پاکستان ترکیہ میں تعاون کے 24 سمجھوتوں پر دستخط ہو گئے ہیں، گزشتہ دنوں رجب طیب اردوان پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، جہاں ان کے استقبال کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان کے صدر آصف زرداری موجود تھے۔ صدر رجب طیب اردوان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں۔
ترکی کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ ترکیہ نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی زبانی اور عملی حمایت کی ہے اور پاکستان کے ساتھ دنیا کے بہت سے معاملات میں کھڑا رہا ہے۔ 1971کی جنگ میں ترکیہ نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور عملی اقدام اٹھا کر بھی دکھایا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ 16 دسمبر سقوط ڈھاکا کے ساتھ ہی جب اپنے ہی ملک کے شہری یعنی مغربی پاکستان کے شہری جوکہ ڈھاکا میں بسلسلہ تجارت و صنعت مقیم تھے وہ اجنبی قرار پائے اور انھیں اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ ایسے میں ان شہریوں کو محفوظ جائے پناہ کی تلاش تھی، اس موقعے پر ترکیہ نے ڈھاکا میں واقع اپنے سفارت خانے کے گیٹ ان کے لیے کھول دیے اور ہزاروں مغربی پاکستانیوں کے بارے میں پاکستان میں یہ خبر آ چکی تھی کہ ان کے عزیز و اقارب ترکیہ کے سفارت خانے میں موجود ہیں، تو ہر ایک نے اطمینان کا سانس لیا کہ ہمارے عزیز و اقارب ہمارے بھائی اور برادر ملک ترکیہ کے گھر میں موجود ہیں۔
ترکیہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک لے جانے کی باتیں غالباً 2009 سے ہو رہی ہیں، ان دنوں اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ سطح تزویراتی تعاون کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس سے امید ہو چلی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔
اگرچہ پاکستان کے بزنس مین بڑی تعداد میں استنبول اور دیگر بڑے شہروں کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور اس بات کا تذکرہ بھی کرتے رہتے ہیں اور وہاں پر اپنی مصنوعات ایکسپورٹ کو بڑھانے کے بارے میں پرامید بھی ہیں،کئی افراد ایسے بھی ہیں جو ترکیہ جا کر وہاں کاروبارکرنے کے خواہاں ہیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نسبت وہاں پر مہنگائی بہت ہی زیادہ ہے اور رہائشی مکان یا فلیٹوں دفاترکے کرائے بھی بہت زیادہ مہنگے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ دیگر ممالک کے شہریوں کی نسبت وہاں کے لوگوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص پاکستانی ہے تو وہ اسے اچھی نظر سے دیکھتے ہیں اورکئی افراد ایسے بھی ہیں جو کہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہاں کے شہری پاکستان کے کئی مقامات سے آگاہ بھی ہیں، شاعر مشرق علامہ اقبال سے بھی واقف ہیں، ان کے فارسی کلام کو سمجھتے بھی ہیں، بہت سے افراد لاہور کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور مغل بادشاہوں سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔
جن دنوں پاکستان ترکیہ اور ایران نے مل کر ایک تنظیم قائم کی تھی جسے مخفف میں آر سی ڈی کہا جاتا تھا بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں وہاں کے لوگ سابق صدر ایوب خان سے بھی واقف تھے۔ ان تینوں ملکوں کی خواہش تھی کہ کراچی سے بلوچستان کے راستے سے ہوتی ہوئی وہاں سے ایران سے گزر کر ترکیہ تک ایک روڈ ہو جسے آر سی ڈی روڈ کا نام دیا گیا لیکن 1979 کے ایران انقلاب کے بعد یہ تنظیم غیر فعال ہو کر رہ گئی۔ اب دونوں ممالک مل کر اسلام آباد، استنبول، تہران ITT روڈ کوریڈور کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششیں تیز ترکر رہے ہیں۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تجارتی حجم بہت ہی زیادہ کم ہے۔ پاکستانی ایکسپورٹ زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات پر مبنی ہوتی ہیں جب کہ پاکستان ترکیہ سے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدتا ہے۔ 2009 سے اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح دونوں ملکوں کی تجارت میں اضافہ ہو۔
پی بی ایس کی طرف سے شایع کردہ 20 ممالک کی فہرست انتہائی اہم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سے 20 اہم تجارتی پارٹنرز ہیں جن سے پاکستان بڑے پیمانے پر امپورٹ اور ایکسپورٹ کرتا ہے۔ 2024 کے لیے شایع کردہ لسٹ میں 20 بڑے ممالک میں درآمد اور برآمد دونوں طرف ترکیہ کا نام شامل نہیں ہے۔ البتہ 2023 کے 20 اہم ملکوں کے نام جن کو پاکستان نے بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ کی تھی ان میں ترکیہ کا نام سولہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان نے ترکیہ کو 82 ارب 38 کروڑ77 لاکھ روپے کی اشیا برآمد کیں اس کا حصہ 1.
جولائی تا جون 2022 یہ مالیت64 ارب 75کروڑ66 لاکھ روپے بنتی ہے اور شیئر 1.14 فی صد بن رہا ہے۔ جولائی تا جون 2021 میں کل ایکسپورٹ جوکہ ترکیہ کے لیے تھی وہ مالیت 43ارب 83 کروڑ روپے کے ساتھ 1.08 فی صد بنتی ہے اور جولائی تا جون 2020 تک اس کا حجم 41 ارب 37کروڑ50 لاکھ روپے بنتا ہے۔
پاکستان نے 2009 میں ترکیہ کے ساتھ مل کر جو اعلیٰ سطح تزویراتی کونسل بنائی تھی، اس کے ثمرات اب تک حاصل نہ ہو سکے۔ البتہ اب یہ 24 معاہدے ہوئے ہیں، ان کی بنیاد پر امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے ترکیہ کو جانے والی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ترکیہ کا عالمی تجارت میں بہت بڑا حصہ ہے۔
2023 میں ترکیہ نے 256 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کی تھیں اور آبادی کل ساڑھے 8 کروڑ ہے اور پاکستان کی آبادی اس سے ٹھیک تین گنا زائد ہے اور ہماری ایکسپورٹ اس کے 10 فی صد سے زائد ہے۔ البتہ امپورٹ میں ایک سال ایسا گزرا جب ہم نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور اس ایکسپورٹ کے ایک تہائی کے قریب پہنچ چکے تھے یعنی80 ارب ڈالرکی امپورٹ کر لی تھی۔ ترکیہ اپنی کرنسی لیرا کو بھی بیرونی تجارت میں استعمال کر رہا ہے اور اس میں کامیاب چلا آ رہا ہے۔
پاکستان ترکیہ کے ساتھ تجارت بڑھانے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟ ان وجوہات کو تلاش کیا جائے۔ تجارتی معاہدے کر لینا اور پھر دوسرے کاموں کی طرف توجہ دینا یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ترکیہ میں واقع پاکستانی سفارت خانے کو فعال بنایا جائے ان سے ہر ہفتے رپورٹ لی جائے معلوم کریں کہ تجارت کیوں نہیں بڑھ رہی؟ یہاں کے وہ تاجر ایکسپورٹر جو ترکیہ کے ساتھ کام کرتے ہیں، ان کے مسائل معلوم کیے جائیں ان کو حل کیا جائے۔ 8 کروڑ کی آبادی اور 256 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ یہ اچھی کارکردگی ہے۔
پاکستان کو بھی ان کی اچھی کارکردگی کو مثال بنا کر اس پرکام کرنا چاہیے سب سے پہلے ترکیہ میں ہی اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وہاں کا پاکستانی سفارت خانہ، وہاں کام کرنے والے تاجر اور پاکستان کے معاشی حکام سب مل کر اس بارے میں 5 ارب ڈالر نہ سہی فوری طور پر 3ارب ڈالر سے زائد تجارت کو لے کر جا سکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور پاکستان کے پاکستان ترکیہ جولائی تا جون پاکستان کی میں ترکیہ ترکیہ کے ارب ڈالر ترکیہ نے بھی ہیں ہیں اور کے ساتھ رہا ہے کی تھی کے لیے سے بھی ہے اور
پڑھیں:
بھارت کیلئے فضائی حدود بند، تجارت ختم، پانی روکنا جنگ کا اقدام تصور، پوری طاقت سے جواب دینگے، قومی سلامتی کمیٹی
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا پانی روکنا اعلان جنگ تصور کیا جائے گا اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان نے شملہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کی معطلی کا عندیہ دیتے ہوئے بھارت کیلئے فضائی حدود، سرحدی آمد و رفت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتی عملے کو 30 ارکان تک محدود کرنے کے علاوہ بھارتی دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان نے سکھ یاتریوں کے علاوہ تمام بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کرکے انہیں 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، اعلیٰ سول و عسکری قیاردت، وفاقی وزراء نے شرکت کی۔ شرکاء نے قومی سلامتی کے منظر نامے، علاقائی صورتحال بالخصوص غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں 22 اپریل 2025 کو ہونے والے پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، کمیٹی نے 23 اپریل 2025 کو اعلان کردہ بھارتی اقدامات کا جائزہ لیا اور انہیں یکطرفہ، غیر منصفانہ، سیاسی محرکات پر مبنی، انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی قرار دیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے مندرجہ ذیل مشاہدات کیے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین ایک غیر حل شدہ تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔ مسلسل ہندوستانی ریاستی جبر، ریاستی حیثیت کی منسوخی، سیاسی اور آبادیاتی ہیر پھیر، مسلسل غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کے لوگوں کی طرف سے ایک فطری و مقامی ردعمل کا باعث بنی ہے، جو تشدد کی فضا کا باعث بنا ہے۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بھارت کا منظم ظلم و ستم مزید بڑھ گیا ہے۔ وقف بل کی زبردستی منظوری کی کوششیں ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی تازہ ترین کوشش ہے۔ بھارت کو ایسے المناک واقعات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی پوری ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی بلا امتیاز مذمت کرتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف دنیا کی صف اول کی ریاست ہونے کے ناطے پاکستان کو بے پناہ انسانی اور معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر کشیدگی کی بھارتی کوششوں کا مقصد پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے توجہ ہٹانا ہے۔ کسی مصدقہ تحقیقات اور قابل تصدیق شواہد کی عدم موجودگی میں پہلگام حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں بے بنیاد، عقلیت اور منطق سے عاری ہیں۔ بھارت کی مظلومیت کی بوسیدہ داستان پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی آگ کو ہوا دینے میں اس کے اپنے قصور کو چھپا نہیں سکتی اور نہ ہی وہ بھارتی زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں اپنے منظم اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹا سکتی ہے۔ ہندوستانی دعووں کے برعکس، پاکستان کے پاس پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت ہیں، جن میں ہندوستانی بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر، کمانڈر کلبھوشن یادیو کا اعتراف بھی شامل ہے، جو ہندوستان کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا زندہ ثبوت ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے 23 اپریل 2025 کے بھارتی بیان میں مضمر خطرے کی مذمت کی۔ پاکستان تمام ذمہ داروں، منصوبہ سازوں اور مجرموں کا پیچھا کرے گا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔ کمیٹی نے مندرجہ ذیل فیصلے کئے۔ پاکستان سندھ طاس معاہدہ ملتوی کرنے کے بھارتی اعلان کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کی ثالثی عالمی بینک نے کی اور اس میں یکطرفہ طور پر معطلی کی کوئی شق نہیں ہے۔ پانی پاکستان کا ایک اہم قومی مفاد ہے، جس پر اس کے 24 کروڑ عوم کی زندگی منحصر ہے اور اس کی دستیابی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش اور زیریں دریا کے حقوق غصب کرنے کو ایک جنگی قدم تصور کیا جائے گا اور قومی طاقت کے مکمل دائرہ کار میں پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔ بین الاقوامی کنونشنز، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو اپنی مرضی سے نظر انداز کرنے والے بھارت کے لاپرواہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو دیکھتے ہوئے، پاکستان اس وقت بھارت کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کرے گا، جو صرف شملہ معاہدے تک ہی محدود نہیں رہے گا، جب تک بھارت سرحد پار قتل و غارت، بین الاقوامی قوانین اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی عدم پاسداری سے باز نہیں آتا۔ پاکستان واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کر دے گا۔ اس راستے سے ہندوستان سے تمام سرحد پار آمدورفت بغیر کسی استثنا کے معطل رہے گی۔ جو لوگ درست قانونی طریقے سے پاک بھارت سرحد عبور کر چکے ہیں وہ اس راستے سے فوری طور پر واپس جا سکتے ہیں لیکن 30 اپریل 2025 کے بعد یہ سہولت بند کردی جائے گی۔ پاکستان نے ہندوستانی شہریوں کو جاری کردہ سارک ویزا استثنیٰ سکیم (SVES) کے تحت تمام ویزوں کو معطل کر دیا ہے اور سکھ مذہبی یاتریوں کے علاوہ انہیں فوری طور پر منسوخ تصور کیا ہے۔ پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے دیا۔ انہیں 30 اپریل تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان مشیروں کے معاون عملے کو بھی ہندوستان واپس جانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ 30 اپریل 2025 سے اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمیشن کی تعداد 30 سفارت کاروں اور عملے کے ارکان تک محدود کر دی جائے گی۔ پاکستان کی فضائی حدود میں ہندوستان کی ملکیت اور ہندوستان سے چلنے والی تمام ایئرلائنز کو فوری طور پر بند کیا جارہا ہے۔ بھارت کے ساتھ تمام تجارت، بشمول کسی تیسرے ملک سے پاکستان کے راستے تجارت، فوری طور پر معطل کر دی گئی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی مہم جوئی کے خلاف اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی بھرپور صلاحیت کی حامل اور مکمل طور پر تیار ہیں، جیسا کہ فروری 2019 میں بھارت کی دراندازی پر پاکستان کے بھارت کے خلاف بھرپور ردعمل سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ آخر میں کہا گیا، بھارت کے جارحانہ اقدامات نے دو قومی نظریہ کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کے خدشات کی بھی توثیق کی ہے ۔ 1940 کی قرارداد جو کہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمان ہے، کی بنیاد بھی دو قومی نظریہ ہی تھا۔ پاکستانی قوم امن کے لیے پرعزم ہے لیکن کسی کو بھی اپنی خود مختاری، سلامتی، وقار اور ناقابل تنسیخ حقوق سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔علاوہ ازیں بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے بھارت کو اپنے جوابی فیصلوں سے تحریری طور پر آگاہ کر دیا۔ بھارتی ناظم الامور گیتکا سری واسقو کی دفتر خارجہ طلبی کی گئی۔
اسلام آباد؍ نئی دہلی(خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ ) پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت اور فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت اور واہگہ بارڈر کو بند کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے لئے پاکستانی ایئر سپیس بھی بند کردی گئی ہے۔ بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑنا ہوگا۔ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیرخارجہ اسحق ڈار نے وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ بھارتی الزامات اور فیصلے غیرذمہ دارانہ ہیں۔ دفترخارجہ نے گزشتہ روز ہی، بھارت سے بھی پہلے پہلگام واقعے کی مذمت کا اعلامیہ جاری کردیا تھا۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی جانب سے پاکستان کے اس اعلامیے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مثبت قدم قرار دیا تھا۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا یکطرفہ اقدام کسی بھی طور قبول نہیں، بھارت ایسا کر بھی نہیں سکتا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے میں ثالث تھا اور معاہدے میں یکطرفہ طور پر معطل کیے جانے کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔ 24 کروڑوں لوگوں کا یہ ملک ایسا کوئی بھی یکطرفہ اقدام قبول نہیں کرے گا، اور اگر معاہدے میں کوئی رکاوٹ آتی ہے تو پھر پاکستان کو دو حق حاصل ہیں ایک تو یہ کہ اس کے نتیجے میں وہ جو قدم اٹھانا چاہے وہ اٹھائے گا۔ دوسرا یہ کہ لیڈر شپ نے بڑا واضح فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کے اقدام کے جواب میں شملہ معاہدے سمیت دیگر دوطرفہ معاہدوں پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ قومی سلامتی اجلاس میں بھارت کے اٹاری بارڈر کو بند کرنے کے جواب میں ہم بھی واہگہ بارڈر بند کررہے ہیں اور بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کی جارہی ہے۔ بھارت سے براہ راست تجارت کے ساتھ ساتھ کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہونے والی تجارت بھی معطل کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سارک ویزا ایگزمشن سکیم کے تحت جن بھارتیوں کو ویزے جاری ہوچکے ہیں انہیں منسوخ کیا جارہا ہے، سکھوں کے سوا بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے کے اندر واپس جانے کا کہا گیا ہے۔ ہم نے بھی بھارتی بحریہ اور فضائیہ کے ایڈوائزرز کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا ہے اور ان کو بھی 30 اپریل تک پاکستان چھوڑ دینا ہوگا۔ بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد 55 سے کم کرکے 30 کردی ہے، تو اس کے جواب میں ہم نے بھی اسلام آباد میں بھارتی سفارتی عملے کی تعداد کم کرکے 30 کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے لیے پاکستانی فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کسی بھی بھارتی ایئرلائن کے طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسحق ڈار نے کہا کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے میں اپنا بنگلہ دیش کا دو روزہ سرکاری دورہ ملتوی کررہا ہوں، تاکہ کسی بھی حالات میں ہم جواب دینے کے لیے تیار ہوں۔ وزیرخارجہ اسحق ڈار نے مزید کہا کہ بھارت ہمیشہ الزامات عائد کرتا ہے، اگر پاکستان کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد ہیں تو بھارت کو چاہیے کہ وہ پاکستان یا دنیا کے سامنے رکھے۔ ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ سرینگر میں حال ہی میں غیرملکی آئے ہیں جن کے پاس بھاری آلات ہیں، ان کے کیا عزائم ہیں اس پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ایجنسیوں کی اطلاع ہے کہ بھارتی ایجنسیاں ان غیرملکیوں کو سپانسر کررہی ہیں اور ان افراد کے پاس جو آئی ای ڈیز ہیں انہیں ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کررہی ہیں، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آئی ای ڈیز کہاں ایکسپورٹ ہوں گی۔ تاہم پاکستان کو اگر کسی بھی حوالے سے کوئی چیلنج درپیش ہوتا ہے تو اس کے لیے الحمد للہ ہماری افواج مکمل طور پر تیار ہیں، اور کسی نے ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو اس کا ماضی سے زیادہ برا حشر ہوگا۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے ہیں کہ معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ اپنا کردار فعال طور پر ادا کریں، پاکستان کا نام لے کر کوئی بات نہیں کی گئی لیکن چونکہ انہوں (بھارت) نے کچھ فیصلے کیے ہیں جن کا جواب دے دیا گیا ہے، جب براہ راست حملہ ہوگا تو پھر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ دورہ کابل میں افغان وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت میں یہ کہا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں، اگر دو ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر کوئی چھوٹی موٹی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اسے ہماری سکیورٹی فورسز کی ناکامی نہیں کہا جاسکتا۔ تمام صورتحال پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد لیا جائے گا اور اس پورے معاملے کو پارلیمان کے سامنے بھی رکھا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے معاہدے کو ختم یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے فریقین کی رضامندی ضروری ہے، تنازع کی صورت میں ثالثی کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہآصف نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت سمیت جہاں بھی دہشتگردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، مگر ہم اپنے دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر رہا ہے، افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشتگرد موجود ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں، کلبھوشن بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی زندہ گواہی ہے۔کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر بھارت میں ہیں اور اپنا علاج وہاں کراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں، اور بھارتی وزیراعظم مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 9لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں پہلگام واقعے پر سوالیہ نشان ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ کوئی کسی شک میں نہ رہے، ہم پوری طرح تیار ہیں اور بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیں گے۔ وفاقی وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی اقدامات گیدڑ بھبکیاں تھیں، ہم نے بھارتی اقدامات کا دو گنا بڑھ کر جواب دیا، سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس صرف اونچی آواز اور گیدڑ بھبکیاں ہیں، ہم نے سود سمیت حساب برابر کردیا ہے اور بیانیے کی جنگ میں بھی بھارت پر سبقت حاصل کی ہے۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ پاکستانی فضائی حدود بند کرنے سے بھارتی ایئرلائنز کو کروڑوں کا نقصان ہوگا جس کا اثر بھارتی معیشت پر پڑے گا۔ ہمارے صحافیوں نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کا کیس بڑے موثر اور مدلل انداز میں لڑا ہے جس پر میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دہشت گردوں کے خلاف جو ہمیں کامیابیاں ملی ہیں، وہ بھارت کو ہضم نہیں ہورہیں کیونکہ بھارت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کروا رہا ہے، تو ہمارے مغربی جانب جو آپریشن ہورہے ہیں اس سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی بھارت نے اس واقعے کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جنگوں میں بھی سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسی کوئی بات معاہدے میں شامل نہیں ہے، اسی لیے اسے مرکزی موضوع نہیں بنایا گیا، بلکہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں پوری توجہ یہ واضح پیغام دینے پر تھی کہ آپ کی سکیورٹی ناکام ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے لوگوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوا ہے، اور اپنی ناکامی کا ملبہ کسی دوسرے پر نہیں ڈال سکتا، نہ اس کی اجازت عالمی قانون میں ہے اور نہ ہی یہ بین الاقوامی قاعدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ واضح پیغام ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ہمارے لیے ایک مقدس معاہدہ ہے، اور ہم اس پر عمل درآمد کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ سندھ طاس معاہدے کی صورت میں اس کے نفاذ کے حوالے سے معاہدے میں مکینزم موجود ہے، اور ویانا کنونشن میں بھی کسی بھی تنازع کی صورت میں معاہدے پر عمل درآمد کا مکینزم دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کی زیر صدارت نئی دہلی میں اے پی سی ہوئی۔ کانگریسی رہنما راہول گاندھی اور آل انڈیا اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے بھی شرکت کی۔ بھارتی اپوزیشن رہنمائوں نے مودی پر سخت تنقید کی۔دریں اثناء بھارتی وزیر داخلہ نے پہلگام حملے میں سکیورٹی کوتاہی کا اعتراف کر لیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے پہلگام حملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھائے۔ علاوہ ازیں بھارتی پنجاب پولیس کے مطابق واہگہ بارڈر سے 28 پاکستانی واپس پاکستان آ گئے۔ پاکستان سے 105 بھارتی شہری بھی واہگہ بارڈر سے واپس بھارت جا چکے ہیں۔