Express News:
2025-11-03@18:13:00 GMT

سیاسی مخالفین کے خلاف ہمارا مجموعی سیاسی کلچر

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنا ہے۔ہمارا مجموعی مزاج سیاسی تنقید کا کم اور سیاسی دشمنی کا زیادہ غالب نظر آتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مخالفین پر تنقید کے نام پر تضحیک کے پہلو کو نمایاں پیش کرتی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں جمہوری روایات اور طرز عمل پنپ نہیں سکا۔سیاسی جماعتیں جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کے دعوے تو بہت کرتی ہیں لیکن ان جماعتوں کی مجموعی سیاست جمہوری اور اخلاقی اصولوں کے برعکس ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک جماعت کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام بڑی اور چھوٹی جماعتیں اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ایک وجہ قومی سیاست میں حقیقی مسائل کی بنیاد پر ہمیں عملی سیاست کا فقدان نظر آتا ہے۔جب حقیقی مسائل پر مبنی سیاست نہیںہوگی تواس کی جگہ ہمیں غیر سنجیدہ اورالزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں جو ہمیں سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے عدم تسلسل کی کہانی یاجمہوریت کے کمزور ہونے کا عمل دیکھنے کوملتا ہے تو اس کی وجوہات کو دیکھیں توایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے داخلی سطح پر موجود غیر جمہوری طرزعمل اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سیاست بھی ہے جو قومی سیاست پر غالب ہے۔ سیاسی جماعتوں کا دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف الزام تراشیوں کا کھیل ایک طرف ان کے اپنے سیاسی مفادات کے گردگھومتا تھا تو دوسری طرف اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو بھی ہوتا تھا جو سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھاکر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل بھی کرتے تھے۔

ہم جب سیاسی جماعتوں کی طرز سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے بہت سے دوست اس تجزیے کی بنیاد 2011 سے بناتے ہیں۔ان کے خیال میں 2011 سے پہلے پاکستان کی سیاست میں نہ تو کوئی محاذآرئی کا کلچر تھا اور نہ ہی کردار کشی اور گالم گلوچ پر مبنی سیاست۔ان کے بقول یہ سب کچھ 2011 کے بعد سے شروع ہوا ہے اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا جاتا ہے۔پی ٹی آئی پر بہت تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔یقیناً انھوں نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح کوئی اچھی سیاسی روایت قائم نہیں کی ہے۔ لیکن ہم نے جو سیاست 80 اور 90 کی دہائی میں دیکھی ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

اس سیاست میں بہت کچھ ہوا اور مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی کردار کشی تک کی۔ بھٹوصاحب کے خلاف بننے والا پی این اے کا اتحاد ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد ان دونوں اتحادوں کی سیاست مجموعی طورپر منفی اور نفرت کی سیاست پر مبنی تھی اور اس سیاست کی وجہ سے جمہوری عمل متاثر ہوا۔یہ جو بار بار ہمیں ملکی سیاست میں فوجی مداخلتوں کا کھیل دیکھنے کو ملا ،وہ بھی اسی سیاست کا عملی نتیجہ تھا۔

ہمیں مجموعی طورپر اس ناکامی کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کیونکہ ایک طرف بھٹو کے مخالفین تھے دوسری طرف بھٹو کے حامی اور دونوں نے اس کھیل میں نفرت کے بیج بوئے۔ماضی کی سیاست میں ہم نے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلافملک دشمنی ،قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا، بھارت اسرائیل اور امریکا دوستی اور مسلم دشمنی پر مبنی سیاست کو دیکھا ہے۔اس کھیل میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا تھا۔ماضی کی جو منفی سیاست ہم نے دیکھی تھی اب اس کی نئی شکل ہم دیکھ رہے ہیں۔

بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے سبق سیکھا ہے اور اس کی مثال وہ میثاق جمہوریت کو دیتے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میثاق جمہوریت کے بعد بھی یہ جماعتیں ایک دوسرے سے دست وگریبان رہی ہیں اوراس وقت یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کے کھیل شریک ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا، چاہے ماضی کی سیاست ہو یا آج کی سیاست ہم مجموعی طور پر جمہوری سیاست اور جمہوری طرز عمل کو اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا جمہوری تجربہ وہ نتائج نہیں دے رہا جو جمہوری ملکوںکو ملتا ہے۔ہماری جمہوریت آج دنیا کی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہے اور لوگ ہماری جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھارہے ہیں یا ان کو ہماری جمہوریت پر شدید تحفظات ہیں۔

جمہوریت سے مراد اپنے سیاسی مخالفین کی سیاسی قبولیت سے ہوتا ہے اور جمہوری عمل ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا سکھاتا ہے جب کہ ہم جمہوریت کے نام پر سیاسی دشمنی کے کھیل میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ جمہوریت کا سفر پیچھے رہ گیا ہے۔یہ کھیل میںکسی ایک سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کی ناکامی نہیں بلکہ اس میں سب جماعتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔بعض سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی قوتوں کے ایجنڈا کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی سیاست کے بیج بوئے ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں نے یہاں اپنی اپنی جماعتوں کو ایک دوسرے کی عملی مخالفت میں نفرت کے طور پر استعمال کیا ۔ اس لیے ہماری سیاست کے حقائق کافی تلخ ہیں اور ہمیں اپنی اپنی سیاسی پسندوناپسند سے باہر نکل کر ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں قومی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔یہ جو ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر ہم اپنا قومی سیاسی بیانیہ نفرت کی بنیاد پر بنا رہے ہیں، اس سے معاشرے میں سیاسی بنیادوں پر اور زیادہ تقسیم ہوگی۔پہلے ہی ہم بطور معاشرہ سیاسی طور پر بہت تقسیم ہوگئے ہیں اور اس تقسیم نے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔

اس لیے ہمیں ایک نئی سیاست درکار ہے جو لوگوں میں سیاسی نفرت کو کم کرے اور اس عمل میں ہماری سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادت کو بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کرناہوگا۔یہ عمل روائتی اور فرسودہ یا غیر حقیقی سیاسی ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں آگے بڑھے گا۔سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ اپنی سیاست کی سمت کو درست کریں اور سیاست کو جمہوری اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھائیں۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، ہمیںاس عمل میں قومی سطح پرایک تحریک چلانی ہوگی کہ سیاست اور جمہوریت کی بنیاد سیاسی دشمنی پر نہیں بلکہ قومی اورحقیقی مسائل سے جڑی ہونی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی مخالفین سیاسی جماعتوں پر مبنی سیاست ایک دوسرے کے سیاسی جماعت کی بنیاد پر اپنے سیاسی جماعتوں نے جماعتوں کی جمہوریت کے اور جمہوری سیاست میں میں سیاسی کھیل میں سیاست کا کی سیاست نے سیاسی ماضی کی کے خلاف اور اس ہے اور

پڑھیں:

آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-2-4
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما و قائد حزبِ اختلاف کنٹونمنٹ بورڈ حیدرآباد قاضی اشہد عباسی نے صحافیوں کیخلاف جرائم میں استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آزاد اور محفوظ صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کے دوران دھمکیوں، تشدد اور حتی کہ جان کے خطرات کا سامنا رہتا ہے، جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک امر ہے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث عناصر کو سزاں سے استثنی حاصل ہونا انصاف کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر صحافت کو آزاد اور محفوظ نہ بنایا گیا تو جمہوریت کمزور پڑ جائے گی اور عوام کے حقِ معلومات پر قدغن لگ جائے گی۔قاضی اشہد عباسی نے مطالبہ کیا کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے مثر قانون سازی کرے، میڈیا ورکرز کے خلاف تشدد کے ہر واقعے کی شفاف تحقیقات کرائی جائے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سخت سزائیں دجائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ آزادیِ صحافت کی علمبردار رہی ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر شہید محترمہ بینظیر بھٹو تک، پارٹی قیادت نے ہمیشہ میڈیا کے احترام اور آزادی کے تحفظ کے لیے قربانیاں دیں۔آخر میں قاضی اشہد عباسی نے تمام صحافیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ سچ لکھنے اور سچ بولنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہی اصل جمہوری جدوجہد ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • لشکری رئیسانی کا مائنز اینڈ منرلز بل سے متعلق سیاسی رہنماؤں کو خط
  • وزیراعظم کی نوازشریف سے ملاقات‘ ملکی مجموعی صورتحال پر گفتگو
  • سابق رہنماؤں کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سیاسی جماعتوں و دیگر سے رابطوں کا فیصلہ
  • وزیر اعلی سہیل آفریدی کا ان ہائو س کمیٹی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کا جرگہ بلانے کا فیصلہ
  • سہیل آفریدی کا سیاسی رہنماؤں سے رابطے کے بعد سیاسی جماعتوں کا جرگہ بلانےکا فیصلہ
  • وزیراعلیٰ پختونخوا کے سیاسی جماعتوں کی قیادت سے رابطے،  امن جرگہ بلانے کا فیصلہ
  • وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ، جرگہ بلانے کا فیصلہ
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)