حیدرآباد،چارجڈ پارکنگ مافیا کی ہٹ دھرمی برقرار
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان مسلم لیگ فنکشنل مرکزی نائب صدر پیر یاسر سائیں کے میڈیا کوآرڈنیٹر حیدرآباد شاہد خان اور دیگر نے اپنے ایک بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کے بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے چارجڈ پارکنگ مافیا کی ہٹ دھرمی برقرار حیدراباد سنٹرل جیل روڈ سے لے کر بون کیر ہاسپٹل الرحیم شاپنگ سینٹر داد مارٹ نسیم سینٹر ریشم بازار بینک الحبیب نیو کلاتھ مارکیٹ روڈ کوہ نور چوک یہاں تک کہ رہائشی علاقوں میں چھوٹی بڑی مارکیٹیں بھی موٹر سائیکل پارکنگ کا گڑھ بن چکا ہیں ضلع انتظامیہ اور بلدیہ حیدراباد کا گڈ ھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے یہاں تک کہ پیدل چلنے والے شہریوں کے لیے فٹ پاتھ بھی میسر نہیں پورے حیدراباد کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے جہاں سے لاکھوں روپے منتھلیاں وصول کی جاتی ہیں شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے منشات کی روک تھام کے حوالے سے بھی کئی بار احکامات جاری کیے تھے جو پورے نہ ہو سکے اور اب پارکنگ کے ٹھیکے پر بلند بانگ دعوے جس پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آرہا پارکنگ مافیا نے یہ احکامات ہوا میں اڑا دیے جس سے انے والے دنوں میں مارکیٹو بازاروں میں رش بڑھنے سے شہریوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہی ہوگا جس کے لیے انہوں نے اپنے بیان میں حکام بالا سے مطالبہ کیا ہے کہ پارکنگ ٹھیکا مافیا سے شہریوں کی جان چھڑائی جائے تاکہ روڈز کلیئر ہو اور کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو جس کے لیے ایک حکمت عملی ترتیب دی جائے اور چارجڈ پارکنگ مافیا سے جان چھڑائی جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پارکنگ مافیا
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی