Express News:
2025-09-18@16:25:36 GMT

پاک ترکیہ باہمی تجارت

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

پاکستان ترکیہ میں تعاون کے 24 سمجھوتوں پر دستخط ہو گئے ہیں، گزشتہ دنوں رجب طیب اردوان پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، جہاں ان کے استقبال کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان کے صدر آصف زرداری موجود تھے۔ صدر رجب طیب اردوان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں۔

ترکی کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ ترکیہ نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی زبانی اور عملی حمایت کی ہے اور پاکستان کے ساتھ دنیا کے بہت سے معاملات میں کھڑا رہا ہے۔ 1971کی جنگ میں ترکیہ نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور عملی اقدام اٹھا کر بھی دکھایا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ 16 دسمبر سقوط ڈھاکا کے ساتھ ہی جب اپنے ہی ملک کے شہری یعنی مغربی پاکستان کے شہری جوکہ ڈھاکا میں بسلسلہ تجارت و صنعت مقیم تھے وہ اجنبی قرار پائے اور انھیں اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ ایسے میں ان شہریوں کو محفوظ جائے پناہ کی تلاش تھی، اس موقعے پر ترکیہ نے ڈھاکا میں واقع اپنے سفارت خانے کے گیٹ ان کے لیے کھول دیے اور ہزاروں مغربی پاکستانیوں کے بارے میں پاکستان میں یہ خبر آ چکی تھی کہ ان کے عزیز و اقارب ترکیہ کے سفارت خانے میں موجود ہیں، تو ہر ایک نے اطمینان کا سانس لیا کہ ہمارے عزیز و اقارب ہمارے بھائی اور برادر ملک ترکیہ کے گھر میں موجود ہیں۔

ترکیہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک لے جانے کی باتیں غالباً 2009 سے ہو رہی ہیں، ان دنوں اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ سطح تزویراتی تعاون کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس سے امید ہو چلی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔

اگرچہ پاکستان کے بزنس مین بڑی تعداد میں استنبول اور دیگر بڑے شہروں کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور اس بات کا تذکرہ بھی کرتے رہتے ہیں اور وہاں پر اپنی مصنوعات ایکسپورٹ کو بڑھانے کے بارے میں پرامید بھی ہیں،کئی افراد ایسے بھی ہیں جو ترکیہ جا کر وہاں کاروبارکرنے کے خواہاں ہیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نسبت وہاں پر مہنگائی بہت ہی زیادہ ہے اور رہائشی مکان یا فلیٹوں دفاترکے کرائے بھی بہت زیادہ مہنگے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ دیگر ممالک کے شہریوں کی نسبت وہاں کے لوگوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص پاکستانی ہے تو وہ اسے اچھی نظر سے دیکھتے ہیں اورکئی افراد ایسے بھی ہیں جو کہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہاں کے شہری پاکستان کے کئی مقامات سے آگاہ بھی ہیں، شاعر مشرق علامہ اقبال سے بھی واقف ہیں، ان کے فارسی کلام کو سمجھتے بھی ہیں، بہت سے افراد لاہور کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور مغل بادشاہوں سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔

 جن دنوں پاکستان ترکیہ اور ایران نے مل کر ایک تنظیم قائم کی تھی جسے مخفف میں آر سی ڈی کہا جاتا تھا بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں وہاں کے لوگ سابق صدر ایوب خان سے بھی واقف تھے۔ ان تینوں ملکوں کی خواہش تھی کہ کراچی سے بلوچستان کے راستے سے ہوتی ہوئی وہاں سے ایران سے گزر کر ترکیہ تک ایک روڈ ہو جسے آر سی ڈی روڈ کا نام دیا گیا لیکن 1979 کے ایران انقلاب کے بعد یہ تنظیم غیر فعال ہو کر رہ گئی۔ اب دونوں ممالک مل کر اسلام آباد، استنبول، تہران ITT روڈ کوریڈور کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششیں تیز ترکر رہے ہیں۔

پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تجارتی حجم بہت ہی زیادہ کم ہے۔ پاکستانی ایکسپورٹ زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات پر مبنی ہوتی ہیں جب کہ پاکستان ترکیہ سے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدتا ہے۔ 2009 سے اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح دونوں ملکوں کی تجارت میں اضافہ ہو۔

پی بی ایس کی طرف سے شایع کردہ 20 ممالک کی فہرست انتہائی اہم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سے 20 اہم تجارتی پارٹنرز ہیں جن سے پاکستان بڑے پیمانے پر امپورٹ اور ایکسپورٹ کرتا ہے۔ 2024 کے لیے شایع کردہ لسٹ میں 20 بڑے ممالک میں درآمد اور برآمد دونوں طرف ترکیہ کا نام شامل نہیں ہے۔ البتہ 2023 کے 20 اہم ملکوں کے نام جن کو پاکستان نے بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ کی تھی ان میں ترکیہ کا نام سولہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان نے ترکیہ کو 82 ارب 38 کروڑ77 لاکھ روپے کی اشیا برآمد کیں اس کا حصہ 1.

14 فی صد بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار جولائی تا جون 2023 تک کے ہیں۔

جولائی تا جون 2022 یہ مالیت64 ارب 75کروڑ66 لاکھ روپے بنتی ہے اور شیئر 1.14 فی صد بن رہا ہے۔ جولائی تا جون 2021 میں کل ایکسپورٹ جوکہ ترکیہ کے لیے تھی وہ مالیت 43ارب 83 کروڑ روپے کے ساتھ 1.08 فی صد بنتی ہے اور جولائی تا جون 2020 تک اس کا حجم 41 ارب 37کروڑ50 لاکھ روپے بنتا ہے۔

پاکستان نے 2009 میں ترکیہ کے ساتھ مل کر جو اعلیٰ سطح تزویراتی کونسل بنائی تھی، اس کے ثمرات اب تک حاصل نہ ہو سکے۔ البتہ اب یہ 24 معاہدے ہوئے ہیں، ان کی بنیاد پر امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے ترکیہ کو جانے والی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ترکیہ کا عالمی تجارت میں بہت بڑا حصہ ہے۔

2023 میں ترکیہ نے 256 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کی تھیں اور آبادی کل ساڑھے 8 کروڑ ہے اور پاکستان کی آبادی اس سے ٹھیک تین گنا زائد ہے اور ہماری ایکسپورٹ اس کے 10 فی صد سے زائد ہے۔ البتہ امپورٹ میں ایک سال ایسا گزرا جب ہم نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور اس ایکسپورٹ کے ایک تہائی کے قریب پہنچ چکے تھے یعنی80 ارب ڈالرکی امپورٹ کر لی تھی۔ ترکیہ اپنی کرنسی لیرا کو بھی بیرونی تجارت میں استعمال کر رہا ہے اور اس میں کامیاب چلا آ رہا ہے۔

پاکستان ترکیہ کے ساتھ تجارت بڑھانے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟ ان وجوہات کو تلاش کیا جائے۔ تجارتی معاہدے کر لینا اور پھر دوسرے کاموں کی طرف توجہ دینا یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ترکیہ میں واقع پاکستانی سفارت خانے کو فعال بنایا جائے ان سے ہر ہفتے رپورٹ لی جائے معلوم کریں کہ تجارت کیوں نہیں بڑھ رہی؟ یہاں کے وہ تاجر ایکسپورٹر جو ترکیہ کے ساتھ کام کرتے ہیں، ان کے مسائل معلوم کیے جائیں ان کو حل کیا جائے۔ 8 کروڑ کی آبادی اور 256 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ یہ اچھی کارکردگی ہے۔

پاکستان کو بھی ان کی اچھی کارکردگی کو مثال بنا کر اس پرکام کرنا چاہیے سب سے پہلے ترکیہ میں ہی اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وہاں کا پاکستانی سفارت خانہ، وہاں کام کرنے والے تاجر اور پاکستان کے معاشی حکام سب مل کر اس بارے میں 5 ارب ڈالر نہ سہی فوری طور پر 3ارب ڈالر سے زائد تجارت کو لے کر جا سکتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور پاکستان کے پاکستان ترکیہ جولائی تا جون پاکستان کی میں ترکیہ ترکیہ کے ارب ڈالر ترکیہ نے بھی ہیں ہیں اور کے ساتھ رہا ہے کی تھی کے لیے سے بھی ہے اور

پڑھیں:

پاکستان سعودی عرب باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیا معنی رکھتے ہیں؟

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان، گزشتہ روز ہونے والا تاریخی معاہدہ کئی اعتبار سے  غیر معمولی  اہمیت کا حامل ہے۔ باہمی تزویراتی دفاعی معاہدے یعنی اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA) پر دستخط دراصل کیا معنی رکھتے ہیں، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس تاریخی اور نہایت اہم اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA) پر دستخط اس کی اسٹریٹجک نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اصل نکتہ یہ سمجھنا  ضروری ہے کہ اس میں اسٹریٹجک کیا ہے، نہ کہ پروپیگنڈا کرنے والوں کی گمراہ کن باتوں میں آیا جائے۔

اسٹریٹجک پہلو یہ ہے کہ یہ معاہدہ کئی اہم نکات پر محیط ہے جن میں عسکری تعلقات، معاشی تعاون، جغرافیائی و علاقائی سلامتی اور عوامی روابط شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے بھارت کی مشکلات میں اضافہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے نے پاکستان کو کتنا مضبوط بنادیا؟

2۔ اس تاریخی معاہدے کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف اوپر سے نیچے (Top to Bottom) نہیں بلکہ نیچے سے اوپر (Bottom to Top) بھی ہے۔

3۔ نیچے سے اوپر (Bottom to Top) کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں جو اس معاہدے کے ذریعے مزید مضبوط ہوں گے۔ یہ معاہدہ صرف دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان عہد و پیمان نہیں بلکہ عوام کی محبت اور لگن سے پھوٹنے والا رشتہ ہے، جسے سمجھنا نہایت ضروری ہے

4۔ اگر ہم ماضی میں کسی بھی 2  ممالک کے درمیان ہونے والے ایسے تاریخی معاہدوں کا جائزہ لیں تو ان کے لیے 2 بنیادی شرائط رہی ہیں: کہ فریقین ذمہ دار (Responsible) ہوں اور قابل (Capable) بھی۔ پاکستان اور سعودی عرب کا بھی یہی معاملہ ہے کہ دونوں ممالک اپنی صلاحیت اور بصیرت کے ساتھ ہمیشہ اپنے جغرافیائی سیاسی اقدامات میں اعلیٰ درجے کی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔

5. وہ چند نام نہاد دانشور جو اس معاہدے کو اپنی بے جا سوچ کے ذریعے موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ سب صرف چند لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ کی تفصیلات

6۔پاکستان اور سعودی عرب نے ہمیشہ خطرات کے دائرے کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا ہے اور مستقبل میں بھی خطے اور عالمی سطح پر اسی ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

7۔ یہ معاہدہ دونوں اسٹریٹجک شراکت داروں کے وزن میں مزید اضافہ کرتا ہے تاکہ سلامتی کے شعبے میں درپیش چیلنجز اور خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ سلامتی انسانی تحفظ سے لے کر قومی سلامتی تک ہر پہلو پر محیط ہے

8۔ یہ تاریخی معاہدہ ان دشمنوں کو روکنے اور باز رکھنے کا ذریعہ ہے جو ان دو برادر ممالک کے خلاف بلااشتعال جارحیت کا سوچتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے دشمن جن میں تکبر اور اسٹریٹجک غرور پایا جاتا ہے۔  اس لئے یہ تاریخی معاہدہ خطے اور دنیا میں امن و استحکام کا ضامن ہے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان سعودی عرب تعلقات

متعلقہ مضامین

  • اگست کے دوران ٹیکسٹائل، خوراک، پیڑولیم اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز کی ایکسپورٹ میں کمی
  • پاکستان اور مالدیپ کے درمیان تجارت، سیاحت و دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور
  • پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدے سے خطے میں نئی ہلچل، بھارت پریشان
  • پاکستان سعودی عرب باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیا معنی رکھتے ہیں؟
  • غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
  • وزیرصحت مصطفی کمال کی ترکیہ سفیر ڈاکٹر مہمت پاجا جی سے ملاقات ، ڈاکٹرز اور نرسز کی باہمی تعلیمی شراکت داری کے فروغ پر تبادلہ خیال
  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • چین کی بڑھتی طلب، پاکستان کو بیف ایکسپورٹ کا نیا آرڈر حاصل
  • پاکستان اور ایران میں دو طرفہ تجارت بڑھانا ناگزیر ہے، رحمت صالح بلوچ
  •  وزیر خزانہ سے پولینڈ کے سفیر کی ملاقات‘ تجارت بڑھانے پر  تبادلہ خیال