہمیت صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ علم کی بدولت معاشی خوشحالی آتی ہے اور سماجی برائیاں ختم ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم کی اہمیت کو کم سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ تعلیم کو صرف نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ علم کا حقیقی مقصد انسان کو بہتر انسان بنانا ہے۔

توجہ رہے کہ زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے، جس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، لیکن یہی نشیب و فراز زندگی کو بامعنی اور دلچسپ بناتے ہیں۔ زندگی کا کوئی ایک راز نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف رازوں کا مجموعہ ہے، جنہیں سمجھ کر ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ زندگی کا سب سے پہلا اور اہم راز خود شناسی ہے۔ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کون ہیں، ہم کہاں سے آئے ہیں۔ ہمارا خالق کون ہے۔؟ہماری خلقت کا ہدف کیا ہے؟ ہماری طاقتیں کیا ہیں؟ ہماری کمزوریاں کیا ہیں؟ اور ہم زندگی سے کیا چاہتے ہیں؟ ہمیں کیسے زندگی گزارنی چاہیئے۔؟

جب ہم خود کو جان لیتے ہیں تو ہم اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں تجربات سے گزرتے ہیں، سیکھتے ہیں اور بدلتے ہیں۔ اس سفر میں خود شناسی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود شناسی کا مطلب ہے اپنی ذات کو سمجھنا، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو جاننا، اپنی اقدار اور مقاصد کا تعین کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جو ہمیں اپنی زندگی کو بامعنی اور کامیاب بنانے میں مدد کرتا ہے۔ خود شناسی ذاتی ترقی کی بنیاد ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو سمجھتے ہیں تو ہم اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ خود شناسی ہمیں بہتر فیصلے کرنے میں مدد کرتی ہے۔

جب ہم اپنی اقدار اور مقاصد کو جانتے ہیں تو ہم ایسے فیصلے کرسکتے ہیں، جو ہمارے لیے صحیح ہوں۔ خود شناسی ہمیں دوسروں کے ساتھ مضبوط تعلقات بنانے میں مدد کرتی ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو سمجھتے ہیں تو ہم دوسروں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ خود شناسی ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو قبول کرتے ہیں تو ہم زیادہ پر اعتماد اور مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ خود شناسی کیسے حاصل کریں۔؟ خود شناسی ایک مسلسل عمل ہے، جس میں وقت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔ انسان مختلف طریقوں سے خود شناسی حاصل کرسکتا ہے۔ سب سے اہم طریقہ غور و فکر ہے۔ اپنے خیالات، احساسات اور رویوں پر غور کریں۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ آپ کیوں اس طرح برتاؤ کرتے ہیں؟

دوسرا اہم طریقہ تجربہ ہے۔ نئی چیزیں آزمائیں۔ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔تیسرا اہم طریقہ مطالعہ ہے۔ خود شناسی کے بارے میں مختلف شخصیات کی کتابیں اور مضامین پڑھیں۔ چوتھا اہم طریقہ مشاورت ہے۔ کسی مشیر سے بات کریں۔ وہ آپ کو اپنی ذات کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے میں مدد کرسکتا ہے۔ الغرض خود شناسی ایک قیمتی تحفہ ہے، جو آپ خود کو دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور ایک کامیاب اور خوشگوار مستقبل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے تو آئیے آج ہی خود شناسی کے سفر پر گامزن ہوں اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیں۔ توجہ رہے کہ کردار سازی میں علم کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی حس سے نوازتا ہے۔

علم کی بدولت ہی انسان معاشرے میں بہتر رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے اور منفی سرگرمیوں سے بچتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کی کردار سازی پر توجہ دیں۔ اساتذہ اپنے طلباء کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے کردار پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ایک استاد کا اپنا ذاتی کردار ایسا ہونا چاہیئے کہ شاگرد اس پر رشک کرے۔ اگر طلبہ کو زندگی کے ابتدائی مراحل میں ایمانداری، انصاف پسندی اور دوسروں کے حقوق کا احترام سکھایا جائے تو وہ آگے چل کر معاشرے کے فعال اور ذمہ دار شہری بن سکتے ہیں۔ کردار سازی کے ذریعے نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔

انہیں والدین، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق سکھائے جاسکتے ہیں اور یہ بھی سکھایا جاسکتا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی میں کیسے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں تبدیلی لائی جائے، تاکہ طلبہ پر پڑھائی کا دباؤ کم ہو اور انہیں اپنی شخصیت کو نکھارنے کا موقع مل سکے۔ درسگاہوں میں کردار سازی کی اہمیت کو اجاگر کیا جانا چاہیئے، تاکہ طلبہ مہذب اور با اخلاق بن سکیں۔کردار کی تعلیم ایک جامع اصطلاح ہے، جو بچوں میں خوش اطواری اور خوش اسلوبی کی صلاحیتیں ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ کردار سازی پر مبنی تعلیم کو سماجی ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے لیے ترجیح دی جانی چاہیئے۔ بے شک علم ہے راز حیات۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اپنی زندگی کو خود شناسی ایک اپنی ذات کو جب ہم اپنی اہم طریقہ ہیں تو ہم اور اپنی کی اہمیت انسان کو کرتے ہیں سکتے ہیں کرتی ہے کرتا ہے کو بہتر ہیں اور ہے اور کے لیے علم کی

پڑھیں:

کونسے اہم کردار اب ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ ڈرامے میں نظر نہیں آئیں گے؟

بھارتی ڈرامہ انڈسٹری  کے مشہور ترین ڈرامہ سیریل ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا دوسرا سیزن جلد ہی اسٹار پلس پر نشر کیا جائے گا جس میں شائقین کو کئی نئے موڑ دیکھنے کو ملیں گے تاہم کچھ یادگار کردار ایسے بھی ہیں جو اس بار شو میں واپس نہیں آئیں گے لیکن ناظرین انہیں ضرور یاد کریں گے۔

’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کے کردار جو نئے ریبوٹ میں نظر نہیں آئیں گے۔

با (سدھا شیوپوری)

با کا کردار شو کی سمجھدار اور مہربان دادی کے طور پر بہت مقبول ہوا، جسے سدھا شیوپوری نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا۔ شو کے اختتام سے کچھ پہلے ان کے کردار کی موت ہو گئی، جو شائقین کے لیے ایک جذباتی لمحہ تھا۔

ساویتا ویرانی (اپارا مہتا)

تُلسی کی ساس ساویتا ویرانی، جس کا کردار اپارا مہتا نے نبھایا، ایک یادگار کردار بن گئی تھیں۔ ان کے کردار کا اختتام اُس وقت ہوا جب تُلسی نے اسپتال میں ان کا وینٹیلیٹر بند کر دیا تھا۔

گوتَم ویرانی (سمیت سچدیو)

گوتَم، تُلسی کا بڑا بیٹا ہے جسے سب پیار سے’گومزی‘ کہتے تھے یہ کردار سمیت سچدیو کی بہترین اداکاری کی بدولت ناظرین کا دل جیت گیا تھا۔ بدقسمتی سے وہ نئے ورژن میں نظر نہیں آئیں گے۔

انش (آکاش دیپ سہگل)

تُلسی کا بیٹا انش، جو ٹی وی کا اصل ’بیڈ بوائے‘ مانا جاتا تھا۔ ان کا کردار آکاش دیپ سہگل نے نبھایا تھا۔ اس کردار کا ڈرامائی انجام اس وقت ہوا جب تُلسی نے خود اسے قتل کر دیا تھا۔ یہ کردار بھی ریبوٹ کا حصہ نہیں ہوگا۔

پائل (جیا بھٹّاچاریہ)

پائل کا کردار جیا بھٹاچاریہ نے ادا کیا، تُلسی کے خلاف مسلسل سازشیں کر کے شو کی ٹی آر پی کو کئی سال تک بلند رکھتی رہی۔ اس منفی کردار کو بھی ناظرین ضرور یاد کریں گے، مگر وہ اس بار واپس نہیں آئیں گی۔

یہ تمام کردار اپنے ناظرین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے، چاہے وہ نئے شو کا حصہ نہ بن سکیں۔

’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا نیا ریبوٹ 29 جولائی 2025 کو ریلیز ہونے جا رہا ہے۔ اس ڈرامے سے توقع ہے کہ یہ ایک بار پھر ٹی آر ہی کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

یہ ڈرامہ سب سے پہلے 2000 میں نشر ہوا تھا اور کئی برسوں تک ناظرین کی پہلی پسند بنا رہا۔ اس ڈرامے نے 8 سال تک اپنی کامیاب نشریات جاری رکھی اور ناظرین کے دلوں میں ایک خاص مقام بنا لیا۔ ڈرامے کی کہانی گجرات کے ایک بڑے اور امیر خاندان کے گرد گھومتی ہے، جہاں تُلسی ایک مثالی بہو کے کردار میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹار پلس انڈین ڈرامہ تلسی کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی

متعلقہ مضامین

  • ایک باکمال نثر نگار، حیات عبد اللہ
  • جنرل ہسپتال کے ڈاکٹر کی فرض شناسی، سانپ کے ڈسے مریض کی جان بچا لی
  • کرشمہ کپور اور آنجہانی سنجے کپور کے تعلقات پر سنیل درشن کے حیران کن انکشافات
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  •  ٹک ٹاک کے جنون نے ایک اور زندگی نگل لی
  • ثناء یوسف قتل کیس: پولیس چالان میں عمر حیات قاتل قرار
  • سکردو میں کانفرنس بعنوان "حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں" (2)
  • سکردو میں کانفرنس بعنوان "حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں" (1)
  • شوگر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والا معمول کیا ہوسکتا ہے؟
  • کونسے اہم کردار اب ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ ڈرامے میں نظر نہیں آئیں گے؟