استحکام لاچکے ہیں، اب آگے کی طرف سفر شروع کریں گے، ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تھا اس کے پاس نگران حکومت آگئی اورمعیشت کی صورتحال ابتر ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ ملک 38 فیصد مہنگائی اور پالیسی ریٹ 22 فیصد تک پہنچ گیا، ایسے میں کون کاروبار کرسکتا تھا، جن کے پاس پیسہ تھا انہوں نے کام کے بجائے بینک میں پیسہ رکھنے کو ترجیح دی۔
اسحاق ڈاع نے کہا کہ معیشت کے ساتھ ساتھ سفارتی طور پر بھی ہم الگ ہوچکے تھے، بیرون ملک سے کوئی دورے پر نہیں آتا تھا، انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہم اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سال میں استحکام لاچکے ہیں اور اب آگے کی طرف سفر شروع ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ 12 فیصد پر آچکا ہے، ایکسپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی دوبارہ تعریف کررہے ہیں۔
ڈپٹی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں دہشتگردی پچھلی حکومت سے ورثے میں ملی، ہم نے اپنی پچھلی حکومت میں دہشتگردی کا خاتمہ کیا تھا، پاکستان ایک محفوظ ملک بن گیا تھا لیکن اب 2 سالوں میں دہشتگردی میں دوبارہ اضافہ ہوا۔
انہوں نے گزشتہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم پالیسیز بناتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ملک کا فائدہ ہوگا یا نہیں، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کیا غلطی کی، جب ہم نے دہشتگردوں کے خلاف جنگ شروع کی تو وہ بھاگ کر دوسرے ملک میں پناہ لی لیکن اگلی حکومت 35 سے 40 ہزار لوگوں کو واپس لے آئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Economy ishaq dar اسحاق ڈار معیشت.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب الله لبنان
اپنے ایک بیان میں شیخ علی دعموش کا کہنا تھا کہ امریکہ کیجانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" كی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ "شیخ علی دعموش" نے کہا کہ لبنان کی حکومت نے اس غلط فہمی پر انحصار کیا کہ امریکہ و اسرائیل کے خیال میں مزاحمت کمزور ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا كہ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں تاہم لبنان کو کمزور کرنے والی کسی تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔ شیخ علی دعموش نے کہا کہ دشمن سمجھتا تھا کہ وہ فیصلوں، دباؤ، حملوں و جنگ کی دھمکیوں سے مزاحمت کو جھکا سکتا ہے اور ہمیں امریکہ و اسرائیل کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور کر سکتا ہے۔ البتہ وہ حزب الله و امل تحریک کی ثابت قدمی سے حیران رہ گئے اور اس سے بھی زیادہ، مزاحمت کے حامیوں کی ہتھیاروں سے وابستگی نے انہیں حیران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو نقصان پہنچانے کی حکومتی کوششیں اب رک چکی ہیں۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مزاحمت دباؤ یا دھمکیوں سے ختم ہو سکتی ہے، وہ غلط فہمی میں ہیں۔ جو لوگ مزاحمت کو کمزور سمجھنا شروع ہو گئے ہیں وہ اور بھی زیادہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
شیخ علی دعموش نے حکومت کو خبردار کیا کہ فوج کو استقامتی محاذ کے خلاف استعمال نہ کریں اور اسے اپنے ہی عوام کے سامنے نہ کھڑا کریں۔ فوج کا کام ملک پر حملے روکنا، اندرونی امن قائم رکھنا اور استحکام کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ عوام سے لڑنا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ قومی سطح پر دفاعی حکمت عملی پر بات چیت ہو اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ہم کوئی ایسا مشورہ قبول نہیں کریں گے جو لبنان کی طاقت کو کم کرے۔ انہوں نے کہا کہ استقامتی محاذ سے ہتھیاروں کی حوالگی کے معاملے پر کوئی چالاکی یا ہوشیاری نہیں چلے گی۔ ہم یہ قبول نہیں کریں گے کہ ہماری طاقت اور دفاعی صلاحیتیں، ہم سے چھین کر امریکہ و اسرائیل کے فائدے کے لئے استعمال ہوں۔ ہم یہ بھی قبول نہیں کریں گے کہ لبنان ایک کمزور اور شکست خوردہ ملک بن جائے جس پر آسانی سے اندرونی یا بیرونی حملے کئے جائیں۔ آخر میں انہوں نے زور دیا کہ امریکہ کی جانب سے لبنان اور خطے پر مسلسل حملے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ مزاحمت ایک قومی ضرورت ہے۔