Daily Ausaf:
2025-06-03@01:29:52 GMT

’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا تصوراتی بیانیہ!

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

اپریل2022ء سے اَب تک، پی۔ٹی۔آئی کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پاکستان کسی سیاسی بحران کا شکار ہوا نہ روایتی عدمِ استحکام کا کوئی ایسا بھونچال آیا کہ دَرودِیوار لرز اٹھتے اور نظمِ حکومت کو سنبھالے رکھنا مشکل ہوجاتا۔ البتہ پی۔ٹی۔آئی کی اپنی کشتی بَرمودا تکون کے خونیں جبڑوں تک آن پہنچی ہے۔ چوبی تختے چرچرا رہے ہیں، بادبان دھجیاں ہو رہے ہیں، کشتی کو سنبھالا دینے کے بجائے مسافر ایک دوسرے کو سمندر میں دھکیل رہے ہیں اور شام گہری ہورہی ہے۔
عمران خان نے ’عدمِ اعتماد‘ کے ذریعے اقتدار بدر ہونے سے پہلے ہی سائفر کا ناقوس بجایا۔ اِسے پاکستانی جرنیلوں اور امریکیوں کی سازش کا نام دیا۔ ہمدردی کی انقلاب آفریں عوامی لہر اُٹھانے کی کوشش کی۔ کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم پی۔ڈی۔ایم حکومت کو بھی دھکا نہ دیا جاسکا۔ فوج کے اندر بغاوت بپا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اڑھائی سو سے زائد عسکری تنصیبات پر حملے کئے۔ شہدا کی یادگاروں کو قہروغضب کا نشانہ بنایا۔ طیارے نذرِ آتش کئے۔ فتنہ پرور سوشل میڈیا کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیں۔ ملکی سلامتی کے انتہائی حساس معاملات کو بازیچۂِ اطفال بنادیا۔ اپنے عشق میں ہلکان عدلیہ سے عجوبۂِ روزگار فیصلے حاصل کئے لیکن پاکستان کے کسی گوشے میں ایسے بحران یا سیاسی عدمِ استحکام نے انگڑائی نہ لی جو نظم ِ اجتماعی کو مفلوج کردیتا۔
انتخابات کے بعد، گذشتہ ایک برس میں بھی پی۔ٹی۔آئی مسلسل جتن کرتی رہی کہ ملکی اداروں کو متنازع بنا کر ہموار پانیوں میںتَلَاطُم اُٹھایا جائے۔ 24 نومبر 2024ء کو اسلام آباد پر لشکر کشی کو ’’فائنل کال‘‘ کا نام دیاگیا۔ یہ حملہ بھی شرم ناک ہزیمت کا سیاہ داغ چھوڑ گیا۔نیم دِلی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن دو تین ملاقاتوں کے بعد ہی اُکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہوکر گھر لوٹ گئی۔ کبھی یورپی یونین کو درسِ جمہوریت دیتے ہوئے باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان ’جی۔ایس۔پی‘ پلس کی رعایت کا حق دار نہیں رہا۔ کبھی آئی۔ایم۔ایف کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو پھوٹی کوڑی تک نہ دو۔ کبھی امریکی ارکان کانگرس کی مٹھی گرم کرتے ہوئے مرضی کے بیانات دلوائے۔ کبھی برطانوی پارلیمنٹ میں سرنگیں لگائیں اور پاکستان کو مغلظات سنوائیں۔ دُہائی دی کہ ’’پاکستان کی صورتِ حال غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے بھی بدتر ہوچلی ہے۔‘‘ سفارت کاروں کو جمع کرکے پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی کوشش کی۔ حال ہی میں ایک بھاری بھرکم ’ڈوزیئر‘ آئی ایم ایف کے حوالے کیاگیا ہے جس میں پاکستان کو ایک سفاک اور انسانیت کُش ریاست باور کرانے کی ’’سعیِٔ جمیل ‘‘کی گئی ہے۔ الحمدللہ۔ کھُلی ملک دشمنی کی حدوں کو چھوتی ایک بھی مکروہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کوئی بحران پیدا ہوا نہ سیاسی عدمِ استحکام جو ملک کی چُولیں ہلا دیتا۔
نومبر2024ء کے اواخر میں عمران خان نے سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی کمائی پاکستان نہ بھیجیںتا کہ ملکی خزانہ خالی ہوجائے ۔ ادائیگیاں ممکن نہ رہیں اور ملک دیوالیہ ہوجائے۔ اِس سے ایک بڑے اقتصادی بحران کا سونامی جنم لے گا جو ریاست کی بھُربھری دیواروں سے ٹکرائے گا اور شدید نوعیت کے سیاسی عدمِ استحکام کا سیل بلا حکومت کو بہا لے جائے گا۔ پچھلے تین ماہ سے یہ اپیل دیارِ غیر میں رُسوا ہو رہی ہے لیکن پاکستانی کان نہیں دھر رہے۔ ’’الجزیرہ‘‘ نے 12 فروری کو اِس داستان کا نوحہ پڑھتے ہوئے سُرخی جمائی ’’How Pakistan’s Imran is losing remittances war against the Government‘‘
’’عمران کیوں کرحکومت کے خلاف ترسیلاتِ زَر کی جنگ ہار رہا ہے۔‘‘
پاکستانیوں نے دسمبر میں تین ارب ڈالر پہلے سے زیادہ پاکستان بھیجے۔ جنوری کے آخر میں ترسیلاتِ زَر میں مزید تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا۔ سیاسی بحران اور سیاسی عدمِ استحکام کی آرزو، اڈیالہ جیل کی راہداریوں کا رزق ہوگئی۔
چار مرتبہ، تحریکوں کے نتیجے میں پاکستان انتشار، سیاسی عدمِ استحکام یا ہمہ جہتی بحران کا نشانہ بنا۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں، ایوب خان کے خلاف اُٹھنے والی تحریک نے معمولاتِ حیات درہم برہم کردیے۔ سب تدبیریں الٹی ہوگئیں تو فیلڈ مارشل نے اپنا آئین، کوڑے دان میں پھینکا اور جان کی امان کی خاطر کمان جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرکے گھر چلاگیا۔ سیاسی عدمِ استحکام اور منہ زور بحران کی دوسری واضح مثال 1970ء کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان میں سراُٹھانے والی منہ زور تحریک تھی جس نے نصف پاکستان کی رگِ جاں دبوچ لی اور پھر اُس کی فصیل پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا۔ تیسری بڑی تحریک 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے عنوان سے اٹھی اور ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی، ’تحریک نظام مصطفیؐ‘ کے سانچے میں ڈھل گئی۔ حکومت کے اعصاب جواب دینے لگے۔ چار شہروں میں مارشل لا نافذ کرنے کے باوجود ملک گیر احتجاج کو نکیل نہ ڈالی جاسکی۔ اِس ہمہ جہتی سیاسی عدمِ استحکام کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور ملک پر فوجی حکمرانی کی طویل شبِ سیاہ مسلط ہوگئی۔ چوتھی بڑی تحریک نے آزادیِٔ عدلیہ کے پرچم تلے بال وپَر نکالے جب طاقت کے نشے میں چُور جنرل مشرف نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرکے عدلیہ کو غلام بنانے کی کوشش کی۔
اِس تحریک نے مشرف کو ناتواں کرکے رکھ دیا اور پھر وہ کبھی اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہوسکا۔ قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ بالعموم یہ تحریکیں بے ثمر رہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک 1970ء کے انتخابات کے بعد نئے انداز سے اُبھری تو پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1977ء کی تحریک طویل مارشل لا پر منتج ہوئی۔ ’’تحریکِ آزادیِٔ عدلیہ‘‘ نے مشرف کی وردی تو اُتار دی لیکن خود عدلیہ کی کلغی میں اتنے مور پنکھ ٹانک گئی کہ وہ آج تک ریاست کے دو دیگر ستونوں، مقننہ اور انتظامیہ کو برتن مانجھنے اور پوچا لگانے والی کنیزیں سمجھتی ہے۔
الحمدللہ! پاکستان نہ عدمِ استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لُغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولاتِ ریاست، مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں دہشت گردی کی وارداتیں مخصوص پس منظر رکھتی ہیں۔ شورش اور بدامنی کی اس لہر پر قابو پانے کے لئے موثر کردار متعلقہ صوبائی حکومتوں کا بھی ہے۔ اسے سیاسی عدمِ استحکام کے زمرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کا سیاپا کرنے والوں کا ’آزادیِٔ عدلیہ‘ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اُن کا اصل دُکھ یہ ہے کہ اِس سو فی صد آئینی پیش رفت نے، کونوں کھُدروں میں چھپے اُن مہم جوئوں کو بے بس کردیا ہے جو ’ عدمِ استحکام‘ کی فصل کاشت کرنے جا رہے تھے۔
پی۔ٹی۔آئی کی آنکھوں میں سجے، ’عدمِ استحکام‘ کے خوابِ خوش رنگ کو تعبیر میں ڈھالنے کے لئے راستہ فقط ایک ہی تھا کہ وہ 1977ء والے قومی اتحاد کی طرح، اسمبلیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیتی۔ اب وہ گئے وقت کو واپس نہیں لاسکتی اور آنے والے وقت کا ہر لمحہ، حسرتِ ناتمام کے نوحے کے سوا کچھ نہیں۔ سرخ چونچوں میں نیلگوں لفافے لئے، سفید وسُرمئی کبوتروں کی ڈاریں، کوئی معجزہ رقم کر سکتی ہیں نہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل کوئی’’ڈوزئیر‘‘ عدمِ استحکام کا صُور پھونک سکتا ہے۔
رہا مسیحائے شرق وغرب ’ڈونلڈ ٹرمپ‘، تو فی الحال غزہ کے آتشکدے کی راکھ سے اپنے بچوں کی ہڈیاں چُننے والے فلسطینیوں کو اپنے آبائو اجداد کی سرزمین سے نکالنا اُس کی ترجیح اوّل ہے۔ اِس سے فارغ ہوکر شاید اُسے اڈیالہ جیل سے کسی کو نکالنے کا خیال بھی آ جائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: استحکام کا کی کوشش کی پی ٹی ا ئی سیاسی عدم رہے ہیں کے بعد

پڑھیں:

ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ اول)

اردو صحافت میں افریقہ کا ذکر ہوتا بھی ہے تو انسانی اسمگلنگ ، خانہ جنگی ، قحط سالی اور پسماندگی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھار منڈیلا ، نکروما ، لوممبا یا سنکارا جیسے انقلابیوں کا مختصر ذکر بھی ہو جاتا ہے۔مگر آج کا افریقہ کیا سوچ رہا ہے اور وہاں کیا تبدیلیاں انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ہم میں سے اکثر اس کی کھوج کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔

اس پس منظر میں ان دنوں سوشل میڈیا پر افریقی نوجوانوں کی آنکھ کا تارہ اگر کوئی ہے تو وہ ہے مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو کا فوجی صدر سینتیس سالہ کیپٹن ابراہیم ترورے۔

دو ہزار بائیس میں سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس کی حاشیہ بردار حکومت کا تختہ پلٹنے والے کیپٹن ترورے نے آتے ہی فرانسیسی فوجی اڈے بند کر دیے اور روس اور چین سے مراسم بڑھا لیے۔وہ اب مغربی افریقی ممالک کا ایک علاقائی اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ابراہیم ترورے نے گزشتہ ڈھائی برس کے دوران سونا نکالنے والی مغربی کمپنیوں سے برکینا فاسو کی حصہ داری کا مطالبہ منوایا۔زرعی اصلاحات کیں۔ کیپٹن ترورے کی توپوں کا رخ اکثر عالمی مالیاتی اداروں اور نو آبادیاتی طاقتوں کی جانب رہتا ہے مگر آئی ایم ایف اور عالمی بینک بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ کیپٹن ترورے کے دور میں برکینا فاسو کی معیشت میں قدرے بہتری آئی اور غربت کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔

کیپٹن ترورے بلا کے مقرر ہیں۔ان دنوں ان کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہے جو انھوں نے ہمسایہ ملک گھانا کے نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر کی۔اس تقریب میں بائیسں دیگر افریقی سربراہانِ بھی موجود تھے۔ اس خطاب میں ایسا بہت کچھ ہے جو آپ کو شاید اپنا اپنا سا لگے۔لہٰذا میں کیپٹن ترورے کے اس خطاب کو تین قسطوں میں پیش کر رہا ہوں۔پڑھئے اور اپنے بارے میں بھی سوچیے۔

’’ عزیز افریقیو ،

قوموں کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب خاموش رہنا منافقت کے برابر ہے۔میرا نام کیپٹن ابراہیم ترورے ہے۔میں مہذب سفارتی زبان نہیں جانتا۔میں ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے بورڈ رومز میں بسی خوشبو سے بھی ناواقف ہوں۔ نہ واشنگٹن کا تربیت یافتہ ہوں نہ ہی جنیوا کے آداب جانتا ہوں۔میں تو اس محاذ پر ہوں جہاں میرے لوگ خونم خون ہیں۔میں اس خطے کے لیے بول رہا ہوں جسے عشروں سے ساہوکاروں نے اپنی جیل سمجھا ہے۔

آج میں لرزتی آواز میں نہیں بلکہ صدیوں بھرے افریقی درد سے لبریز آواز میں مخاطب ہوں۔ طویل عرصے سے آئی ایم ایف بیمار معیشتوں کی دوا کر رہا ہے۔مگر ہمارا تجربہ یہ ہے کہ یہ دوا اکثر جان لیوا ثابت ہوئی ہے۔بین الاقوامی قرضے مسکراتے معاہدوں میں لپٹے زہریلے تیر اور معاشی استحکام کے نام پر گلا دبانے کی کوشش ہیں۔ اصلاحات کا عملی مطلب غیرملکی لیبارٹریوں میں تیار کردہ ماڈلز کی تابعداری ہے۔مگر اب ہم اقتصادی بساط کے مہرے بننے پر تیار نہیں۔افریقہ کو جاگنے کے بعد سانس لینے کے لیے آپ کی اجازت درکار نہیں۔

کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ میں قرضوں کی تنسیخ کی بھیک مانگ رہا ہوں یا شرائط میں نرمی کی وکالت کر رہا ہوں۔میں وہ بتانے کی جرات کر رہا ہوں جو اکثر افریقی رہنما بتانے سے ہچکچاتے ہیں۔ ہمارے جواہرات سے مغرب کا خزانہ بھرتا رہے اور ہم ان کی شرائط پر ناچتے رہیں۔ہرگز نہیں۔ہم کسانوں کو اپاہج کرنے والی پالیسیوں اور نوجوانوں کو جنم بھومی چھوڑنے پر مجبور کرنے والی دھن پر اور نہیں تھرکنا چاہتے۔ اچھی گورنننس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اپنی قومی دولت بیرونی کمپنیوں کے مسکراتے مشیروں کے حوالے کر دی جائے۔

 ہم ایک نیا مکالمہ چاہتے ہیں۔ساہوکار اور مقروض کا نہیں بلکہ دو مساوی فریقوں کا مکالمہ۔ ابھرتا ہوا شعور ہمیں سمجھا رہا ہے کہ آپ جو قرضہ افریقہ کو پیش کر رہے ہیں وہ ترقی کا زینہ یا غربت پار کرانے والا پل نہیں بلکہ سوٹڈ بوٹڈ ہاتھوں میں سپریڈ شیٹس کی شکل میں نئی زنجیر ہے۔آپ جسے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں ہم اسے اسٹرکچرل سزا کہتے ہیں۔آپ جس شے کو مالیاتی نظم و ضبط کہتے ہیں ہم اسے نسل در نسل محرومی کا تسلسل سمجھتے ہیں۔آپ پارٹنر شپ کی بات کرتے ہیں۔مگر ایک پارٹنر مسلسل منافع میں ہو اور دوسرا نڈھال تو یہ شراکت داری نہیں لوٹ مار ہے۔

میرا سوال ہے کہ یورینیم ، کوبالٹ اور زرخیز زمین سے مالامال کوئی قوم آخر غریب کیسے ہو سکتی ہے ؟ کیسے ایک براعظم پوری دنیا کی صنعت کو ایندھن فراہم کرتا ہو مگر اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے سے قاصر ہو ؟

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس کا سبب ہماری بدانتظامی ، بدعنوانی اور نا اہلی ہے۔یہ بات درست ہے کہ افریقہ ان ناسوروں کا مارا ہوا ہے۔ مگر ان میں سے متعدد زخم آپ کے ہاتھوں کی دین ہیں جو اب ہمیں ان علتوں کے علاج کے نام پر سود سے لتھڑے نسخے تھما رہے ہیں۔

میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی پاور پوائنٹ پریزنٹیشن والا دل کش قرضہ ہمارے گلی کوچوں میں کیا گل کھلا رہا ہے۔ہمارے بچے موم بتی کی روشنی میں پڑھ رہے ہیں کیونکہ بجلی کے نظام کو نجکاری کے نام پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا۔وہ بجلی کے ایسے نرخ مانگ رہے ہیں جو ہمارے لوگوں کے بس سے باہر ہیں۔

ٹوٹے بستروں سے اٹے اسپتال اینٹی بائیوٹک ادویات سے خالی ہیں۔عورتیں دورانِ زچگی مر رہی ہیں کیونکہ آپ کی شرط ہے کہ ہم عوامی صحت پر زیادہ نہ خرچ کریں۔لاکھوں گریجویٹس کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ ملازمتیں پیدا کرنے والے شعبے آؤٹ سورس ہو گئے یا بیچ دیے گئے یا آپ کی کھلی منڈی کی پالیسیوں تلے کچلے گئے۔

قرضوں کی واپسی کا آپ کا وضع کردہ منصوبہ حیات بخش نہیں بلکہ موت کا پروانہ ہے۔ آپ ہمیں پانچ سو ملین ڈالر تھما کر سالہاسال کی ری اسٹرکچرنگ فیس اس میں ڈال کے ہم سے دو بلین ڈالر وصول کرتے ہو۔آپ کہتے ہو کہ معاہدے باہمی رضامندی سے طے پاتے ہیں۔ یہ کیسی باہمی رضامندی ہے کہ مریض خونم خون ہو اور صرف آپ کے پاس وہ دوا ہو جو آپ من مانی قیمت پر بیچیں۔

محترم آئی ایم ایف ، یہ رضامندی نہیں معاشی دھونس ہے۔یہ ترقی نہیں تسلط ہے۔یہ عالمگیریت نہیں مالیاتی رسوں سے مسلح نیا نوآبادیاتی نظام ہے۔افریقیوں کی نئی نسل نابینا نہیں ۔ ہماری ہی محنت سے بنی میز پر پڑے ہماری ہی روٹی کے چند ٹکڑے ہمیں ہی عطا کرنے پر ہم آپ کے شکر گذار نہیں ہو سکتے۔ہم معاشی کارکردگی بہتر کرنے کے نام پر آپ کے فارمولوں پر تالیاں پیٹنے سے اوبھ چکے ہیں۔ہم اپنے نام پر لکھے جانے والے قرضے آپ کے ماہرین اور مشیروں کے ہاتھوں میں غائب ہونے اور پھر ان غائب قرضوں کے عوض اپنی آزادی کا سودا کرنے کو مزید تیار نہیں۔

افریقہ آپ کا نہیں بلکہ آپ افریقہ کے مقروض ہو۔ اس سونے کے مقروض ہو جو بھاری بھاری بوٹوں کے زور پر چھینا گیا۔ ان معدنیات کے مقروض ہو جو آپ کے اسمارٹ فون کو روشن رکھتی ہیں جب کہ ہمارے دیہات تاریکی جھیلتے ہیں۔ ان ہیروں کے مقروض ہو جن کی خاطر ہم لہولہان کیے جاتے ہیں۔

 ہم خیرات نہیں انصاف مانگ رہے ہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ قرضوں کے استحصالی ڈھانچے کو سدھارا جائے۔انصاف کا مطلب ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ آپ نے ہم سے کیا لیا اور ہم نے آپ سے کیا لیا ۔انصاف یہ ہے کہ ہمیں اپنا مالیاتی مستقبل وضع کرنے کی آزادی ہو۔اگر یہ باتیں آپ کو چبھ رہی ہیں تو یہ اچھی علامت ہے۔کیونکہ یہی وقت ہے کہ جو اس نظام سے مطمئن ہیں ان سے دوبدو بات کی جائے۔

افریقہ میں بہت سی ریاستیں اور بہت سے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔مگر خود مختاری کے بغیر آزادی وہم ہے۔بظاہر آپ ہم پر حکمران نہیں مگر ہمارا بجٹ آپ بناتے ہو۔آپ ہمارے انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتے مگر یہ فیصلہ آپ کرتے ہو کہ ہماری معیشت ڈھ جائے یا سانس لیتی رہے۔ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں غیر جانبداری کا دعوی کرتے ہو لیکن آپ کے ہی قلم کی روشنائی ہمارے قوانین لکھتی ہے۔آپ ہمارے منتخب رہنماؤں کو ان کی حدود بتاتے رہتے ہو۔یہ مدد نہیں سیاسی انجینیرنگ ہے۔

آپ بظاہر بموں کے بجائے بریف کیسوں اور ڈرائنگز سے مسلح آتے ہو مگر نقصان اتنا ہی پہنچاتے ہو۔ ٹیکنیکل زبان میں لپٹی آپ کی شرائط ایک سائلنسر لگی بندوق ہیں۔آپ کے سفارشاتی احکامات بہت دلکش ہیں۔سبسڈیز میں تخفیف کرو ، منڈیاں کھولو ، کرنسی کی قدر میں کمی کرو۔

مگر یہ کیسی سفارشات ہیں جن سے انکار کی قیمت بھک مری ہے۔یہ کیسی تجویز ہے جس کی تابعداری پر ہی اگلے قرضے کا دارو مدار ہے۔یہ بات ہم کب تک چھپائیں کہ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں مکمل دخیل ہو۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کفائیت شعاری سے کرپشن ختم ہو جائے گی۔مگر یہ امید ختم کر رہی ہے۔ہمیں کہا جاتا ہے کہ کھلی منڈی ہمیں اوپر لے جائے گی۔مگر اس سے پیدا ہونے والی دولت سمندر پار منتقل ہو رہی ہے۔اور جب ہمارے لوگ احتجاج کرتے ہیں تو آپ بالکل لاتعلق ہو کے کہتے ہو کہ ہم تو بس مبصر ہیں۔ تاریخ سب تماشا دیکھ رہی ہے ’’۔   ( جاری ہے)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجییے)

متعلقہ مضامین

  • ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ اول)
  • بلوچستان کبھی پاکستان سے الگ نہیں ہو سکتا، عدم استحکام کا ذمہ دار بھارت ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • کشمیر کا تنازع اب بھی جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے:ترجمان دفتر خارجہ
  • بھارت کا پاکستان کو عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہراناحقائق سےانحراف ہے: پاکستان
  • بھارتی قیادت کا بیانیہ امن کا نہیں بلکہ دشمنی کو ترجیح دینے والا ہے: پاکستان
  • مالی بحران کے باوجود 4100 ارب روپے کا ترقیاتی پلان تیار، تعلیم، صحت اور پانی کے منصوبے نظرانداز
  • ڈاکٹر قدیر کے حوالے سے رانا ثناء کے بیان سے قوم کی دل آزادی ہوئی، عوامی تحریک
  • سیاسی انتشار کے باعث کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا: شاہد خاقان 
  • بھارت میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات تشویشناک، علاقائی استحکام کیلئے خطرہ ہیں:پاکستان
  • پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں، کروڑوں انسانوں کو تنگ نظر سیاسی مقاصد کیلئے یرغمال نہیں بنایا جا سکتا: وزیراعظم