Express News:
2025-09-18@14:52:46 GMT

سیاسی مخالفین کے خلاف ہمارا مجموعی سیاسی کلچر

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنا ہے۔ہمارا مجموعی مزاج سیاسی تنقید کا کم اور سیاسی دشمنی کا زیادہ غالب نظر آتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مخالفین پر تنقید کے نام پر تضحیک کے پہلو کو نمایاں پیش کرتی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں جمہوری روایات اور طرز عمل پنپ نہیں سکا۔سیاسی جماعتیں جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کے دعوے تو بہت کرتی ہیں لیکن ان جماعتوں کی مجموعی سیاست جمہوری اور اخلاقی اصولوں کے برعکس ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک جماعت کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام بڑی اور چھوٹی جماعتیں اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ایک وجہ قومی سیاست میں حقیقی مسائل کی بنیاد پر ہمیں عملی سیاست کا فقدان نظر آتا ہے۔جب حقیقی مسائل پر مبنی سیاست نہیںہوگی تواس کی جگہ ہمیں غیر سنجیدہ اورالزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں جو ہمیں سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے عدم تسلسل کی کہانی یاجمہوریت کے کمزور ہونے کا عمل دیکھنے کوملتا ہے تو اس کی وجوہات کو دیکھیں توایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے داخلی سطح پر موجود غیر جمہوری طرزعمل اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سیاست بھی ہے جو قومی سیاست پر غالب ہے۔ سیاسی جماعتوں کا دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف الزام تراشیوں کا کھیل ایک طرف ان کے اپنے سیاسی مفادات کے گردگھومتا تھا تو دوسری طرف اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو بھی ہوتا تھا جو سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھاکر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل بھی کرتے تھے۔

ہم جب سیاسی جماعتوں کی طرز سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے بہت سے دوست اس تجزیے کی بنیاد 2011 سے بناتے ہیں۔ان کے خیال میں 2011 سے پہلے پاکستان کی سیاست میں نہ تو کوئی محاذآرئی کا کلچر تھا اور نہ ہی کردار کشی اور گالم گلوچ پر مبنی سیاست۔ان کے بقول یہ سب کچھ 2011 کے بعد سے شروع ہوا ہے اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا جاتا ہے۔پی ٹی آئی پر بہت تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔یقیناً انھوں نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح کوئی اچھی سیاسی روایت قائم نہیں کی ہے۔ لیکن ہم نے جو سیاست 80 اور 90 کی دہائی میں دیکھی ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

اس سیاست میں بہت کچھ ہوا اور مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی کردار کشی تک کی۔ بھٹوصاحب کے خلاف بننے والا پی این اے کا اتحاد ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد ان دونوں اتحادوں کی سیاست مجموعی طورپر منفی اور نفرت کی سیاست پر مبنی تھی اور اس سیاست کی وجہ سے جمہوری عمل متاثر ہوا۔یہ جو بار بار ہمیں ملکی سیاست میں فوجی مداخلتوں کا کھیل دیکھنے کو ملا ،وہ بھی اسی سیاست کا عملی نتیجہ تھا۔

ہمیں مجموعی طورپر اس ناکامی کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کیونکہ ایک طرف بھٹو کے مخالفین تھے دوسری طرف بھٹو کے حامی اور دونوں نے اس کھیل میں نفرت کے بیج بوئے۔ماضی کی سیاست میں ہم نے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلافملک دشمنی ،قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا، بھارت اسرائیل اور امریکا دوستی اور مسلم دشمنی پر مبنی سیاست کو دیکھا ہے۔اس کھیل میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا تھا۔ماضی کی جو منفی سیاست ہم نے دیکھی تھی اب اس کی نئی شکل ہم دیکھ رہے ہیں۔

بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے سبق سیکھا ہے اور اس کی مثال وہ میثاق جمہوریت کو دیتے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میثاق جمہوریت کے بعد بھی یہ جماعتیں ایک دوسرے سے دست وگریبان رہی ہیں اوراس وقت یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کے کھیل شریک ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا، چاہے ماضی کی سیاست ہو یا آج کی سیاست ہم مجموعی طور پر جمہوری سیاست اور جمہوری طرز عمل کو اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا جمہوری تجربہ وہ نتائج نہیں دے رہا جو جمہوری ملکوںکو ملتا ہے۔ہماری جمہوریت آج دنیا کی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہے اور لوگ ہماری جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھارہے ہیں یا ان کو ہماری جمہوریت پر شدید تحفظات ہیں۔

جمہوریت سے مراد اپنے سیاسی مخالفین کی سیاسی قبولیت سے ہوتا ہے اور جمہوری عمل ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا سکھاتا ہے جب کہ ہم جمہوریت کے نام پر سیاسی دشمنی کے کھیل میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ جمہوریت کا سفر پیچھے رہ گیا ہے۔یہ کھیل میںکسی ایک سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کی ناکامی نہیں بلکہ اس میں سب جماعتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔بعض سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی قوتوں کے ایجنڈا کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی سیاست کے بیج بوئے ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں نے یہاں اپنی اپنی جماعتوں کو ایک دوسرے کی عملی مخالفت میں نفرت کے طور پر استعمال کیا ۔ اس لیے ہماری سیاست کے حقائق کافی تلخ ہیں اور ہمیں اپنی اپنی سیاسی پسندوناپسند سے باہر نکل کر ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں قومی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔یہ جو ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر ہم اپنا قومی سیاسی بیانیہ نفرت کی بنیاد پر بنا رہے ہیں، اس سے معاشرے میں سیاسی بنیادوں پر اور زیادہ تقسیم ہوگی۔پہلے ہی ہم بطور معاشرہ سیاسی طور پر بہت تقسیم ہوگئے ہیں اور اس تقسیم نے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔

اس لیے ہمیں ایک نئی سیاست درکار ہے جو لوگوں میں سیاسی نفرت کو کم کرے اور اس عمل میں ہماری سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادت کو بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کرناہوگا۔یہ عمل روائتی اور فرسودہ یا غیر حقیقی سیاسی ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں آگے بڑھے گا۔سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ اپنی سیاست کی سمت کو درست کریں اور سیاست کو جمہوری اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھائیں۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، ہمیںاس عمل میں قومی سطح پرایک تحریک چلانی ہوگی کہ سیاست اور جمہوریت کی بنیاد سیاسی دشمنی پر نہیں بلکہ قومی اورحقیقی مسائل سے جڑی ہونی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی مخالفین سیاسی جماعتوں پر مبنی سیاست ایک دوسرے کے سیاسی جماعت کی بنیاد پر اپنے سیاسی جماعتوں نے جماعتوں کی جمہوریت کے اور جمہوری سیاست میں میں سیاسی کھیل میں سیاست کا کی سیاست نے سیاسی ماضی کی کے خلاف اور اس ہے اور

پڑھیں:

اقوام متحدہ مالی بحران کا شکار،مجموعی وسائل کم پڑ گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 نیویارک:۔ اقوام متحدہ کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے جس کے باعث عالمی ادارہ مجموعی وسائل میں15.1 اور ملازمین کی تعداد میں18.8 فیصد کمی کر رہا ہے، کرائے پر لی گئی عمارتیں خالی کی جارہی ہیں جبکہ جنیوا اور نیویارک کے ملازمین کی تنخواہوں کا مرکزی نظام قائم کیا جائے گا قیام امن کی کارروائیوں کا بجٹ بھی کم کیا جارہا ہے چند اہم ذمہ داریاں نیویارک اور جنیوا جیسے مہنگے مراکز سے کم لاگت والے مراکز میں منتقل کی جائیں گی۔

اقوام متحدہ کی مشاورتی کمیٹی برائے انتظامی و میزانیہ امور (اے سی اے بی کیو) کو پیش کیے نظرثانی شدہ تخمینوں میں رواں سال کے مقابلے میں اقوام متحدہ کے وسائل میں 15.1 فیصد اور اسامیوں میں 18.8 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے۔ 26-2025 میں قیام امن کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے فنڈ میں بھی کٹوتیاں کی جائیں گی۔ اس فنڈ کے ذریعے امن کاری سے متعلق مشن اور عملے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔

اے سی اے بی کیو کی سفارشات جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو پیش کی جائیں گی جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور میزانیے (بجٹ) کے امور پر فیصلے کریں گے۔ مزید بچت املاک میں کمی کے ذریعے کی جائے گی اور ادارہ 2027ءتک نیویارک میں کرائے پر لی گئی دو عمارتوں کو خالی کر دے گا جس کی بدولت 2028 سے سالانہ سطح پر بچت متوقع ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے کام کی تکرار کو کم کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک کے نام خط میں کہا ہے کہ یہ کٹوتیاں ان اقدامات کے بعد کی گئی ہیں جو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے اٹھائے گئے تھے کہ اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کا نفاذ کیسے ہو رہا ہے اور ان کے لیے وسائل کس طرح مختص کیے جا رہے ہیں۔

ادارے کے چارٹر کے تین بنیادی ستونوں یعنی امن و سلامتی، انسانی حقوق اور پائیدار ترقی کے درمیان توازن کو برقرار رکھتے ہوئے سیکرٹریٹ کی مختلف اکائیوں نے خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے طریقے ڈھونڈے تاکہ وسائل کے استعمال کو موثر بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی ایوانِ نمائندگان نے الہان عمر کے خلاف سرزنش کی قرارداد مسترد کر دی
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • اقوام متحدہ مالی بحران کا شکار،مجموعی وسائل کم پڑ گئے
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • غزہ کی صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر ناقابلِ برداشت ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی حکام پر پابندیوں کا بل
  • بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں
  • مدد کے کلچر کا فقدان
  • جمہوریت عوام کی آواز ہے اور اس کی حفاظت ہم سب پر لازم ہے‘وزیراعلیٰ