سینیٹر فیصل واوڈا  نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران  بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی پورٹ کی 40 ارب مالیت کی سرکاری زمین 5 ارب میں دی گئی۔

چیئرمین سینیٹر فیصل واوڈا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کا اجلاس ہوا، اجلاس میں وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ نے بھی شرکت کی۔

سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ بہت خوشی کی بات ہے کہ وزیر کے علاوہ باقی سرکاری افسران بھی کمیٹی اجلاس میں موجود ہیں۔

وزارت بحری امور اور منسلک محکموں کے کام اور کارکردگی کے بارے میں وزارت کے سیکریٹری  ظفر علی شاہ نے بریفنگ دی جس میں کہا کہ پورٹ قاسم کا بھی 50 سال سے اوپر کا قانون ہے، 25 سال میں بڑی ڈیولپمنٹ آجاتی ہے، پرائیویٹ سیکٹر انویسٹمنٹ اس میں نہیں ہے، گوادر سی پیک میں بھی پچھلے 20 سال کی سب سے بڑی ڈیویلپمنٹ ہے۔

سیکریٹری میری ٹائم  نے کہا کہ آیندہ چند دنوں میں نئی میری ٹائم پالیسی پیش کریں گے، ملک میں 25 سال کے بعد میری ٹائم پالیسی متعارف کرائی جا رہی ہے، کراچی پورٹ کے قوانین 100 سال پرانے ہیں، پورٹ قاسم کے قوانین 50 سال پرانے ہیں، صنعتوں کی آلودگی شپنگ انڈسٹری کو نقصان پہنچا رہی ہے، ملک میں صرف 12 کمرشل بحری جہاز ہیں، کراچی پورٹ کے ترسیل کو ٹریفک کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

سینیٹر دنیش کمار  نے کہا کہ چار سال سے اس کمیٹی کا ممبر ہوں، جب بھی کوئی نئے منسٹر صاحب یا حکومت آتی ہے تو ہمیں بریفنگ دی جاتی ہے، اس میں مطلب 19، 20 کا فرق ہوتا ہے، 50 سال سے قوانین میں ریفارم نہیں لا سکے، تھوڑا ہمیں سنجیدگی کی ضرورت ہے، کوئی بھی حکومت سادہ اکثریت سے یہ قانون چینج کر سکتی ہے، کے پی ٹی میں بڑے ریفارمز  کی ضرورت ہے، کے پی ٹی کے یہاں پر چیئرمین بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کے پی ٹی میں ایک ڈرائیور کی تنخواہ بھی ساڑھے تین لاکھ روپے ہے، ساڑھے تین لاکھ روپے اور وہ ڈالرز میں بھی دیے جاتے ہیں، 80 کروڑ روپے ان کے میڈیکل کے لیے دیا جاتا ہے، مطلب ایک سفید ہاتھی ہے، یونین اتنی اتنی مضبوط ہے کہ  جو بھی چیئرمین صاحب آتے ہیں، یونین کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، فشریز سے متعلق کچھ کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جی 18وین ترامیم کے بعد صوبائی مسئلہ ہے۔

پرویز رشید  نے کہا کہ ٹی اے ڈی اے کا جملہ حذف کردیں، ہمیں بھی کے پی ٹی میں ملازمت ملنی چاہیے۔

چیئرمین کمیٹی فیصل واوڈا  نے اجلاس میں بڑا انکشاف کیا اور کہا کہ  کراچی پورٹ کی 40 ارب کی سرکاری قیمت کی زمین 5 ارب میں دی گئی، کراچی پورٹ کی 500 ایکڑ  زمین کی مارکیٹ ویلیو 60 ارب روپے سے زیادہ ہے، کراچی پورٹ کی زمین کی الاٹمنٹ کے سودے فوری روکے جائیں۔ 

فیصل واوڈا  نے کہا کہ کراچی پورٹ میں زمین کا الاٹمنٹ شفاف کریں گے، کراچی پورٹ میں زمین کی الاٹمنٹ میں میگا اسکینڈل ہے، کراچی پورٹ کی زمین کی الاٹمنٹ ایس آئی ایف سی کی مشاورت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ ارب کی زمین دی ہے جس کی افیشل ویلیو 40 ارب بنتی ہے، بورڈ کی اجازت کے بغیر یہ زمین کیسے کسی کو منتقل کیا گیا، وفاقی وزیر اور سیکرٹری نے اس معاملے پر لاعملی کا اظہار کر دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کراچی پورٹ کی فیصل واوڈا نے کہا کہ کے پی ٹی کی زمین زمین کی

پڑھیں:

زیر زمین ‘وائٹ ہائیڈروجن’ کے قدرتی ذخائر کی تلاش جاری، کیا بالآخر صاف ایندھن دستیاب ہوگیا ہے؟

دنیا بھر میں توانائی کے ماہرین اور سرمایہ کار قدرتی طور پر پیدا ہونے والی ‘سفید ہائیڈروجن’ کو اگلی بڑی توانائی دریافت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

جس طرح 1859 میں امریکا کے ایڈون ڈریک نے زیر زمین تیل دریافت کرکے توانائی کے شعبے میں انقلاب برپا کردیا تھا، اسی طرح سائنس دان اور کمپنیاں اب زمین کے نیچے چھپے ہائیڈروجن کے ذخائر تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ’معاشی خود انحصاری کا انحصار پانی و توانائی کے ذخائر پر ہے‘، وزیراعظم کا دیامر بھاشا ڈیم کی فوری تکمیل کا حکم

سفید یا قدرتی ہائیڈروجن زمین میں اس وقت بنتی ہے جب پانی آئرن سے بھرپور چٹانوں سے ردعمل کرتا ہے۔ یہ ہائیڈروجن اکثر زمین کی سطح تک پہنچنے سے پہلے مختلف کیمیائی یا حیاتیاتی عمل میں ضائع ہو جاتی ہے لیکن بعض اوقات کم رسنے والی چٹانوں جیسے شیل یا نمک کے نیچے محفوظ رہ جاتی ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق زمین کے اندر تقریباً 5.6 ٹریلین ٹن ہائیڈروجن موجود ہو سکتی ہے۔ اگر صرف 2% بھی استعمال کے لیے دستیاب ہو تو یہ اگلے 200 سال تک توانائی کی عالمی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔

فرانس، امریکا، آسٹریلیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں پہلے ہی قدرتی ہائیڈروجن کی تلاش شروع ہو چکی ہے۔ فرانس کی کمپنی مینٹل8 نے نئی 4ڈی امیجنگ ٹیکنالوجی تیار کی ہے جس کی مدد سے زمین کے اندر ہائیڈروجن کے ذخائر کی درست نشاندہی ممکن ہو سکے گی۔

یہ بھی پڑھیے: چاند پر موجود پانی کو صاف کرنے کے لیے اہم اقدام؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ سفید ہائیڈروجن توانائی کا کم کاربن خارج کرنے والا ذریعہ بن سکتی ہے لیکن اس کے ماحول پر ممکنہ اثرات، جیسے میتھین کے اخراج اور زمینی مائیکروبس پر اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہائیڈروجن کے ذخائر تلاش کرنا اور انہیں صنعتی پیمانے پر نکالنا ایک طویل اور مہنگا عمل ہے جس میں کم از کم ایک دہائی لگ سکتی ہے۔

اس کے باوجود سرمایہ کار اور توانائی ماہرین اسے صاف توانائی کے انقلاب کا ممکنہ ذریعہ قرار دے رہے ہیں، جس سے مشکل صنعتی شعبوں جیسے اسٹیل اور کھاد سازی کو ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایندھن صاف توانائی ہائیڈروجین

متعلقہ مضامین

  • صحافی اور ٹریفک پولیس سے بدتمیزی کرنے والے ایف بی آر افسر کو معطل کردیا گیا، فیصل واوڈا
  • چئیرمین ایف بی آر مثبت کوششیں جاری رکھیں، ہم سب ملکر آپ کو سپورٹ کر رہے ہیں، سینیٹر فیصل واوڈا
  • سائنسدانوں کا رواں سال زمین کے نسبتاً تیز گھومنے کا انکشاف، رفتار میں تبدیلی کی وجہ کیا بنی؟
  • فیصل واوڈا کا ٹریفک پولیس، صحافی سے بدتمیزی کرنیوالے ایف بی آر افسر کیخلاف کارروائی نہ ہونے پر افسوس
  • ایف بی آر افسر کی وائرل بدتمیزی کی ویڈیو پر فیصل واوڈا کا رد عمل سامنے آگیا
  • ایک اور اداکارہ کا پورا دن گھر میں بےہوش پڑے رہنے کا انکشاف
  • زیر زمین ‘وائٹ ہائیڈروجن’ کے قدرتی ذخائر کی تلاش جاری، کیا بالآخر صاف ایندھن دستیاب ہوگیا ہے؟
  • چین کی ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیےایک پرکشش منزل رہی ہے، چینی میڈیا
  • پُرانے آئی فونز میں یو ایس بی-سی پورٹ شامل کرنے والا ’کیس‘ متعارف
  • جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج