Express News:
2025-07-27@00:34:03 GMT

سیاسی مخالفین کے خلاف ہمارا مجموعی سیاسی کلچر

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنا ہے۔ہمارا مجموعی مزاج سیاسی تنقید کا کم اور سیاسی دشمنی کا زیادہ غالب نظر آتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مخالفین پر تنقید کے نام پر تضحیک کے پہلو کو نمایاں پیش کرتی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں جمہوری روایات اور طرز عمل پنپ نہیں سکا۔سیاسی جماعتیں جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کے دعوے تو بہت کرتی ہیں لیکن ان جماعتوں کی مجموعی سیاست جمہوری اور اخلاقی اصولوں کے برعکس ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک جماعت کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام بڑی اور چھوٹی جماعتیں اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ایک وجہ قومی سیاست میں حقیقی مسائل کی بنیاد پر ہمیں عملی سیاست کا فقدان نظر آتا ہے۔جب حقیقی مسائل پر مبنی سیاست نہیںہوگی تواس کی جگہ ہمیں غیر سنجیدہ اورالزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں جو ہمیں سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے عدم تسلسل کی کہانی یاجمہوریت کے کمزور ہونے کا عمل دیکھنے کوملتا ہے تو اس کی وجوہات کو دیکھیں توایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے داخلی سطح پر موجود غیر جمہوری طرزعمل اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سیاست بھی ہے جو قومی سیاست پر غالب ہے۔ سیاسی جماعتوں کا دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف الزام تراشیوں کا کھیل ایک طرف ان کے اپنے سیاسی مفادات کے گردگھومتا تھا تو دوسری طرف اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو بھی ہوتا تھا جو سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھاکر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل بھی کرتے تھے۔

ہم جب سیاسی جماعتوں کی طرز سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے بہت سے دوست اس تجزیے کی بنیاد 2011 سے بناتے ہیں۔ان کے خیال میں 2011 سے پہلے پاکستان کی سیاست میں نہ تو کوئی محاذآرئی کا کلچر تھا اور نہ ہی کردار کشی اور گالم گلوچ پر مبنی سیاست۔ان کے بقول یہ سب کچھ 2011 کے بعد سے شروع ہوا ہے اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا جاتا ہے۔پی ٹی آئی پر بہت تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔یقیناً انھوں نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح کوئی اچھی سیاسی روایت قائم نہیں کی ہے۔ لیکن ہم نے جو سیاست 80 اور 90 کی دہائی میں دیکھی ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

اس سیاست میں بہت کچھ ہوا اور مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی کردار کشی تک کی۔ بھٹوصاحب کے خلاف بننے والا پی این اے کا اتحاد ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد ان دونوں اتحادوں کی سیاست مجموعی طورپر منفی اور نفرت کی سیاست پر مبنی تھی اور اس سیاست کی وجہ سے جمہوری عمل متاثر ہوا۔یہ جو بار بار ہمیں ملکی سیاست میں فوجی مداخلتوں کا کھیل دیکھنے کو ملا ،وہ بھی اسی سیاست کا عملی نتیجہ تھا۔

ہمیں مجموعی طورپر اس ناکامی کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کیونکہ ایک طرف بھٹو کے مخالفین تھے دوسری طرف بھٹو کے حامی اور دونوں نے اس کھیل میں نفرت کے بیج بوئے۔ماضی کی سیاست میں ہم نے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلافملک دشمنی ،قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا، بھارت اسرائیل اور امریکا دوستی اور مسلم دشمنی پر مبنی سیاست کو دیکھا ہے۔اس کھیل میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا تھا۔ماضی کی جو منفی سیاست ہم نے دیکھی تھی اب اس کی نئی شکل ہم دیکھ رہے ہیں۔

بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے سبق سیکھا ہے اور اس کی مثال وہ میثاق جمہوریت کو دیتے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میثاق جمہوریت کے بعد بھی یہ جماعتیں ایک دوسرے سے دست وگریبان رہی ہیں اوراس وقت یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کے کھیل شریک ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا، چاہے ماضی کی سیاست ہو یا آج کی سیاست ہم مجموعی طور پر جمہوری سیاست اور جمہوری طرز عمل کو اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا جمہوری تجربہ وہ نتائج نہیں دے رہا جو جمہوری ملکوںکو ملتا ہے۔ہماری جمہوریت آج دنیا کی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہے اور لوگ ہماری جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھارہے ہیں یا ان کو ہماری جمہوریت پر شدید تحفظات ہیں۔

جمہوریت سے مراد اپنے سیاسی مخالفین کی سیاسی قبولیت سے ہوتا ہے اور جمہوری عمل ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا سکھاتا ہے جب کہ ہم جمہوریت کے نام پر سیاسی دشمنی کے کھیل میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ جمہوریت کا سفر پیچھے رہ گیا ہے۔یہ کھیل میںکسی ایک سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کی ناکامی نہیں بلکہ اس میں سب جماعتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔بعض سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی قوتوں کے ایجنڈا کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی سیاست کے بیج بوئے ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں نے یہاں اپنی اپنی جماعتوں کو ایک دوسرے کی عملی مخالفت میں نفرت کے طور پر استعمال کیا ۔ اس لیے ہماری سیاست کے حقائق کافی تلخ ہیں اور ہمیں اپنی اپنی سیاسی پسندوناپسند سے باہر نکل کر ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں قومی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔یہ جو ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر ہم اپنا قومی سیاسی بیانیہ نفرت کی بنیاد پر بنا رہے ہیں، اس سے معاشرے میں سیاسی بنیادوں پر اور زیادہ تقسیم ہوگی۔پہلے ہی ہم بطور معاشرہ سیاسی طور پر بہت تقسیم ہوگئے ہیں اور اس تقسیم نے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔

اس لیے ہمیں ایک نئی سیاست درکار ہے جو لوگوں میں سیاسی نفرت کو کم کرے اور اس عمل میں ہماری سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادت کو بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کرناہوگا۔یہ عمل روائتی اور فرسودہ یا غیر حقیقی سیاسی ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں آگے بڑھے گا۔سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ اپنی سیاست کی سمت کو درست کریں اور سیاست کو جمہوری اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھائیں۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، ہمیںاس عمل میں قومی سطح پرایک تحریک چلانی ہوگی کہ سیاست اور جمہوریت کی بنیاد سیاسی دشمنی پر نہیں بلکہ قومی اورحقیقی مسائل سے جڑی ہونی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی مخالفین سیاسی جماعتوں پر مبنی سیاست ایک دوسرے کے سیاسی جماعت کی بنیاد پر اپنے سیاسی جماعتوں نے جماعتوں کی جمہوریت کے اور جمہوری سیاست میں میں سیاسی کھیل میں سیاست کا کی سیاست نے سیاسی ماضی کی کے خلاف اور اس ہے اور

پڑھیں:

ملک میں وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے جس کی آج ہمیں ضرورت ہے، سعید غنی

تقریب سے خطاب میں پی پی رہنما نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 2007ء میں شہادت کے بعد لوگ کہتے تھے پیپلز پارٹی ختم ہے۔، آصف علی زرداری کی حکمت عملی اور جس انداز میں انہوں نے اپنا سیاسی کردار ادا کیا جس سے پیپلز پارٹی کا اس ملک میں سیاسی کردار مزید بڑھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر و صوبائی وزیر سعید غنی اور پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری سینیٹر سید وقار مہدی نے کہا ہے کہ اس ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے، وہ تب آئے گی جب تمام ادارے اپنے دائرے میں راہ کر کام کریں، صدر آصف علی زرداری کی مرہون منت اس ملک میں 1973ء کا آئین اپنے حقیقی روح کے مطابق رائج ہوا ہے، صوبوں کو اور پارلیمنٹ کو اختیار آصف علی زرداری کی ہی مرہون منت ہے اور ان کی دانش اور سیاسی بصیرت کے باعث اس وقت ملک میں جمہوریت مستحکم ہوتی جارہی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی 2007ء میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مشکلات سے دوچار ہوگئی تھی لیکن آصف علی زرداری ہی تھے، جنہوں نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے منشور اور ان کے وژن کو لے کر اس ملک میں پیپلز پارٹی اور سیاست کو مستحکم کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صدر پاکستان و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ایدھی سینٹر میٹھادر میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ہمراہ سالگرہ کے کیک کاٹنے کی تقریب کے موقع پر کیا۔ 

سعید غنی نے کہا کہ آصف علی زرداری کی سالگرہ کی آج شہر میں بہت تقریبات ہو رہی ہیں، لیکن یہ تقریب سب سے اچھی تقریب ہے، یہ معصوم بچے جن کو ایدھی صاحب نے پالا ہے، ان بچوں کی دعاوں کی بہت تاثیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں اس طرح کے بچے ہیں ان کے ساتھ مل کر خوشیاں منائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فیصل ایدھی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں آج یہ موقع فراہم کیا کہ ہم اس شخص کی سالگرہ یہاں ان بچوں کے ساتھ منائیں جس نے اس ملک میں بحالی جمہوریت اور اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کے وقار کو بلند کیا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی اس ملک کے لئے گراں قدر خدمات ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کی 2007ء میں شہادت کے بعد لوگ کہتے تھے پیپلز پارٹی ختم ہے۔، آصف علی زرداری کی حکمت عملی اور جس انداز میں انہوں نے اپنا سیاسی کردار ادا کیا جس سے پیپلز پارٹی کا اس ملک میں سیاسی کردار مزید بڑھا ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • مون سون بارشیں، 24 گھنٹے کے دوران 6 افراد جاں بحق، 22 زخمی
  • ملک میں وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے جس کی آج ہمیں ضرورت ہے، سعید غنی
  • ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے،سعید غنی
  • صدر زرداری کی 70ویں سالگرہ؛ لاہور میں پروقار تقریب کا انعقاد، 70 پاؤنڈ وزنی کیک کاٹا جائیگا
  • سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی بھارتی پولیس کے ہاتھوں نوجوان کے بہیمانہ قتل کی مذمت
  • آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن
  • صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
  • ہ صوبے میں کسی آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور
  • خیبرپختونخوا حکومت کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کن سیاسی جماعتوں نے آنے سے انکار کیا؟
  • خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ