پاکستان کے کون سے علاقے بارش سے جل تھل ہوئے اور کہاں ہورہی ہے برفباری؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
طویل خشک سالی کا خطرہ ٹلنے لگا، ملک بھر کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں طویل عرصے بعد تیز بارش ہوئی۔
بدھ جمعرات کی درمیانی شب لاہور ، فیصل آباد، ملتان، وہاڑی، میلسی، راجن پور، گوجرانوالہ،گجرات، گوجر خان، حافظ آباد سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش دیکھنے کو ملی۔
راولپنڈی اور اس کے نواح میں تقریباً 4ماہ بعد تیز بارش ہوئی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بوکرہ میں 19، ایچ ایٹ میں 22، شمس آباد میں 20،چکلالہ میں 18 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
لاہور میں بھی رات بھر بادل برستے رہے، ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں، جس سے موسم خوشگوار ہوگیا۔
محکمہ موسمیات نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مزید 3 دن کی تیز بارش کی پیش گوئی کی ہے، دوسری جانب مری اور گلیات میں رات سے برفباری جاری ہے جس کے باعث سیرکے لیے آنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
بلوچستان میں قلات، چمن، قلعہ سیف اللہ اور زیارت میں بارش اور برف باری کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا۔
سندھ میں گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ اور ٹھل میں بھی ہلکی بارش ہوئی۔
بارش اور برف باری کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
محکمہ موسمیات نے آج بھی اسلام آباد، بالائی پنجاب،خیبرپختونخوا ،کشمیر اور گلگت بلتستان میں اکثر مقامات پر بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ظاہر کیا ہے، اس کے علاوہ خطہ پوٹھوہار اور شمال مشرقی پنجاب میں چند مقامات پر ژالہ باری بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھی بادل خوب برسے جبکہ کوہ سفید پر برف باری بھی ہوئی جس سے سردی بڑھ گئی۔ پشاور، چارسدہ، مردان، دیر، خیبر، مظفر آباد ، اٹھمقام میں بارش سے ٹھنڈ پھر بڑھ گئی۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے علاقے نکیال میں طویل عرصے بعد خشک سالی کا خاتمہ ہوگیا۔
محکمہ موسمیات نے بالائی وادی نیلم میں بھی ہلکی برفباری اور بارشوں کا سلسلہ آج بھی جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: محکمہ موسمیات کا سلسلہ میں بھی
پڑھیں:
رشتہ ایک سرد مہری کا
وہ کڑیل جوان اچانک پسینے سے شرابور، دل کی دھڑکن قابو سے باہر، گھر میں کہرام، بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے۔ دوا دی گئی، کوئی اثر نہیں ہوا، دوسری دوا دی گئی۔ دھڑکن کچھ تھمی اور رگوں پر خون کا پریشر کچھ کم ہوا۔ لیکن یہ کیا، تھوڑی دیر بعد الٹیاں شروع ہوگئیں، تازہ تازہ خون سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اور دواؤں کے پے در پے ادوار شاید زندگی پر چلنے والے کلہاڑے کے وار ثابت ہوئے۔
وہ کل جو اس وقت زندگی کے شور میں ہنس اور دوسروں کو ہنسا رہا تھا، آج سرد پڑا ہے۔ آنکھیں ٹنگی ہیں، ہر طرف خاموشی ہے۔ اس کا مردہ جسم شفا خانے میں رسمی کاروائی کا منتظر ہے۔ انسانی مشاہدات تو درکنار، ڈاکٹر یا نرس کے کہنے پر بھی اسپتال کے کاغذات اس بے جان جسم کو مردہ نہیں کہتے۔ دل کی بند دھڑکنوں کو مشینوں پر چیک کرکے روح کے نکل جانے کا اعلان باقی ہے۔ اس چیکنگ کی فیس اور لاکھوں کے تاوان ادا کرکے احساس کے قید خانے میں ضبط کی ہوئی لاش لے جائی جاسکتی ہے۔
کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا؟ کیا اس جوان کو بچایا جاسکتا تھا؟ معلومات اور خیالات کی زنجیر میں کیا کیا خلا ہیں۔ علم سے دانشمندی کی کشید میں کہاں کہاں آلودگی ہے، کہاں کہاں ملاوٹ ہے۔ اس سفر میں کہاں کہاں سیاہ دھبے ہیں، راستوں میں کہاں کہاں پر گھپ اندھیرا ہے۔ کہاں کہاں خندقیں بنائی گئی ہیں، کہاں کہاں گڑھے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلی دوا نے اثر نہیں کیا، کہیں دوا نے مہلک اثر تو نہیں کیا۔ راقم عہد وفا میں خاموش ہے۔
امریکا دنیا کا طاقتور ملک، سائنس کے افق پر حکومت کرنے والا ملک، جہاں سر توڑ کوشش کے باوجود سال 2024 میں 900 سے کم جنیرک ادویات استعمال کےلیے منظور ہوئیں۔ وہاں ادویات کے لیبل پر لکھے گئے وعدوں کی نگہبانی حکومت کے ادارے کرتے ہیں۔ دواؤں سے منسلک دعووں کو پرکھنے کےلیے ہزاروں پیشہ ور افراد مامور ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ 2024 میں کسی آزاد وطن میں 15000 سے زائد جنیرک ادویات رجسٹرڈ کی گئیں۔ ان میں سے ایک بھی ترقی یافتہ ملک میں منظور نہیں ہوئیں۔ نہ ہی کسی نے منظوری کی درخواست جمع کرانے کی ہمت کی اور نہ ہی کسی دنیا کے ضامنوں نے اس قابل سمجھا کہ ان تک پہنچے۔
ترتیب پانے والی غیبی آواز سے بے اعتنائی کا حوصلہ نہیں۔ اس دشت کی سیاحی میں زندگی گزر گئی، اپنے مسقبل سے بے نیاز ہمارے خیالات میں جارحانہ پن حاوی رہا اور انصاف کی پیروی میں لوٹ مار کے خلاف ہمارے خواب صف آرا ہی رہے۔ ہر طرف خاموشی ہے، سناٹا ہے، گم صم ہیں۔ میسنے اور گھنے کا ہجوم ہے۔ سچ کہنے پر دشمنی پر اتر آتے ہیں، کردار کشی کرنے کےلیے محاذ بناتے ہیں۔ مجرے کراتے ہیں، پیسے لٹاتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ ادویات اگر ناقص ہوں تو کسی کی روح ایسے نکلتی ہے جیسے سڑک پر آوارہ کتے کی لاش تڑپ رہی ہو اور گاڑیوں میں موسیقی کی دھن اور اپنی دھن میں مست رواں دواں۔ دواؤں کی اور جنیرک دواؤں کی بھرمار، مگر جان کی قیمت کون پوچھے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔