پرویز خٹک پھر سرگرم، 22 فروری کو مستقبل کا اعلان متوقع، کیا ناراضی ختم ہوگئی؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور عمران خان کے قریبی ساتھی پرویز خٹک، جو عام انتخابات میں شکست کے بعد سیاست سے تقریباً کنارہ کش ہوگئے تھے، ایک بار پھر سرگرم نظر آرہے ہیں اور 22 فروری کو نوشہرہ کے جلسے میں اپنے سیاسی مستقبل کا اعلان کریں گے۔
پرویز خٹک الیکشن میں ناکامی کے بعد ناراض تھے اور سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئے تھے، اس وقت انھوں نے موقف اپنایا کہ کہ وہ سیاست سے بریک لینا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیرداخلہ سے پرویز خٹک کی ملاقات، ترقی میں رکاوٹیں ڈالنے عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ
پی ٹی آئی کے سابق رہنما کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک نے رواں ماہ اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرتے ہوئے ملاقتیں کی ہیں، یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پرویز خٹک کو حکومت کی جانب سے وفاقی کابینہ میں شمولیت کی پیشکش بھی ہوئی تھی۔
پرویز خٹک کی ناراض بھائی سے صلحپرویز خٹک کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک کی اپنے بھائی لیاقت خٹک سے صلح ہوگئی ہے اور وہ پرویز خٹک کی سرپرستی میں کام کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔
خاندانی ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک اور ان کے بھائی لیاقت خٹک میں اختلافات پرویز خٹک کے وزارت اعلیٰ کے زمانے سے تھے جو پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت میں کھل کر سامنے آئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اصل اختلافات بھائیوں کے علاوہ ان کے بچوں کے مابین بھی تھا، جو صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایک دوسرے کے مخالف تھے۔
مزید پڑھیں: انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک کہاں غائب ہیں؟
ان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ سیاست سے دوری کے اعلان کے بعد پرویز خٹک خاندانی معاملات کو درست کرنے میں مصروف تھے اور آخر کار بھائی کو منانے میں کامیاب ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے پرویز خٹک نے بھائی سے طویل مشاورت کے بعد ان کے بیٹے بھی اختلافات بھلا کر ایک ہو گئے ہیں، پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک اور ان کا خاندان اس وقت جمعیت علما اسلام ف کے ساتھ وابستہ ہیں اور کل ہونے والے جلسے کی تیاریوں اورانتظامات کو دیکھ رہے ہیں۔
کیا پرویز خٹک کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان کریں گے؟پرویز خٹک سیاست میں دوبارہ سرگرم ہونے کے بعد کئی اہم ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں، کچھ دن پہلے ان کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے بھی خبریں گردش کر رہی تھیں۔
تاہم جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی حالیہ ملاقات کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر جے یو آئی میں شمولیت کا اعلان کرنیوالے ہیں کیونکہ ان کے بھائی بھی جے یو آئی میں ہیں، تاہم پرویز خٹک ابھی تک چپ سادھے ہوئے ہیں۔
پرویز خٹک کی دوبارہ سیاسی انٹری؛ پی ٹی آئی پر کوئی اثر پڑے گا؟پرویز خٹک کے قریبی بتاتے ہیں کہ انہیں پی ٹی آئی کے ووٹ بینک توڑنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور گزشتہ الیکشن جیت کر دوبارہ وزیر اعلی بننے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی تھی لیکن بری طرح انتخابی شکست کے بعد سے وہ سخت ناراض تھے۔
تاہم اب وہ دوبارہ اپنی سابقہ جماعت پی ٹی آئی کے خلاف ہی سرگرم نظر آئیں گے اور عمران خان کو ہی ہدف بنائے رکھیں گے، تاہم سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافیوں کے مطابق پرویز خٹک کی انٹری سے کسی بھی جماعت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
مزید پڑھیں: پرویز خٹک کی ناراض بھائی سے صلح، کیا ن لیگ میں شمولیت سے صوبے میں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم ملے گا؟
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے صحافی شہاب الرحمان کے مطابق پرویز خٹک کا اب پہلے جیسا اثر رسوخ نہیں رہا، جس کا انہیں خود بھی اندازہ ہے۔ ’عام انتخابات میں ناکامی کے بعد پرویز خٹک کو یقین ہو گیا ہوگا کہ ووٹ بینک ان کا نہیں بلکہ عمران خان کا ہے۔‘
شہاب الرحمان کے مطابق پرویز خٹک کے آبائی حلقے مانکی شریف میں اب بھی لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ ’۔۔۔کیونکہ انہوں نے مانکی میں بہت کام کیا ہے، نوکریاں دی ہیں لوگوں کو، اسی بنا پر ان کی عزت ہے۔‘
شہاب الرحمان نے بتایا کہ پرویز خٹک کسی بڑی سیاسی جماعت میں شامل ہو کر اپنے حلقے میں مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن یہ پھر بھی بہت آسان نہیں ہو گا۔
مزید پڑھیں: پرویز خٹک کی گواہی، عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرینس میں کیا نیا موڑ لائے گی؟
’پرویز خٹک سیاست کے گُرو سمجھے جاتے ہیں اور وہ کچھ سوچ کر ہی جلسہ کرنے جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے بھائی لیاقت خٹک کے ساتھ مل کر جے یو آئی میں شمولیت اختیار کرلیں۔ ‘
صحافی شہاب الرحمان کے مطابق انہیں نہیں لگتا کہ پرویز خٹک کی انٹری سے پی ٹی آئی پر کوئی اثر پڑے گا۔ ’مطلب کوئی فرق نہیں پڑے گا، پی ٹی آئی والے عمران خان سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، جو بھی ان کے خلاف بولے گا اس کے پیچھے پی ٹی آئی کے حامی ہاتھ دھو کر پڑیں گے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پرویز خٹک پی ٹی آئی جے یو آئی شہاب الرحمان عمران خان لیاقت خٹک ووٹ بینک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پرویز خٹک پی ٹی ا ئی جے یو ا ئی شہاب الرحمان لیاقت خٹک ووٹ بینک شہاب الرحمان پرویز خٹک کے پرویز خٹک کی پی ٹی ا ئی کے نے بتایا کہ میں شمولیت جے یو ا ئی کے مطابق کے قریبی کا اعلان پڑے گا کے بعد
پڑھیں:
پاک افغان جنگ بندی کے لیے ترکیہ اور ایران سرگرم، کیا اس بار کوششیں کامیاب ہوسکیں گی؟
استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد علاقائی قوّتیں اور پاکستان کے دوست ممالک بھی دونوں ممالک کے درمیان قیامِ امن کے حوالے سے سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔
7 نومبر کو آذربائیجان کے یومِ فتح تقریبات میں وزیراعظم شہباز شریف نے شرکت کی جہاں دارلحکومت باکو میں وزیراعظم شہباز شریف اور ترکیے کے صدر رجب طیب اُردوان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی قائم رکھنے پر بات چیت کی گئی۔
صدر رجب طیّب اُردوان نے کہا کہ تُرکیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو غور سے دیکھ رہا ہے اور وہ مذاکرات اور استحکام کی حمایت کرتا رہے گا۔ صدر طیّب اردوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تُرک وزیرِ خارجہ خاقان فیدان، ترک وزیرِ دفاع یاسر گولیر، اور تُرک انٹیلی جینس چیف ابراہیم کالِن اگلے ہفتے اِسلام آباد کا دورہ کریں گے اور دونوں مُلکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی، ایران نے مصالحتی کردار کی پیشکش کردی
دوسری طرف برادر اِسلامی مُلک ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے گزشتہ روز افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلی فونک گفتگو کی جس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے متعلق بات چیت کی گئی۔ افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران دونوں مُلکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
اصل مسئلے کے بجائے افغان مذاکرات کاروں نے غیر متعلقہ اور مبہم بیانیہ اختیار کیا: پاکستانی وزارتِ خارجہ
افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان مُتّقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کوئی ذمّے داری اُٹھانے کو تیار نہیں جبکہ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اپنے مفصّل جواب میں مذاکرات کی ناکامی کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 4 برس میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور پاکستان نے فوجی و شہری نقصانات کے باوجود انتہائی تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان نے اس عرصے میں اس امید کے ساتھ افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری روابط استوار رکھنے کی بھرپور کوشش کی کہ طالبان انتظامیہ دہشتگرد گروہوں، بالخصوص ٹی ٹی پی، کے خلاف مؤثر اور قابلِ تصدیق اقدامات کرے گی۔ پاکستان نے تجارت، انسانی امداد، ویزوں کی سہولت اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان حکومت کے لیے مثبت سفارتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے افغانستان کی استحکام، امن اور خوشحالی کو اولین مقصد کے طور پر رکھا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کی جانب سے پاک افغان جنگ بندی کا خیرمقدم، قیام امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیدیا
تاہم، ان تمام مثبت اقدامات کے باوجود طالبان انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی بنیادی توقع، یعنی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینا، پوری نہیں کی گئی، اور اس کے بجائے مسئلے کے اصل پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر متعلقہ اور مبہم بیانیہ اختیار کیا گیا، جو نہ صرف بین الاقوامی ذمہ داریوں سے انحراف ہے بلکہ افغانستان اور خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی مضر ہے۔
افغانستان اپنی ذمے داریوں سے انحراف کر رہا ہے، پاکستان وزارتِ خارجہ
پاکستان وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی بنیادی توقع یہ رہی ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، تاہم طالبان انتظامیہ اس اہم ذمہ داری پر عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات کرنے سے مسلسل گریز کرتی رہی ہے اور اس کے بجائے اصل مسئلے یعنی دہشتگردی کو غیر متعلقہ اور ضمنی معاملات کے ساتھ خلط ملط کر کے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرتی رہی ہے جو اسے اپنی بین الاقوامی اور داخلی ذمہ داریوں سے بری ظاہر کرے۔
اکتوبر 2025 میں افغانستان کی جانب سے جاری حملوں کے جواب میں پاکستان کا ردعمل اس کے اس عزم اور ارادے کی عکاسی تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور اپنے عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے ریاستِ پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن قرار دیے جا چکے ہیں، اور جو بھی ان کی سرپرستی، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان اور اس کے عوام کا خیر خواہ نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان اپنے قومی مفادات اور اپنے شہریوں کی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے پُرعزم ہے۔
مزید پڑھیں: پاک فوج کا اسپن بولدک اور چمن سیکٹر میں بھرپور جواب، افغان طالبان نے جنگ بندی کی درخواست کر دی
افغان مذاکرات کار صرف بات چیت کو طول دینا چاہتے تھےاستنبول میں ہونے والا دوسرا دور دراصل دوحا میں ہونے والے پہلے دور میں طے پانے والے اقدامات کے لیے ایک مانیٹرنگ میکنزم طریقہ کار ترتیب دینے کے لیے تھا، تاہم طالبان انتظامیہ کے نمائندے عملی اقدامات سے گریز کرتے رہے اور اپنے پہلے کیے گئے وعدوں سے پسپائی اختیار کرنے کی کوشش کی، ساتھ ہی الزام تراشی اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے ماحول کو متاثر کیا۔
پاکستان نے مسلسل اس اپنے بنیادی مطالبے پر زور برقرار رکھا کہ افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد عناصر کے خلاف قابلِ تصدیق اور ٹھوس کارروائی کی جائے اور ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے۔ ترکی اور قطر جیسے برادر ممالک کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی پیروی کرنے والا ہر شخص یہ باآسانی دیکھ سکتا تھا کہ طالبان انتظامیہ محض عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی تھی، بغیر اس کے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے عناصر کے خلاف کوئی عملی اور قابلِ تصدیق اقدام کیا جائے۔
پاکستان کے بنیادی تحفظاتی خدشے کے حل کے بجائے افغان انتظامیہ نے مفروضاتی الزامات اور جذباتی بیانیے کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، مذاکرات کو طول دیا اور غیر ضروری بحث میں الجھ کر کسی ٹھوس اتفاقِ رائے تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول افغانستان پاکستان ترکیہ اور ایران