انتشاری گروہ سیاست سے نابلد ہے، بحران پیدا نہیں کرنے دیں گے، نواز شریف
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
لاہور:ن لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ انتشاری گروہ سیاست سے نابلد ہے، اسے ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے نہیں دیں گے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق رائیونڈ میں اپنی رہائش گاہ پر سینیٹر عرفان صدیقی سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ انتشاری گروہ سنجیدہ مذاکرات اور سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پاکستانی عوام کسی بھی گروہ کو ملک کی تعمیر و ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے یا مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
واضح رہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور سینیٹ کی خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ نواز شریف سے ملاقات میں انہوں نے پارٹی کی کارکردگی کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔
نواز شریف نے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے اور اس میں عوام کی محنت اور اللہ کے فضل و کرم کا بڑا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک پرامن اور ترقی یافتہ پاکستان کی ضرورت ہے، جہاں نوجوان نسل کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق مواقع مل سکیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ نوجوانوں کو ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود ان عناصر پر بھی تنقید کی جو انتشار پھیلانے اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ نہ تو سنجیدہ مذاکرات کر سکتے ہیں اور نہ ہی سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان عناصر کے عزائم کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ کو ہدایت کی کہ وہ عوام کے ساتھ مضبوط رابطے قائم رکھیں اور پارلیمنٹ میں اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے ارکان کو عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے مستعد رہنا چاہیے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے اس موقع پر نواز شریف کو سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔ انہوں نے پارٹی کی جانب سے سینیٹ میں کیے گئے اقدامات اور مستقبل کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: نواز شریف نے نے کہا کہ انہوں نے کرنے کی
پڑھیں:
علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کی ایک بڑی کنجی داخلی سیاست ،معیشت اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات ضروری ہیں۔ عالمی سیاست کی اہمیت اپنی جگہ مگر پہلی ترجیح علاقائی سیاست میں اپنی اہمیت منوانا ہے۔ سفارت کاری کے محاذ پر جب پاکستان اپنا مقدمہ علاقائی یا عالمی سیاست میں لڑتا ہے تو اس کی کامیابی کا بڑا انحصار بھی اس کی داخلی سیاست کے استحکام سے جڑا ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم داخلی محاذ پر کمزور ہوں تو پھر سفارت کاری کے محاذ پر مشکلات پیش آتی ہیں۔دیگر ممالک ہماری داخلی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر ہمارے خلاف اپنا مقدمہ مضبوط بناتے ہیں۔
علاقائی سیاست کے جو بھی تنازعات ہیں ان کا حل دو طرفہ بات چیت ہی سے ممکن ہے۔جنگ یا تنازعات کو ابھارنا یا خود کو اس میں الجھائے رکھنا مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ہمیں اور زیادہ مسائل میں الجھا دیتی ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری علاقائی سیاست کے تنازعات اور تضادات اتنے گہرے ہیں کہ ہم مشترکہ طور پر اعتماد سازی کے فقدان کا شکار ہیں اور کسی بھی طور پر ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ علاقائی سطح پر جو بھی سیاسی ،سماجی ،معاشی ، سیکیورٹی کے فورمز موجود ہیں وہ عدم فعالیت کا شکار ہیں ۔
مثال کے طور پر سارک فورم ہی کو دیکھ لیں جو نہ فعال ہے اور نہ ہی علاقائی ممالک کے درمیا ن جو بھی تنازعات ہیں ان کو ختم کرنے میں کوئی بڑ ا کردار ادا کرسکا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اہل سیاست یا پڑھے لکھے سنجیدہ افراد بھی اب ان فورم کی کارکردگی اور صلاحیت سے نالاں یا مایوس نظر آتے ہیں۔ علاقائی سیاست میں دہشت گردی یا انتہا پسندی ایک بڑا خطرہ ہے ۔
عمومی طور پر علاقائی ممالک کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی اپنی ناکام حکمت عملیوں پر خود کو ذمے دار سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ زیادہ تر حکمت عملی میں اپنی ناکامیوں کو چھپا کر علاقائی ممالک ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست کررہے ہیں۔ ایک رویہ یہ بھی ہے کہ ہم دہشت گردی کے بارے میں تو زیادہ حساس نظر آتے ہیں مگر دہشت گردی کے خاتمہ میں اپنی توجہ سیکیورٹی امور تک محدود کرکے معاملات کو دیکھتے ہیں ۔حالانکہ دہشت گردی کے خاتمہ میں سیاسی، سماجی اور معاشی فورمز کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ علاقائی ممالک کی ترقی میں ان فورمز کی فعالیت ،دو طرفہ تعلقات اور باہمی عوامی رابطوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔لیکن علاقائی ممالک اس میں ناکام ہیں اور وہ تنہا ہی معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی بالادستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ علاقائی سطح پر سارک فورم سمیت جو بھی دیگر فورمز ہیں ان کی عدم فعالیت میں بھارت کی حکمت عملی کا بھی بڑا دخل ہے ۔کیونکہ بھارت علاقائی سیاست میں ایک بڑا ملک ہے مگر وہ اس میں مثبت اور فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسی وجہ سے یہ فورمز وہ کچھ نہیں کر پارہے جو ان کی ذمے داری یا دائرہ کار میں آتے ہیں۔
مثال کے طور پر بھارت براہ راست پاکستان کی ریاست کو دہشت گردی کا ذمے دار قرار دیتا ہے۔ پاکستان جیسی ریاست جو خود دہشت گردی کا شکار ہواور جس نے دہشت گردی کے خلاف نہ صرف بڑی جنگ لڑی ہے بلکہ بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔اس لیے یہ الزام کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اس سے دونوں ملکوں سمیت علاقائی استحکام بھی ممکن نہیں ہوگا۔
علاقائی سطح پر دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا حل جہاں دو طرفہ تعلقات ، بات چیت ہے وہیں دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اور میکنزم پر اتفاق رائے اور اس پر عمل درآمد پر ہر ملک کا اپنا اپنا اور پھر ایک اجتماعی کردار بھی ہے۔محض ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنے کے امکانات کو محدود کرکے بداعتمادی کے ماحول میں اور زیادہ شدت پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں کوئی ایک ملک تن تنہا کچھ نہیں کرسکے گا۔ جب تک تمام ممالک اس مسئلہ پر مشترکہ حکمت عملی اور کردار ادا نہیں کریں گے کچھ بھی ممکن نہیں ہوگا۔
حال ہی میں چین میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ ہمیں ’’ شنگھائی ریجنل سیکیورٹی فورم‘‘ کی تشکیل نو کرنا ہوگی جو خطے میں سیکیورٹی سے جڑے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کے امکانات کو بڑھائے۔اس فورم کا مقصد ممبر ممالک چین، بھارت، روس،پاکستان ،ایران اور وسطی ایشائی ریاستوں کے انٹیلی جنس اور دفاعی حکام کو مشترکہ حکمت عملی کو اختیار کرنے میں ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تاکہ وہ معلومات کا تبادلہ اور عملی اقدامات کی طرف بڑھ سکیں۔ایران کی طرف سے اس طرز کے فورم کی تشکیل اہم بات بھی ہے اور اسے ایک بڑی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔
شنگھائی فورم پر اس مشترکہ سیکیورٹی فورم کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس میں چین ،بھارت اور روس سمیت پاکستان شامل ہے ۔چین اور روس ایک بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری پیدا کرنے سمیت علاقائی تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون کو بڑھانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خاتمے میں مشترکہ حکمت عملی پر زور دیا ہے اور اب اگر دیگر ممالک بھی اسی نقطہ پر زور دے رہے ہیں تو پاکستان کے موقف کی پزیرائی بھی ہے۔اسی طرح افغانستان کے امن اور داخلی بحران کا حل خطہ کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔