Jasarat News:
2025-04-25@11:38:55 GMT

تسمانیہ کے ساحل پر 157 ڈولفنز پھنس گئیں

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

تسمانیہ کے ساحل پر 157 ڈولفنز پھنس گئیں

آسٹریلیا کی ریاست تسمانیہ کے ساحل پر 157 ڈولفنز بھٹک کر پھنس گئیں، جن میں سے 136 تاحال زندہ ہیں جبکہ ان کی بحالی کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

بین الاقوامی ذرائع کے مطابق وائلڈ لائف ریسکیو کے ماہرین اور ماہر حیوانات پر مشتمل ایک ٹیم فوری طور پر متاثرہ مقام کی جانب روانہ کر دی گئی ہے تاکہ ڈولفنز کی صحت اور محفوظ رہائی کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔

یہ مخصوص ڈولفنز، جنہیں “فالز کلر وہیلز” بھی کہا جاتا ہے، اپنی منفرد کھوپڑی کی ساخت کے باعث اس نام سے جانی جاتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ بحری مخلوق تسمانیہ کے مغربی ساحل پر دریائے آرتھر کے قریب ایک ساحلی پٹی میں پھنس گئی ہے، جہاں رسائی نہایت مشکل اور سمندری حالات سخت چیلنجز کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ریسکیو کے لیے درکار مخصوص آلات کی دستیابی میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

متعلقہ حکام اور ماہرین ہر ممکن طریقے سے ان ڈولفنز کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انہیں دوبارہ آزاد پانیوں میں چھوڑا جا سکے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، ماہرین

اسلام آباد:

ماہرین نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بیان کو سیاسی اسٹنٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ یا معطل نہیں کر سکتا۔

بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام سے پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سارا معاملہ پہلے سے کسی منصوبہ بندی کا حصہ اور سندھ طاس معاہدے کیخلاف فالس فلیگ سرگرمی ہے۔

سندھ طاس معاہدے کی رو سے کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر معاہدے کی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتا۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد پاکستان بھی شملہ معاہدے سمیت دیگر معاہدے معطل کرنیکا حق رکھتا ہے۔

پاکستان کے سابق کمشنر برائے انڈس واٹر جماعت علی شاہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بھارت یا پاکستان سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا منسوخ نہیں کر سکتے اور اس کیلئے انہیں باہمی رضامندی سے معاہدے میں تبدیلی کرنا ہوگی۔

سندھ طاس ایک مستقل معاہدہ ہے اس لئے بھارت کو اسے معطل یا منسوخ کرنے کے لیے پاکستان کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ بھارت کا اقدام صرف ایک سیاسی شعبدہ بازی  اور اپنے عوام کو گمراہ کرنیکی کوشش ہے۔

پاکستان کو بھی اس پر سیاسی ردعمل دینا چاہئے۔ کیا بھارات ان دریاؤں پر بھی اپنا حق چھوڑ دے گا جو ایک معاہدے کے تحت اسے دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن نہیں ہے بلکہ یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو دو ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کیلئے کام کرتا ہے یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع کے معاملے میں بین الاقوامی ثالثی عدالت کے قیام میں بھی مدد کر س

کتا ہے۔ ماہرین نے کہا سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھارت کی طرف سے جارحیت اور انتہا پسندی کا مظہر ہے۔ بھارت کی طرف سے معاہدے کی یکطرفہ معطلی یا منسوخی سے عالمی برادری میں تمام معاہدوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ جائیگا۔ سندھ

طاس معاہدہ غیرمعینہ مدت کیلئے ہے اور اس میںیکطرفہ معطلی کی کوئی شق نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں سندھ طاس معاہدے پر عمل کرنے کے یکساں طور پر پابند ہیں۔

پاکستانی دریاؤں میں پانی کا بہاؤ روکنے سے بھارت نہ صرف بین الاقوامی آبی قوانین کی خلاف ورزی بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرے گا۔ بین الاقوامی قانون عام طور پر یہ حکم دیتا ہے کہ کسی اپ سٹریم ملک (جیسے بھارت) کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی معاہدے کے وجود سے قطع نظر ڈاؤن سٹریم ملک (جیسے پاکستان) کا پانی روک سکے۔

اس اقدام کے بعد چین بھی  برہما پتر دریا کا پانی روکنے کیلئے بھارتی کے اقدام کو بطور جواز استعمال کرسکتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ بھارت کی طرف سے یہ اقدام نہ صرف پاکستان بلکہ خود بھارت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ چین جیسی اقوام اس صورت حال پر گہری نظر رکھیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • گھوٹکی: کینال منصوبے کیخلاف قومی شاہراہ پر 2 دھرنے جاری
  • بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان کا ردعمل نہایت نپا تلا ہے؛ سفارتی ماہرین
  • تلخ کلامی کے بعد محمد رضوان اور کولن منرو مشکل میں پھنس گئے!
  • ہائی ویز کی بندش؛ دھوپ اور گرمی میں پھنسی ادویات خطرہ بن گئیں
  • پی آئی اے کی نجکاری: دوبارہ آغاز، اہم بریفنگ مخصوص میڈیا تک محدود
  • متنازع کینال منصوبے کیخلاف احتجاج، 40 ہزار گاڑیاں پھنس گئیں
  • بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، ماہرین
  • پنجاب و دیگر صوبوں سے آنیوالی 12 ہزار گاڑیاں قومی شاہراہ پر پھنس گئیں
  • شاہراہوں کی بندش سے 12ہزار کمرشل گاڑیاں پھنس چکی ہیں،عاطف اکرم شیخ
  • کینال تنازع پر دھرنے سے سندھ میں کنٹینرز پھنس گئے، اشیائے ضرورت کی قلت کا خدشہ