آج کل وزیراعلیٰ مریم نواز کو غیر ضروری بلکہ انتہائی گھٹیا تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، گزشتہ دو تین ہفتے سے اس کی انتہا ہوگئی ہے ،ہم اْس گھٹیا سلسلے پر بھی لعنت بھیجتے ہیں جو عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری و ساری ہے ، بشریٰ بی بی یا اْن کی سہیلی فرح گوگی پر کرپشن کے جو الزامات ہیں اْن پر دلائل کے ساتھ مہذب انداز میں تنقید اگر ہوتی ہے ،ہونی چاہئے ، اس میں کوئی حرج نہیں ، اسی طرح مریم نواز یا اْن کے خاندان کی کرپشن کے حوالے سے اْن پر تنقید مہذب انداز میں اگر ہوتی ہے ہونی چاہئے ، مگر ان خواتین پر ذاتی حوالے سے گھٹیا الزامات لگانا ، اْن کی غلیظ وڈیوز بنانا اور سوشل میڈیا پر اپنے غلیظ مقاصد کے لئے اْنہیں استعمال کرنا انتہائی شرم ناک ہے ، یہ گھٹیا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے آگے کوئی رکاوٹ بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی ، حکمرانوں نے فیک نیوز کے خلاف نت نئے قوانین بنا دئیے ہیں ، ان قوانین کی زد میں کچھ پاکستانیوں کو تو لایا جا سکتا ہے ، مگر جو شرپسند یہ کام باقاعدہ ایک مشن کے طور پر بیرون ملک بیٹھ کے کر رہے ہیں ہماری حکومت فی الحال اْن کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، موجودہ حکمرانوں کے خلاف ساری گندگی باہر سے اْچھالی جا رہی ہے اور اس کا غصہ ہمارے حکمران پاکستان میں بیٹھے کچھ ایسے لوگوں پر نکال رہے ہیں جو چھوٹی موٹی تنقید کر کے اپنا کتھارسس کر لیتے ہیں ، یہ درست ہے اپنے اقتدار کے ایک سال میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف ڈھنگ کا ایسا کوئی کام نہیں کر سکیں جس کی بنیاد پر اگلا الیکشن وہ فارم 45 کی بنیاد پر جیت سکیں ، دوسری طرف یہ بھی درست ہے کارکردگی دکھانے کے لئے محض ایک سال کا عرصہ کافی نہیں ہوتا ، مریم بی بی نے ایک سال مصنوعی شہرت حاصل کرنے میں گزار دیا ، ہم چاہتے ہیں مصنوعی شہرت کی خواہش پر قابو پا کر بقیہ عرصہ وہ حقیقی عزت حاصل کرنے میں گزاریں ، اگر اس کا اہتمام وہ نہ کر سکیں اگلا الیکشن حالات کے مطابق وہ شاید فارم 47 کے مطابق ہی جیتیں گی جبکہ سیاست میں اْن کی حیثیت کو صرف اْسی صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب وہ خود الیکشن جیت کر آئیں گی اور یہ صرف اْسی صورت میں ممکن ہوگا جب اْن کی کارکردگی کا اعتراف لوگ خود کریں گے اور اپنی کارکردگی کا اعتراف کرانے کے لئے کنٹرولڈ میڈیا کا اْنہیں محتاج نہیں ہونا پڑے گا ، کسی طاقتور کی سرپرستی سے کوئی مقام اْنہیں مل بھی گیا وہ دیرپا نہیں ہوگا ، اْنہیں پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز اگر مل ہی گیا ہے وہ یہ ثابت کرنے کی کم از کم کوشش تو کریں وہ پچھلے کئی مرد وزرائے اعلیٰ سے بہتر ہیں ، البتہ پچھلے ایک وزیراعلیٰ بْزدار کے مقابلے میں اْنہیں کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ، وہ اگر بالکل فارغ بھی بیٹھی رہیں ، نااہلیوں کے ریکارڈ قائم کر دیں ، کرپشن بھی جی بھر کے کر لیں پھر بھی بْزدار سے ہر لحاظ سے وہ بہتر ہی ثابت ہوں گی ، عمران خان کے اقتدار کے پونے چار سالہ دور میں اْن کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح پر آنے کی بڑی وجہ بزدار جیسے نکمے شخص کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب تقرری تھی ، جنرل باجوہ عمران خان کی حکومت ختم کر کے اْن کی مقبولیت کو نئی زندگی نہ بخشتے اْن کی سیاست اور مقبولیت مستقل زوال کا شکار ہوجاتی اور اس کا ذمہ دار اْن کا وسیم اکرم پلس یعنی بزدار ہوتا ، ایک بار کسی نے بزدار سے پوچھا ’’تم کوئی کارکردگی کیوں نہیں دکھاتے ؟‘‘ وہ بولا’’ میں اس لئے کوئی کارکردگی نہیں دکھاتا کہیں میرا وزیراعظم عمران خان مجھ سے ناراض نہ ہو جائے کہ جب میں بطور وزیراعظم کوئی کارکردگی نہیں دکھا رہا تو تم بطور وزیراعلیٰ کوئی کارکردگی دکھانے والے کون ہوتے ہو ؟‘‘ ، بزدار اور مریم نواز کے ادوار کا پہلا فرق یہ ہے مریم نواز نے ایک انتہائی اعلیٰ کردار کے حامل افسر ساجد ظفر ڈال کی خدمات بطور پرنسپل سیکرٹری حاصل کیں جن کی اہلیت اور ایمانداری پر کسی کو شک نہیں ، جبکہ بزدار نے بطور پرنسپل سیکرٹری ایسے شخص کا انتخاب کیا تھا جس کی مالی ہوس کی کوئی حد نہ تھی، اْس دور میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں سول و پولیس افسروں کی تقرریوں تبادلوں کی باقاعدہ منڈی لگی تھی ، جہاں بولیاں لگتی تھیں ، عہدے نیلام ہوتے تھے ، موجودہ پرنسپل سیکرٹری ساجد ظفر ڈال نے اپنی ٹیم میں وقار حسین اور اب سیف انور جپہ جیسے بہترین افسروں کو شامل کیا ، سیف انور جپہ کا تعلق افسروں کی انتہائی نیک نام اور گریس فْل فیملی سے ہے ، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں اْنہیں ایڈیشنل سیکرٹری لاء اینڈ آرڈر مقرر کیا گیا ہے ، اْمید ہے ایک بہتر کوآرڈی نیشن سے صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کے معاملات میں بہتری آئے گی ، خصوصاً مردم بیزار اور کرپٹ پولیس افسران اپنا قبلہ درست کریں گے ، وزیراعلیٰ مریم نواز ایوان وزیراعلیٰ میں تعینات ان افسروں سے راہنمائی اگر لیتی رہیں مجھے یقین ہے بہت جلد وہ مصنوعی شہرت سے حقیقی عزت کے سفر پر گامزن ہوجائیں گی ، اْن کی اطلاع کے لئے عرض ہے اْن کی جماعت کے کچھ ارکان صوبائی اسمبلی نجی محفلوں میں اْن کے بارے میں اچھی گفتگو نہیں کرتے ، پنجاب کابینہ کے کچھ ارکان بھی اْن میں شامل ہیں ، اپنی کابینہ میں کچھ مخلص اور اچھے لوگوں کو بھی وہ اگر شامل کر لیں مصنوعی شہرت سے حقیقی عزت کا سفر اور آسان ہو جائے گا ، گوجرانوالہ سے عمران خالد بٹ نے عمران خان کے دور میں سیاسی انتقام کے طور پر بہت مشکلات دیکھیں ، ایک انتہائی پڑھے لکھے نفیس نوجوان سلمان نعیم ملتان سے ن لیگ کے واحد ممبر صوبائی اسمبلی ہیں ، کچھ اور مثالیں ہیں جنہیں میرٹ پر وزیر بنایا جا سکتا ہے ، بزدار کی کابینہ کے اکثر وزیر بزدار کی طرح دیہاڑی باز تھے ، کچھ ایسے دیہاڑی باز موجودہ کابینہ میں بھی موجود ہیں ، اْن سے نجات حاصل کر کے اہل اور دیانت دار ارکان اسمبلی کو کابینہ میں شامل کیا جائے تو مصنوعی شہرت سے حقیقی عزت کا سفر مکمل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کوئی کارکردگی مریم نواز نہیں ہو کے لئے ا نہیں
پڑھیں:
نہروں کی تعمیر کا معاملہ حل ہوگیا، وفاقی حکومت پیشرفت نہیں کرے گی، وزیراعلیٰ سندھ
کراچی:وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نئی نہروں کی تعمیر کا معاملہ حل ہو گیا ہے اور فیصلہ ہوا ہے کہ نہروں کے معاملے پر وفاقی حکومت پیش رفت نہیں کرے گی اور دھرنے دینے والے اپنے دھرنے ختم کریں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ‘سینٹر اسٹیج’ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ آج یہ فیصلہ ہوا ہے کہ نہروں کے معاملے پر وفاقی حکومت پیش رفت نہیں کرے گی اور میں شکر گزار ہوں کہ آج اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے اور 2 مئی کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس ہوگا۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ دریاؤں میں اتنا پانی نہیں کہ نئی نہروں کا منصوبہ بنایا جائے، مجھے امید ہے کہ سی سی آئی میں بھی یہ طے ہو گا کہ دریاؤں میں پانی نہیں تو نئی نہریں بھی نہ بنیں، اگر صوبوں کا اتفاق رائے پیدا ہو جائے تب تو اس منصوبے کو سامنے لایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ دھرنے دینے والوں کو کہوں گا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے، وفاقی حکومت نے ہمارا مؤقف مان لیا ہے، لہٰذا دھرنے ختم کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ نئی نہروں کا منصوبہ ختم ہو گیا ہے اور شکر ہے کہ سندھ کے عوا م کی بے چینی ختم ہوگئی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ جون 2024 میں نئی نہریں بنانے کا فیصلہ کیا گیا، تب سے سی سی آئی کی میٹنگ نہیں ہوئی، لوگوں میں بے چینی پھیل گئی، کچھ بیانات ایسے آ رہے تھے جیسے کوئی نئی نہر بن رہی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا اور بتایا کہ جو فیصلہ ہوا وہ غلط اعداد و شمار پر ہوا، ہم نے نہروں کی تعمیر کے معاملے پر آئینی طریقہ اختیار کیا۔
بھارتی جارحیت سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو آج قومی سلامتی کمیٹی میں حکومت نے فیصلے کیے ہیں، پیپلز پارٹی اور قوم اس کے پیچھے کھڑی ہے، جو معاہدہ یہ ختم نہیں کر سکتے بھارتی حکومت نے اس کو ختم کرنے کی بات کی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہلاکتوں کے واقعے کی مذمت سب نے کی لیکن جو بھارتی حکومت کا ردعمل آیا اس کی بھی مذمت کرنی چاہیے، بھارت نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان کے خلاف الزامات عائد کیے۔