عمران خان فوج کو اپنی جماعت کا ذیلی ادارہ بنانا چاہتے تھے: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بانئ پی ٹی آئی چاہتے تھے کہ فوج ان کی جماعت کا ذیلی ادارہ بن جائے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی اپنے زخم چاٹ رہی ہے، مذموم مقاصد کے لیے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات رونما کیے گئے۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ قومی املاک پر حملے اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کے واقعات حقیقت ہیں، پی ٹی آئی والوں کی سیاست ایک ذات کے لیے ہے، انہیں ملک کی کوئی فکر نہیں، پی ٹی آئی کا طرزِ عمل ہر گز سیاسی نہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہے، معاشی میدان میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں، قومی محاذ پر کامیابیوں سے پی ٹی آئی کی پریشانی اور بیزاری بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف نے ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کیں، یہ سنجیدہ لوگ نہیں، ذاتی مفادات کے لیے ترلے کر رہے ہیں۔
وزیرِ دفاع نے کہا کہ عوام باشعور ہیں، پی ٹی آئی کا مکروہ چہرہ سامنے آگیا ہے، ملک کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہوں گی، ہم نے سیاسی انتقام کا سامنا کیا، لیکن ملکی وقار کے خلاف کوئی بات نہیں کی، انتشار کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی۔
خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے برطانیہ کے ساتھ اہم سفارتی، عسکری اور معاشی تعلقات ہیں، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات مثالی ہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر برطانیہ کے اہم دورے پر ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہنا ہے کہ خواجہ آصف پی ٹی آئی کے لیے
پڑھیں:
چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔
جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔
شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔
ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔
شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔